مسجد چقچن: بدھ عہد اور تبتی طرز تعمیر کا اعلیٰ نمونہ

مسجد کی پہلی منزل مٹی اور پتھر سے بنی ہے۔ جامع مسجد خانقاہ  چقچن  بلتستان کی عظیم ترین تاریخی سماجی، ثقافتی اور مذہبی اہمیت کی حامل ہے جس کا ہر انسان احترام کرتا ہے۔

سکردو سے 110 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع چقچن مسجد 13 سو سال قدیم ہے یہ گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے کے میں واقع ہے۔

مسجد چقچن کی عمارت بدھ عہد اور تبتی طرز تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

اس مسجد کی پہلی منزل مٹی اور پتھر سے بنی ہے۔ جامع مسجد خانقاہ  چقچن  بلتستان کی عظیم ترین تاریخی سماجی، ثقافتی اور مذہبی اہمیت کی حامل ہے جس کا ہر انسان احترام کرتا ہے۔

پاکستان و دیگر ممالک سے بھی اس مسجد کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور حاجات کے پورے پونے کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔

یہ مسجد تبتی ایرانی اور کشمیری فن کا حسین امتزاج رکھتی ہے اور اس دور کے ماہرین کی قابلیت کی گواہی دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: وادیِ خپلو: علما اور شعرا کی سر زمین

انگریز سیاح  اور مورخ جان ہار نے جو کسی زمانے میں یہاں آیا تھا جامع مسجد چقچن کی خوبصورتی اور بناوٹ دیکھ کر جنوبی ایشیا کی بے نظیر و اہم ترین مسجد قرار دیا ہے۔

چقچن مسجد کے حوالے سے کافی اختلاف پایا جاتا ہے جامع مسجد چقچن کی بنیاد حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی، میر سید محمد نوربخش یا میر شمس الدین عراقی میں سے کس نے رکھی۔

مورخین نے اول الذکر دونوں بزرگوں کا اتر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ مولوی حشمت اللہ کے خیال میں اس کی بنیاد حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی نے نہیں بلکہ سید محمد نوربخش نے رکھی ہے چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب تاریخ جموں میں متعدد مقامات پر یہی ذکر کیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ماہر سیاحت محمد اقبال کہتے ہیں کہ ’بلتستان کے مختلف علاقوں سے اب بھی لوگ اس مسجد کی قسم کھاتے ہیں۔

یہ احترام و تقدس تعمیر کے وقت سے اب تک برقرار ہے لوگ اپنے تنازعات کے فیصلے کے لیے جامع مسجد چقچن آتے ہیں۔ اس کا اصلی نام شوق چن تھا شوق چن کا مطلب بلتی زبان میں فیصلہ کرنے کی جگہ کا نام ہے۔‘

جب سے انسانیت نے خپلو کے سر زمین پہ قدم رکھا ہے یہ جگہ ایک متبکرک رہا ہے اس کی تاریخ یہ ہے جب انسان نے جب یہاں قدم رکھا تووہ اس زمانے میں دیوملائیت یہاں پر مذہب ہوا کرتا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا