’پاکستانی کرکٹ کی معراج، ون منٹ ڈاؤن نیکسٹ منٹ اپ‘
پانچ سال قبل آج ہی کے دن سابق برطانوی بلے باز اور کمنٹیٹر ناصر حسین کے یہ الفاظ کہنے کو تو ایک میچ کے دوران پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں کہے گئے لیکن پاکستانی کرکٹ کے ماضی اور حال پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ہیں۔
محمد عامر کی گیند پر وراٹ کوہلی کا کیچ گرتا ہے جسے اظہر علی پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں اور اگلی ہی گیند پر گلی پوزیشن پر موجود شاداب خان گولی کی رفتار سے آنے والے کیچ کو پکڑ کر اس میچ کو پاکستان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔
یہ میچ بھی کوئی عام میچ نہیں بلکہ کرکٹ کی دنیا کا سب سے بڑا ٹاکرا یعنی پاکستان بمقابلہ بھارت ہے، ستم بالائے ستم کہ یہ کسی باہمی سیریز یا سہہ ملکی ٹورنامنٹ کا میچ بھی نہیں بلکہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل ہے جو کہ کرکٹ کی جنم بھومی لندن کے تاریخی دی اوول کرکٹ گراؤنڈ پر کھیلا جا رہا تھا۔ میچ میں پاکستان نے بھارت کو 180 رنز کے بڑے مارجن سے شہ مات دی۔
چیمپیئنز ٹرافی کا یہ فائنل آئی سی سی کے ٹورنامنٹس میں پہلا ایسا فائنل مقابلہ تھا جس میں پاکستان نے اپنے روایتی حریف بھارت کو شکست سے دو چار کیا، اس سے قبل آئی سی سی کے ٹورنامنٹس میں جتنے بھی مقابلے ہوئے چاہے وہ ایک روزہ ورلڈ کپ ہوں یا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، پاکستانی ٹیم نے ہر بار شکست کا منہ دیکھا، لیکن 18 جون 2017 کو کھیلے جانے والے اس فائنل نے تاریخ کا دھارا ایسا بدلا کہ بھارتی ٹیم پاکستان کو ہرانے کا موقع تلاش رہی ہے جبکہ بھارتی شائقین ’موقع موقع‘ بجانے کے انتظار میں ہیں۔
مزید پڑھیے: بھارت سے جیت صرف شروعات ہے: بابر اعظم
یہ بھی یاد رہے کہ اسی ٹورنامنٹ کے گروپ میچ میں بھارت نے پاکستان کو یک طرفہ شکست دے کر ایسے کچوکے لگائے تھے کہ فائنل جیتنے کے بعد بھی گروپ میچ کی شکست کو بھلانے میں کئی دن لگے۔
پاکستان اور بھارت کے کرکٹ مقابلوں سے جڑی چند یادیں پوری پاکستانی قوم بلکہ بھارتی کرکٹ شائقین کا بھی مشترکہ ورثہ ہیں، جیسے جاوید میاں داد کا چیتن شرما کو مارا گیا چھکا پاکستانی قوم کے لیے خوشی کا باعث ہے وہیں وینکٹش پرساد کا 1996 کے ورلٹ کپ کوارٹر فائنل میں عامر سہیل کو بولڈ کرنا پاکستانی شائقین کے لیے ایک کڑوی گولی کی مانند ہے۔
سچن تندولکر کی سنچریاں ہوں یا شعیب اختر کے یارکرز، وسیم اکرم کی ان سونگ ہو یا راہل ڈریوڈ کی چٹان مافق بلے بازی، وقار یونس کے ٹو کرشر ہوں یا وریندر سہواگ کی کور ڈرائیو، ثقلین مشتاق کا دوسرا ہو یا گنگولی کا لیٹ کٹ، پاکستانی اور بھارتی شائقین کی یاداشتوں میں ان مقابلوں کا ہر لمحہ قید ہے۔ لیکن پانچ سال قبل آج ہی کے دن پاکستانی ٹیم کی فتح نے تاریخ کے دھارے پر بند باندھ دیے۔
اوول کی فتح نے پاکستانی ٹیم پر اعتماد کے وہ دروازے کھولے کہ اب پاکستانی ٹیم بھارت کے مقابلے میں جانے سے پہلے اس حد تک پراعتماد ہوتی ہے کہ اس کا مقابلہ کرتے بھارتی ٹیم تگ و دو کرتی دکھائی دیتی ہے۔
چیمپیئنز ٹرافی کی فتح کے بعد پاکستانی ٹیم کا ’جھاکا‘ ایسا اترا ہے کہ گذشتہ سال ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے بھارت کو پورے دس وکٹوں سے شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کرنے کی بنیاد رکھ دی۔
اس فتح نے نہ صرف پاکستانی ٹیم کو ایک بار پھر سے جارحانہ کھیل کھیلنے کی راہ پر ڈالا بلکہ نوجوان نسل کو ایسے ہیروز بھی دیے جو اس سے قبل صرف ظہیر عباس، جاوید میاں داد، وسیم اکرم، عمران خان، وقار یونس، شعیب اختر، انضمام الحق اور ثقلین مشتاق کی صورت میں کمنٹری باکس یا ٹی وی تبصروں میں دیکھتے تھے۔
آج دنیا کا کوئی بھی بلے باز یا بولر ہو وہ بابر اعظم کی کور ڈرائیو کا معترف نظر آتا ہے، شاداب کی سپن کے تو کیا ہی کہنے، فخر زمان کا بلا بھی اب ہر میچ میں تو نہیں لیکن نسبتاً تسلسل کے ساتھ ہی رنز اگلتا دکھائی دے رہا، امام کو ’سفارشی‘ اور ’پرچی‘ کا نام دیا گیا لیکن انہوں نے اپنی پرفارمنس سے اپنے ناقدین کے دل بھی جیت لیے ہیں۔
وکٹوں کے پیچھے اور پچ پر چیتے کی طرح کلانچیں بھرنے والے محمد رضوان ملک اور میدان کے اندر اور باہر یکساں طور پر مقبول نظر آتے ہیں جبکہ حسن علی کی پرفارمنس گذشتہ کچھ عرصے سے مانند پڑ چکی ہے، گو کہ انگلش کاؤنٹی لیگ میں ان کی پرفارمنس شاندار رہی اور برطانوی بولر جیمز اینڈریسن بھی ان کی تعریف کرتے رہے لیکن ملک واپسی پر صورت حال وہی ہے جو گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں تھی۔
لیکن بابر اعظم کو یقین کہ حسن علی کی فارم بحال ہو گی اور وہ ایک بار پھر اپنی کارکردگی سے پاکستان کو کئی میچ جتوائیں گے، ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ حسن علی بابر اعظم کی امیدوں پر پورے اتریں گے اور اپنے پاکستانی مداحوں کو ایک بار مسکرانے کا موقع دیں گے۔