پاکستان نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین کے انتخاب میں بھارت کی حمایت کی جس کے نتیجے میں دلی آئندہ دو برس کے لیے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بن گیا ہے۔
سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے چھ اہم اداروں میں سے ایک ہے۔ اور اس کی ذمہ داریوں میں دنیا میں امن اور سلامتی کو یقینی بنانا، اقوام متحدہ کی نئی رکنیت اور اس کے چارٹر میں تبدیلیوں کی منظوری دینا شامل ہیں۔
سلامتی کونسل مجموعی طور پر پندرہ اراکین پر مشتمل ہے۔ جن میں پانچ مستقل اور دس غیر مستقل اراکین ہیں۔مستقل اراکین تاحیات رکنیت کے حامل ہیں۔ ان میں امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ شامل ہیں۔
دنیا کی ان پانچ بڑی طاقتوں کو مستقل اراکین کی حیثیت سے ویٹو کی طاقت حاصل ہے۔ جس کے ذریعے وہ کونسل کے کسی بھی فیصلے کو رد کر سکتے ہیں۔
غیر مستقل اراکین کونسل کے اجلاسوں میں ہونے والی بحث میں حصہ لے اور فیصلوں پر ہونے والی ووٹنگ میں حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کے پاس ویٹو پاور موجود نہیں ہے۔
غیر مستقل رکنیت دنیا کے مختلف خطوں کو دی جاتی ہے۔ اور اسی مخصوص فارمولے کے تحت براعظم ایشیا اور افریقہ سے پانچ پانچ ملک کونسل کے غیر مستقل اراکین بنتے ہیں۔
غیر مستقل اراکین کے لیے کونسل کی رکنیت کا دورانیہ دو سال ہے۔ یوں ہر دو سال بعد نئے غیر مستقل اراکین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
بھارت اس سے قبل 2011 2012 میں بھی کونسل کا غیر مستقل رکن رہ چکا ہے۔ جبکہ اس کے فورا بعد پاکستان کو موقع حاصل ہوا تھا۔عام طور پر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کی مخالفت کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔
حال ہی میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں دلی نے پوری طاقت اور سرگرمی سے اسلام آباد کے خلاف لابنگ کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح اسلام آباد بھارت کی کونسل کا مستقل رکن بننے کی کوششوں کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہے۔
تو سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان نے کونسل کے غیر مستقل رکن کے انتخاب میں اپنے دیرینہ دشمن کی حمایت کیوں کی؟
دنیا کے کئی ملکوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سفیر اسلم رضوی کہتے ہیں: یہ ووٹ دراصل پورے گروپ کی طرف سے پڑتا ہے۔ اس میں ایک ملک ذاتی طور پر کچھ نہیں کر سکتا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ آئندہ دو سال کے لیے ایشیا پیسیفک گروپ سے ایک غیر مستقل رکن منتخب ہونا تھا۔اور ایسے میں گروپ مجموعی طور پر ووٹ کا حق استعمال کرتا ہے۔
تھنک ٹینک سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹیجک سٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائرکٹر اور سابق سفیر علی سرور نقوی کے مطابق: آئندہ دو سال کے لیے غیر مستقل رکن کی یہ سیٹ ایشیا کے حصے میں آنی تھی۔ اسی لیے تمام ملکوں بشمول پاکستان نے بھارت کے حق میں ووٹ استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پورے گورپ نے بھارت کے حق میں ووٹ دیا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی بھی رکن نہ بن سکتا کیونکہ بھارت کے مقابلے میں کوئی دوسرا امیدوار نہیں تھا۔
تاہم اسلم رضوی سمجھتے ہیں: بھارت کے حق میں ووٹ استعمال کرنے سے پاکستان نے اپنا مثبت تاثر بنانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ اور یہ اہم بات ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان نے اس طرح باقی دنیا کے علاوہ بھارت کو بھی ایک مثبت اشارہ دیا ہے۔
پاکستان نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ وہ بھارت سے بہتر اور متوازن تعلقات رکھنے کا خواہش مند ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی طرف سے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی مخالفت کے بعد پاکستان کا یہ مثبت اشارہ بہتر نتائج لائے گا۔
کونسل کے ایشیا پیسیفک خطے سے تعلق رکھنے والے 55اراکین نے بھارت کے حق میں ووٹ استعمال کیا۔ ان میں پاکستان کے علاوہ ایران، عراق، سعودی عرب، ترکی، ریاستہائے متحدہ عرب (یو اے ای)، نیپال، سری لنکا، افغانستان، بھوٹان، برونائی، کمبوڈیا، چین، قبرص، کوریا، فیجی، انڈونیشیا، جاپان، اردن، قزاقستان، کویت، قطر، فلپائن، کرغزستان، لاوس، لیبنان، ملائشیا، مالدیپ، مارشل آئی لینڈ، منگولیا، میانمار، اومان وغیرہ شامل تھے۔
بھارت کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے کامیابی کا اعلان سب سے پہلے منگل کے روز اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب سید اکبرالدین نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا تھا۔