اشتر اوصاف علی اٹارنی جنرل آف پاکستان مقرر

اشتر اوصاف علی نے غیرت کے نام پر قتل اور سمجھوتہ سے متعلق قانون سازی کی اصلاحات کا مسودہ تیار کیا تھا اور جانشینی کے سرٹیفکیٹ کے حصول کے طریقہ کار کو تبدیل کیا تھا۔

اشتر اوصاف علی کو وزیر اعظم شہباز شریف نے اٹارنی جنرل آف پاکستان مقرر کر دیا ہے (تصویر: اشتر علی ایل ایل پی)

پاكستان كے وزیراعظم شہباز شریف نے معروف قانونی ماہر اشتر اوصاف علی كی بحیثیت اٹارنی جنرل آف پاكستان تعیناتی كر دی ہے۔

پاكستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) كے دور حکومت میں اٹارنی جنرل آف پاكستان خالد جاوید خان نے سابقہ حكومت كے خاتمے كے فورا بعد عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

پاكستان مسلم لیگ نواز كے دور حكومت میں بھی اٹارنی جنرل آف پاكستان رہنے والے اشتر اوصاف علی 2015۔2016 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف بھی رہ چکے ہیں۔

جون 1956 میں لاہور میں پیدا ہونے والے اشتر اوصاف علی دو مرتبہ پاكستان كے سب سے بڑے صوبے پنجاب كے ایڈوکیٹ جنرل (98۔99 اور 12۔13) كی ذمہ داریاں نبھانے كے علاوہ اسی صوبے كے پراسیكیوٹر جنرل (2011۔2012) بھی رہ چکے ہیں۔

آزاد عدلیہ کی بحالی کے لیے وکلا کی تحریک کی بھی وہ حمایت كرتے رہے ہیں اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2007 میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد پانچ نومبر كو اشتر اوصاف علی کو لاہور میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے دفتر سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

وہ زیر حراست ہی تھے جب انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ اسپتال میں داخل كرائے گئے تھے۔

بحیثیت اٹارنی جنرل

سپریم كورٹ آف پاكستان كے وكیل عمران شفیق كا كہنا ہے كہ ’اشتر اوصاف ایك سینیئر اور تجربہ كار وكیل ہیں اور وہ اہم سركاری عہدوں پر بھی كام كر چكے ہیں۔

انہوں نے كہا كہ اہم عہدوں پر كام كرنے كے باعث ان كا ریاست اور حكومتی معاملات سے متعلق معلومات اور تجربہ كافی زیادہ ہے۔

ان کے مطابق: ’اس پس منظر میں میں كہہ سكتا ہوں كہ اشتر اوصاف ایک اچھے اور كامیاب اٹارنی جنرل ہوں گے۔‘

تاہم بعض ماہرین ماضی میں اشتر اوصاف كی بحیثیت اٹارنی جنرل كاركردگی كو بہت زیادہ اچھا قرار نہیں دیتے۔

سپریم كورٹ كے ایک اور وكیل نے اس سلسلے میں پاناما مقدمے كا حوالہ دیتے ہوئے كہا كہ اس كیس میں اشتر اوصاف كا بحیثیت اٹارنی جنرل كردار بہت زیادہ موثر نہیں تھا۔

نام ظاہر نہ كرنے كی شرط پر انہوں نے كہا كہ تحریک انصاف کی حكومت كے دوران سپریم كورٹ كے سامنے اس وقت كے اٹارنی جنرل (خالد جاوید خان) بہت ہی پروایكٹیو كردار ادا كرتے نظر آتے ہیں۔

انہوں نے مزید كہا: ’سابق وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كے مقدمے میں خالد جاوید خان نے آخری وقت تک یہی تاثر دیا كہ فیصلہ حكومتی جماعت كے حق میں آ سكتا ہے، اگرچہ ایسا ہوا نہیں۔‘

ان كا كہنا تھا كہ سپریم كورٹ كے جج صاحبان بھی کئی موقعوں پر اٹارنی جنرل كو سننے كی خواہش كا اظہار كرتے رہے ہیں۔

عمران شفیق نے اس رائے سے اس حد تک اتفاق كیا كہ سابق وزیراعظم عمران خان كی قانونی ٹیم نے غیر معمولی كاركردگی كا مظاہرہ كیا تھا۔

اس سلسلے میں انہوں نے نیب كے سربراہ اور پراسیكیوٹر جنرل كی مدت ملازمتوں میں توسیع كا خصوصا ذكر كیا۔

’یہ ماننا پڑے گا كہ عمران خان كی قانونی ٹیم نے بہترین كام كیا اور اس ٹیم میں اٹارنی جنرل كا اہم كردار ہوا كرتا ہے۔‘

پاكستان مسلم لیگ كے دور حكومت میں اشتر اوصاف نے بحیثیت اٹارنی جنرل سابق قبائلی علاقوں كو خیبر پختونخوا میں ضم كرنے سے متعلق پاكستانی دستور میں 25 ویں ترمیم كا مسودہ تیار كرنے میں اہم كردار ادا كیا تھا۔

تعلیم اور خاندان 

جون 1956 میں لاہور میں معروف وکیل اور سفارت کار افتخار علی شیخ کے گھر پیدا ہونے والے اشتر اوصاف علی نے 1975 میں فارمین کرسچن کالج سے بی اے مکمل کیا اور 1980 میں پنجاب یونیورسٹی سے قانون كی ڈگری (ایل ایل بی) حاصل کی۔

انہوں نے 1984 سے 1988 كے دوران پنجاب یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون كا مضمون بھی پڑھایا اور 1980 میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے رکن بنے۔

اعلی تعلیم كے حصول كے لیے وہ امریكہ پہنچے جہاں سے انہوں نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی كا انتخاب كرتے ہوئے 1988 میں تقابلی قانون میں ماسٹرز (ایم سی ایل) کی ڈگری حاصل كی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فاطمہ علی جو پاكستانی نژاد امریكی ایگزیكٹیو شیف اور ٹیلیویژن کی شخصیت تھیں اشتر اوصاف كی صاحبزادی تھیں۔

امریكی ریئلیٹی ككنگ شو چوپڈ اینڈ ٹاپ شیف میں كامیاب نمائش سے نام كمانے والی فاطمہ علی كا جنوری 2019 میں كینسر كے باعث محض 29 سال كی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔

پیشہ ورانہ زندگی

اشتر اوصاف علی 1990 کی دہائی میں ایک قانونی اور آئینی وکیل کے طور پر نام پیدا كر چكے تھے۔

سابق صدر غلام اسحاق خان نے جب 1993 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت برطرف كی تو اشتر اوصاف علی نے سپریم كورٹ آف پاكستان میں پارلیمان اور حكومت کی تحلیل کے خلاف نواز شریف كی نمائندگی كی تھی۔

انہوں نے سال 1985 میں اشتر علی ایل ایل پی پاکستان كے نام سے قانونی فرم كی بنیاد ركھی جو اس وقت ملک كی اہم قانونی فرمز میں سے ایک ہے۔

اشتر علی ایل ایل پی تنازعات کے حل پر توجہ مرکوز کرنے كے علاوہ قانونی چارہ جوئی، بین الاقوامی ثالثی اور کارپوریٹ مشاورتی خدمات پیش كرتی ہے۔

پاكستان كے موجودہ اٹارنی جنرل نے سپریم جوڈیشل کونسل، اے پی ایس پشاور اور پریڈ لین دہشت گردی کے مجرموں كو سزائیں دلوانے، انتخابی نااہلی اور فوجداری تحقیقات سے متعلق تاریخی مقدمات میں سپریم کورٹ کے سامنے کامیابی کے ساتھ وفاق کی نمائندگی کی تھی۔

اس كے علاوہ ٹریٹی امپلیمینٹیشن سیل کے کنوینر کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کے لیے یورپی یونین کے جی ایس پی پلس پروگرام کی کامیاب تجدید اور اقوام متحدہ کے بنیادی کنونشنز کی تکمیل کی نگرانی کی تھی۔

وزیر اعظم پاكستان کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف کے طور پر انہوں نے غیرت کے نام پر قتل اور سمجھوتہ سے متعلق قانون سازی کی اصلاحات کا مسودہ تیار کیا تھا، جانشینی کے سرٹیفکیٹ کے حصول کے طریقہ کار کو تبدیل کیا تھا اور وزیر اعظم کی آئینی کمیٹی برائے گلگت بلتستان اصلاحات کا حصہ بھی رہے تھے۔

انہیں 2018 میں عوامی خدمات پر ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان