وزیرستان میں دفعہ 144: انتخابی امیدواروں کی مہم حجروں تک محدود

قبائلی اضلاع میں انتخابات کے لیے امیدواران شکایت کر رہے ہیں کہ انہیں دفعہ 144 کے نفاذ کی وجہ سے ہراساں کیا جارہا ہے اور ان کی مہم میں مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں۔

(اے ایف پی)

’ہم حجروں اور گاؤں کی سطح پر انتخابی مہم کے حوالے سے کارنر میٹنگ تو کرتے ہیں لیکن دفعہ 144 کے نفاذ کی وجہ سے بڑا جلسہ نہیں کر سکتے۔ اور اگر انتظامیہ چاہے تو کارنر میٹنگ پر بھی ہمیں اس دفعہ کے تحت گرفتار کر سکتی ہے۔‘

یہ کہنا تھا اسداللہ شاہ کا جو شمالی وزیرستان کے حلقہ 111 سے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسداللہ کو علاقے میں دفعہ 144کے نفاذ پر تشویش ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب تک وہ کارنر میٹںگ اور اتنخابی مہم چلا رہے ہیں لیکن پھر بھی انتخابات سے قبل اس قسم کے دفعات لاگو کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ 70 سے 80 لوگوں کی کارنر میٹنگ کرتے ہیں اور ابھی تک انہیں انتظامیہ کی جانب سے کچھ نہیں کہا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم شدہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات 20 جولائی کو ہو رہے ہیں۔

انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواران میدان میں اتار دیے ہیں تاہم کچھ امیدواران شکایت کر رہے ہیں کہ انہیں دفعہ 144 کے نفاذ کی وجہ سے ہراساں کیا جارہا ہے اور ان کی مہم میں مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں۔

جمعرات کو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی ) نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے جنوبی وزرستان کے وانا بازار میں ان کے ضلعی دفتر پر چھاپہ مارا اور انہیں ’بے جا تنگ کیا۔‘

اے این پی کے امیدواران تاج وزیر نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ دفعہ 144 کے بہانے سیاسی جماعتوں کو بے جا تنگ کر رہی ہے۔ ان کے مطابق چھاپے کے دوران ضلعی راہنماوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔

انہوں نے بتایا: ’تحریک انصاف کے علاوہ تمام جماعتوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور اس سارے معاملے پر الیکشن کمیشن کی خاموشی معنی خیز ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح گذشتہ روز شمالی وزیرستان میں آزاد حیثیت سے انتخابات لڑنے والے امیدواران نے  دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف بنوں پریس کلب میں پریس کانفرنس بھی کی۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حلقہ پی کے 112 سے  آزاد امیدوار اجمل داوڑ نے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے انہیں بتایا گیا ہے کہ دفعہ 144 نافذ ہوچکی ہے اور اب ایک امیدوار کے ساتھ پانچ بندوں سے زیادہ کارکنان الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکتے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کے انتظامیہ مخصوص امیدواروں کو سپورٹ کر رہی ہے جبکہ باقی امیدواران کو انتخابی مہم سے دور رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کس قسم کے انتخابات ہو رہے ہیں جہاں امیدواروں پر جلسے جلوس کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

اس حوالے سے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی نے بتایا کہ دفعہ 144 کا بہانہ بنا کر غیر قانونی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ وہ اس ’غیر قانونی اقدام‘ کا سخت نوٹس لیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو قید کیا جارہا ہیں۔

حکومتی موقف

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرکزی ترجمان الطاف خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس معاملے پر الیکشن کمیشن نے صوبائی محکمہ داخلہ و قبائلی امور کو خط لکھا ہے اور اس سلسلے میں سیکرٹری محکمہ داخلہ جمعے (آج) کو کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا دفعہ 144 کا نفاذ الیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہے، تو انہوں نے کہا کہ اس طرح کی دفعات میں لوگوں کی گرفتاریوں سے انتخابی مہم متاثر ہوتی ہے اور اسی وجہ سے متعلقہ محکمہ کو بتایا ہے کہ وہ کمیشن میں پیش ہو کر اس کی وضاحت کریں۔

ترجمان نے مزید کہا: ’اس معاملے پر مزید بات سیکرٹری محکمہ داخلہ و قبائلی امور کی پیشی کے بعد ہو سکتی ہے کہ کس وجہ سے یہ دفعہ لگائی گئی ہے جو انتخابی مہم کو متاثر کرہی ہے۔‘

یاد رہے کہ وزیرستان میں ضلعی انتظامیہ نے امن وامان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کی ہے۔ اس حوالے سے جاری کردہ نوٹیفیکشن میں لکھا گیا ہے کہ چونکہ ضلعی انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ کچھ عناصر کی جانب سے جلسے جلوس منعقد کرنے اور اس میں ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقروں سے امن و امان کی صورتحال کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس لیے ہر قسم کے جلسے جلوسوں پر ایک مہینے کے لیے پابندی ہوگی۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ضلعی پولیس افیسر شفیع اللہ اور ریجنل پولیس افیسر فیروز شاہ سمیت ڈپٹی کمشنر عبدالناصر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان