تہاڑ جیل میں قید حریت پسند کشمیری رہنما یٰسین ملک کون ہیں؟

لگ بھگ ساڑھے تین سال سے نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید آزادی پسند کشمیری رہنما یٰسین ملک کو بھارت کی ایک خصوصی عدالت سے آج سزا سنائی گئی۔

یٰسین ملک 19 اگست 2014 کو دہلی میں (اے ایف پی)

لگ بھگ ساڑھے تین سال سے نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید آزادی پسند کشمیری رہنما یٰسین ملک کو بھارت کی ایک خصوصی عدالت سے آج سزا سنائی جائے گئی۔

بھارتی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ دوران سماعت این آئی اے کی خصوصی عدالت کے باہر سخت سکیورٹی کے انتظامات تھے۔

ان پر2017 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ’دہشت گرد کاروائیوں، دہشت گردی کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے، حملے اور وطن سے بغاوت‘ جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

یٰسین ملک کو آخری بار فروری 2019 میں سری نگر سے گرفتار کیا گیا تھا اور تب سے پاکستان میں مقیم ان کی اہلیہ اور 10 سالہ بیٹی سے کسی قسم کا رابطہ نہیں۔ تاہم مارچ 2020 میں یٰسین ملک کی بہن کے ساتھ تہاڑ جیل میں ان کی ایک ملاقات کروائی گئی تھی۔

اس دوران کئی مرتبہ ان کی صحت کے حوالے سے تشویش ناک خبریں بھی آتی رہیں، تاہم ان بھارت کی جانب سے اس حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔

عدالت میں گذشتہ دنوں پیشی کے دوران یٰسین ملک کی ایک مختصر ویڈیو سامنے آئی جس میں انہیں بظاہر تندرست اور اپنے پاؤں پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے، تاہم گرفتاری سے اب تک ان میں کئی تبدیلیاں محسوس کی جا سکتی ہیں۔

10 مئی کی عدالتی کاروائی کے دوران خصوصی عدالت نے انہیں ’مجرم‘ قرار دیتے ہوئے استغاثہ کو حکم دیا تھا کہ ان کی جائیداد اور اثاثوں کا تخمینہ لگایا جائے تاکہ ان کی سزا کے ساتھ ساتھ جرمانے کا بھی تعین ہو سکے۔

بھارت کے سرکاری میڈیا نے چند ہفتے قبل ہے دعویٰ کیا تھا کہ یٰسین ملک نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو 'تسلیم' کرتے ہوئے ’اپنے جرائم کا اعتراف‘ کر لیا ہے۔ تاہم نئی دہلی میں مقیم ایک کشمیری صحافی کے بقول: ’یٰسین ملک نے اعتراف نہیں کیا بلکہ عدالتی کارروائی پر عدم اعتماد کیا ہے۔‘

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق، ’مقدمے کے دوران، یٰسین ملک نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں من گھڑت اور سیاسی عزائم پر مبنی قرار دیتے ہوئے ان پر احتجاج کیا۔‘

خبررساں ادارے کے مطابق انہوں نے جج سے مخاطب ہو کر کہا، ’اگر آزادی مانگنا جرم ہے تو میں اس جرم اور اس کے نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘

اس سے قبل گذشتہ سال یٰسین ملک نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے انکار کرتے ہوئے استغاثہ کے گواہوں پر خود جرح کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اگرچہ یٰسین ملک پر 1989 میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا اور 1990 میں بھارتی فضائیہ کے چار افسران کے قتل کا بھی الزام ہے، تاہم بھارتی میڈیا کے مطابق تازہ فرد جرم میں ان جرائم کا کوئی تذکرہ نہیں۔

بھارت کی عدالتوں سے سزا پانے والے دیگر کشمیری رہنما

یٰسین ملک پر تازہ فرد جرم انڈین پینل کوڈ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف ایکٹ یو اے پی اے کے تحت عائد کی گئی ہے اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے تحت لگائے کے الزامات کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہو سکتی ہے۔ روبیہ سعید کے اغوا اور بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کا قتل کے مقدمات علیحدہ سے چل رہے ہیں اور ان کی سزائیں مختلف ہو سکتی ہیں۔

اس سے قبل متعدد کشمیری حریت پسند رہنما بھارت کی عدالتوں سے سزائیں پا چکے ہیں جن میں 11 فروری 1984 کو مقبول بٹ اور نو فروری 2013 کو افضل گورو کی پھانسیاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شیخ عبدالعزیز اور عبدالغنی لون سمیت کئی کشمیری لیڈروں کے غیر عدالتی قتل کا الزام بھی بھارتی کی سکیورٹی فورسز یا ان کے پروردہ گروہوں کے سر ہے۔

یٰسین ملک کون ہیں؟

یٰسین ملک تین اپریل 1966 کو سری نگر میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھارتی کی سکیورٹی فورسز کشمیری میں عام شہریوں کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنا رہے تھی۔ یٰسین ملک نے اسی تشدد ذدہ ماحول میں پرورش پائی اور اوائل عمری میں ہی اپنی باغیانہ طبیعت کے سبب مشہور ہوئے۔

سری نگر میں ٹیکسی ڈرائیوروں پر بھارتی فوج کے تشدد کے ایک واقعے کے بعد یٰسین ملک نے ’تالا پارٹی‘ کے نام سے ایک گروپ ترتیب دیا۔ اس گروپ نے 1983 میں سری نگر کے شیر کشمیر سٹیڈیم میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان جاری میچ کے وقفے میں پچ اکھیڑ دی اور میچ ملتوی کروا دیا۔

یٰسین ملک اس وقت کشمیر میں برسر اقتدار جماعت نیشنل کانفرنس کے خلاف ایک نمایاں طالب علم رہنما کے طور پر ابھرے اوراس جماعت کی کئی سیاسی سرگرمیوں کو تلپٹ کرتے رہے۔

نوجوان باغی رہنما کے طور پر اٹھان

بھارت نے 11 فروری 1984 کو معروف کشمیری رہنما مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دی تو کشمیر میں پرتشدد احتجاجی تحریک شروع ہوئی جو کئی سالوں تک جاری رہی۔ اس تحریک کے دوران یٰسین ملک کو پہلی مرتبہ گرفتار کر لیا گیا اور یہیں سے ان کی باقاعدہ اٹھان شروع ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیل سے واپسی پر یٰسین ملک نے 1986 میں اپنی ’تالہ پارٹی‘ کا نام بدل کر ’اسلامک سٹوڈنٹ لیگ‘ رکھا اور باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے۔ اگرچہ اس گروپ نے خود انتخابات میں حصہ نہیں لیا تاہم یٰسین ملک مسلم یونائٹیڈ فرنٹ کی انتخابی مہم کا حصہ بنے اور اس گروپ کے سربراہ سید یوسف شاہ (سید صلاح الدین) کے پولنگ ایجنٹ رہے۔ تاہم ان انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے ذریعے سید یوسف شاہ اور ان کی جماعت کو ہرا دیا گیا۔

انتخابی نتائج کی جبری تبدیلی کے بعد شروع ہونے والی تحریک مسلح شورش کی بنیاد بنی۔ 1988 میں سید یوسف شاہ اور یٰسین ملک نے لائن آف کنٹرول عبور کی اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آ گئے۔ دونوں نے عسکری تربیت حاصل کی اور بھارت سکیورٹی فورسز کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی۔ سید یوسف شاہ نام بدل کر سید صلاح الدین بن گئے اور حزب المجاہدین کی بنیاد رکھی جبکہ یٰسین ملک نے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم سے بھارتی فورسز کے خلاف گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا۔

1989 میں یٰسین ملک نے مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں کے ذریعے اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کروایا تاکہ جیل سے اپنے ساتھیوں کو رہا کروا سکیں۔ اس واقعے میں جن لوگوں کو رہا کروایا گیا ان میں یٰسین ملک کے قریب ساتھی اشفاق مجید وانی، مقبول بٹ کے بھائی غلام نبی بٹ، نور محمد کلوال، محمد الطاف اور مشتاق احمد زرگر شامل تھے۔

مارچ 1990 میں ایک گوریلا کارروائی کے دوران جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے کمانڈر ان چیف اشفاق مجید وانی مارے گئے اور یٰسین ملک کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ 1994 تک جیل میں رہے اس دوران لبریشن فرنٹ کی زیادہ تر قیادت کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے مار دیا یا گرفتار کر لیا۔

بھارت کے خلاف یک طرفہ سیز فائر اور عدم تشدد کا پرچار

1994 میں جیل سے رہائی کے بعد یٰسین ملک نے گوریلا جنگ ترک کر کے کشمیر کی آزادی کے لیے بات چیت اور سیاسی عمل شروع کرنے کا اعلان کیا۔

تب سے یٰسین ملک کشمیر میں پر تشدد کارروائیوں کے بجائے ایسی بامقصد بات چیت اور مذاکرات اور عدم تشدد کا پرچار کرتے رہے ہیں۔ وہ کشمیر کے تنازعے کا حل ایسے مذاکرات کے ذریعے چاہتے ہیں جن میں بھارت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کی ’حقیقی اور نمائندہ قیادت‘ شامل ہو۔

یٰسین ملک کی جانب سے بھارت کے خلاف یک طرفہ طور پر سیز فائر کا فیصلہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ان کے گروپ کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ نتیجتاً پاکستان میں مقیم ان کی جماعت کے رہنما امان اللہ خان نے 1995 میں یٰسین ملک سے علیحدہ ہو کر اپنا دھڑا قائم کر لیا۔

یٰسین ملک کو 1999 اور پبلک سیفٹی ایکٹ ( پی ایس اے) اور 2002 میں دوبارہ پری ونشن آف ٹیررازم ایکٹ (پوٹا) کے تحت گرفتار کیا گیا اور وہ اس دوران ایک سال تک جیل میں رہے۔

’شادی غلطی تھی‘

2003 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں سیز فائر معائدے کے نتیجے میں سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان بس سروس شروع ہوئی تو یٰسین ملک بھی کشمیری قائدین کے ساتھ اپریل 2005 میں پاکستان آئے اور کئی سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کیں۔

2005 سے 2009 کے درمیان ان کا پاکستان میں کافی آنا جانا رہا اور اس دوران یٰسین ملک کے ایک پاکستانی آرٹسٹ مشعال ملک کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے۔

لائن آف کنٹرول کی دونوں اطراف یٰسین ملک کے کئی دوستوں اور خیر خواہوں کے منع کرنے کے باوجود یٰسین ملک نے 2009 میں مشعال ملک سے شادی کر لی اور 2012 میں ان کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔

یٰسین ملک سے قربت رکھنے والے اسلام آباد میں مقیم سابق کشمیری صحافی کے بقول: یٰسین ملک مشعال ملک سے شادی کے لیے جس قدر پرجوش تھے، شادی کے بعد اتنے ہی مایوس ہوئے۔

’وہ نجی محفلوں میں شادی کے فیصلے کو اپنی بڑی غلطی قرار دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ رشتہ ان کی تحریک کمزور کرنے کا سبب بنے گا اور وہ ممکنہ طور پروہ ٹریپ ہوئے۔‘

ان کی اہلیہ مشعال ملک پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے کافی قریب سمجھی جاتی ہیں اور اپنی غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے کشمیر پر پاکستان کے ریاستی موقف کا پرچار کرتی ہیں جو کسی بھی طور پر یٰسین ملک کی تحریک یا کشمیر پر ان کے افکار اور نظریات سے ہم آہنگ نہیں۔

 امریکہ میں مقیم جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما اور یٰسین ملک کے قریبی ساتھی راجہ مظفر کے مطابق شادی کے بعد مشعال ملک نے لبریشن فرنٹ کی سرگرمیوں میں مداخلت کی تو اس پر تحریک میں شامل قیادت کی اکثریت نے تحفظات ظاہر کیے جس پر یٰسین ملک نے اپنی اہلیہ کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا نام استعمال کرنے سے منع کیا۔

یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کے 2019 میں انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو کے مطابق 13 سالہ ازدواجی زندگی میں انہوں نے صرف دو ماہ کا عرصہ یٰسین ملک کے ساتھ گزارا۔

’ان کے ساتھ آخری ملاقات ستمبر 2014 ہوئی جب میں سری نگر گئی تھی۔ اس کے بعد سے ان کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ٹیلی فون پر اور واٹس ایپ پر ان سے بات ہوتی رہتی تھی۔ گرفتاری کے وقت بھی انہوں نے فون کیا اور کہا کہ وہ مجھے لینے آ گئے ہیں۔ بیٹی سے بات کی اور کہا کہ میں بہت دور جا رہا ہوں۔ اپنا بہت خیال رکھنا اور بہت سارا پیار۔‘

’سفر آزادی‘

2003 کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں پیدا ہونے والی گرم جوشی کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار وفود کا تبادلہ شروع ہوا اور یٰسین ملک سمیت کئی کشمیری رہنماؤں نے آر پار کے دورے کیے۔ اس دوران یٰسین ملک کی پرویز مشرف سے ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔

2007 میں یٰسین ملک نے ’سفر آزادی‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی اور اس سلسلے میں وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لگ بھگ ہر گاوں قصبے اور شہر تک پہنچے تاکہ اس مہم کے لیے عوامی تائید اور حمائت حاصل کر سکیں۔

اس مہم کے دوران انہوں نے پاکستان کے وزرائے اعظم شوکت عزیز اور میاں نواز شریف کے علاوہ بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ اور کئی دیگر اہم بین الاقوامی رہنماؤں اور تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں تاکہ کشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے ایک فضا ہموار کر سکیں۔ ان کی سرگرمیوں پر وقتاً فوقتاً لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب کشمیر کے علاوہ بھارت اور پاکستان میں بھی تنقید ہوتی رہی۔

اپنے علیحدگی پسند نظریات کے سبب یٰسین ملک کو بھارت میں کئی مشکلات کا سامنا رہا اور 2013 کے آخر میں بمبئی کے ایک ہوٹل نے یٰسین ملک، ان کی اہلیہ مشعال ملک اور ان کی 18ماہ کی بیٹی رضیہ سلطانہ کو رہائش دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کا سامان باہر پھنکوا دیا تھا۔

بھارت نے پلوامہ حملے اور یٰسین ملک کی گرفتاری کے لگ بھگ ایک ماہ بعد مارچ 2019 میں ان کی جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تب سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ان کی جماعت عملاً غیر فعال اور ان کے قریبی ساتھی خاموشی یا روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا