صدر مرسی کا ’ریاستی قتل‘

جو سلوک مرسی کے ساتھ کیا گیا، اس طرح کی بربریت کا تو عادی مجرموں کے ساتھ بھی مظاہرہ نہیں کیا جاتا لیکن یہی شیوہ ہے آمروں کا اور اس طرح کی سفاکیت تاریخ میں عوامی نمائندوں کے ساتھ ہوتی رہی ہے۔

محمد مرسی8 مئی ، 2014 کو ایک پنجرے میں قید قاہرہ کی عدالت میں اپنے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کے دوران (فائل، اے پی)

صدر مرسی کی مصری عدالت میں موت نے جمہوری دنیا کو ایک صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ عرب بہار کا مصر میں ایسا دردناک اختتام کسی نے بھی نہ سوچا ہوگا۔

جمہوری قیادت کے ساتھ اس قدر وحشیانہ سلوک ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ہی دیکھا گیا ہے۔ ایسا سلوک تو لاکھوں لوگوں کے قاتلوں کے ساتھ دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی نہیں کیا گیا تھا۔ پچھلے چھ سالوں کی قید میں صدر مرسی کو صرف تین بار اپنے خاندان سے ملنے دیا گیا۔

مجھے ایک مطالعاتی گروپ کے ساتھ 2013 میں صدر مرسی کی حکومت ختم ہونے سے ایک مہینہ پہلے مصر جانے کا موقع ملا جس سے مجھے مصر کی سیاسی صورتحال کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ ہماری ملاقاتیں مختلف سیاسی رہنماؤں، تھنک ٹینکس، اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور قومی اخباروں کے ایڈیٹوریل بورڈز کے ساتھ ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عام لوگوں سے بھی مصر میں سیاسی صورتحال پر بات کرنے کا موقع ملا۔ ان سب ملاقاتوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی کہ صدر مرسی کی حکومت کو عوامی سطح پر تو کوئی بہت بڑے خطرے کا سامنا نہیں اور یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بھی بہت آسانی تھی کہ فوجی قیادت کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں یقینی پیش گوئی مشکل نہیں۔ 

قاہرہ میں آمد کے فوراً بعد ہوائی اڈے پر ہی اندازہ ہوگیا کہ مرسی حکومت کو گورننس کے کچھ مصنوعی طور پر پیدا کردہ چیلنجوں کا سامنا تھا۔ ایئرپورٹ پر کافی دیر تک بجلی کا نہ ہونا بڑھتے ہوئے مسائل کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ بعد میں پیٹرول سٹیشن پر لمبی قطاروں سے اندازہ ہوگیا کہ ملک میں پیٹرول کی بروقت ترسیل کا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن مرسی حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد یہ قلتیں معجزاتی طور پر ختم ہوگئیں۔

یہ حقیقت بعد میں آشکار ہوئی کہ فوجی قیادت اور مرسی مخالف نوکر شاہی یہ مصنوعی بحران پیدا کرنے میں پوری طرح شامل تھی اور یہ مرسی حکومت کے خلاف عوامی جذبات ابھارنے کا ایک حربہ تھا۔ ان تمام مصنوعی اقدامات کے باوجود قاہرہ ایک پر امن اور مصروف شہر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ماضی کے مقابلے میں بہت کم سڑکوں پر پولیس کی تعداد نظر آتی تھی اور اس کے باوجود جرائم کی سطح حیران کن حد تک کم تھی۔

ہمیں راتوں کو دیر تک سڑکوں پر چہل قدمی کرتے ہوئے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ مختلف تفریحی مقامات اور ریستوران لوگوں سے بھرے ہوتے تھے۔ مرسی کی اسلامی حکومت کے باوجود مختلف ریستورانوں میں بیلی ڈانسرز اپنی پرفارمنس بلا خوف و خطر ادا کر رہے تھے اور کہیں بھی اسلام پسندوں کی طرف سے ان تفریحی مقامات کو زبردستی بند کرنے کی کوششیں نظر نہ آئیں۔

ہوٹلوں کی لابیز میں آپ کو فنکار مغربی کلاسیکی موسیقی پیانو پر بجاتے دکھائی دیتے، شادیوں میں ہر قسم کے مغربی ملبوسات اور مشروبات کا کھلا استعمال ہورہا تھا اور کہیں بھی اسلام پسندوں کی تشدد پسندی دکھائی نہ دی۔

اس سے صاف نظر آ رہا تھا کہ اسلام پسندوں نے انتخابات جیتنے کے باوجود اسلامی نظام کو نافذ کرنے میں کسی زبردستی کا مظاہرہ نہ کیا۔ ترقی پسندوں کو آئین میں کچھ دفعات پر اعتراضات تھے جو مرسی حکومت گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ نظر آتی تھی۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ مغرب زدہ نوکر شاہی اور فوجی قیادت کسی صورت بھی مرسی حکومت کو کام کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہے تھے۔ انہیں مرسی حکومت سے اپنا طرز زندگی، اشرافی حیثیت اور وسائل پر قبضہ خطرے میں نظر آرہا تھا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی پسند جمہوری قوتوں کے خدشات کو ہوا دی گئی کہ ان کا طرز زندگی اور جمہوریت ایک زبردست بقائی خطرے سے دوچار ہے اور مرسی اور اخوان کا خاتمہ مصر کی سلامتی کے لیے از حد ضروری ہے۔ مجھے مصری سفارت کاروں سے ملاقاتوں میں یہ خدشات اور واضح طور پر نظر آئے۔ وہ جمہوریت چاہتے تھے مگر اس میں اسلام پسندوں کی اکثریت یا کسی قسم کا بھی کردار انہیں ہرگز قابل قبول نہیں تھا۔ 

یہ تمام محرکات جولائی 2013 میں مرسی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئے۔ ایک مقابلتاً چھوٹے گروہ کی تحریر اسکوائر پر مظاہروں کو بنیاد بنا کر جنرل سیسی نے مرسی حکومت کا خاتمہ کیا اور جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے اس کی بہت عرصہ پہلے تیاری کی گئی اور حالات کو جان بوجھ کرخراب کیا گیا۔ اسلام پسندوں کو اور اخوان کو ہمیشہ ختم کرنے کے لیے قاہرہ اور دیگر شہروں میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو ملکی سلامتی کے نام پر سفاکانہ طور پر قتل کیا گیا۔ 

صدر مرسی کی کمرہ عدالت میں موت مصری معاشرے کو اور تقسیم کرے گی اور موجودہ طاقتوں کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہوگا اور یہ کسی طرح ملکی سلامتی کے لیے سودمند نہیں ہوگا۔

جو سلوک مرسی کے ساتھ کیا گیا، اس طرح کی بربریت کا تو عادی مجرموں کے ساتھ بھی مظاہرہ نہیں کیا جاتا لیکن یہی شیوہ ہے آمروں کا اور اس طرح کی سفاکیت تاریخ میں عوامی نمائندوں کے ساتھ ہوتی رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امر دلیل اور عوامی رائے کو سمجھنے سے انکار کرتے ہیں اور ہمیشہ تشدد کا راستہ ہی اختیار کرتے ہیں۔

 صدر مرسی کی موت افسوس ناک ہے مگر یہ شروع دن سے نظر آ رہا تھا کہ مصری فوج اور ان کے سول حامی عناصر اس جمہوریت کو زیادہ دیر نہیں چلنے دیں گے۔ مصر کے مختلف فوجی صدور نے ایک خاص طبقے کو سات دہائیوں پر محیط عرصے تک پالا۔ یہ طبقہ مغربی تہذیب کے قریب تھا اور حکومت اور فوج میں کلیدی عہدوں پر فائز رہا۔ اس طبقے کی کچھ اس طرح تربیت کی گئی کہ وہ مذہب پسند طبقوں اور خصوصاً اخوان سے شدید نفرت کرتا تھا۔ اس طبقے میں بہت سے لوگ جمہوریت تو چاہتے تھے مگر مذہب پسند جماعتوں اور اخوان کے بغیر۔

ا س طبقے سے بے شمار لوگ مصر میں عرب بہار تحریک کے روح رواں بھی رہے۔ یہی طبقہ 2012 کے صدر مرسی کے الیکشن سے بہت مایوس ہوا اور اسی طبقے کو مصری فوجی قیادت نے 2013 میں صدر مرسی کے خلاف تحریک میں استعمال کیا۔ اس تحریک کو استعمال کرتے ہوئے، جسے کوئی بہت زیادہ عوامی پذیرائی حاصل نہ تھی، صدر مرسی کی حکومت کو ختم کیا گیا۔ اس حمایت نے مصر میں جمہوریت کا خاتمہ کیا اور پھر سے فوجی آمریت کی واپسی کا راستہ ہموار کیا۔

اس مغرب زدہ جمہوری طبقے نے اخوان کی دشمنی میں مصر میں جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور ایسا لگتا ہے کہ مصر میں جمہوریت اب دہائیوں بعد کسی خونی انقلاب کے بعد ہی واپس آئے گی۔ اس وقت اس چیز کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ مصر میں جمہوریت کا تجربہ کیوں ناکام ہوا اور کون سی داخلی طاقتیں اس عمل کی کامیابی میں روڑے اٹکاتی رہیں۔ 

مرسی کی موت سے پیدا ہونے والی سیاسی بے چینی مصر کی معاشی ترقی کو بھی متاثر کرے گی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ مصری حکومت کو بھی ان خطرات کا ادراک پاکستانی حکومت کی طرح نہیں ہے۔ مصر کی طرح پاکستان میں بھی نفرت اور تقسیم کی مہم زور و شور سے جاری ہے اور لگتا ہے کہ جمہوری قوتوں کو مسلسل کمزور کرنے کا یہ سلسلہ دونوں ملکوں میں تسلسل سے جاری رہے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر