’آپ کا ہدایت کار غیر معروف ہے، کوئی قابل ذکر فلم نہیں بنائی، میں کیسے اس پر اعتبار کر لوں؟ اُس کی پہلی فلم ہی مجھے ناکامی کے اندھیرے میں گم نہ کر دے۔‘
لارنس ڈی سوزا تک یہ پیغام پہنچ گیا تھا، جس نے ان کے اندر یہ جنگ شروع کر دی تھی کہ اب انہیں اس بات کو غلط ثابت کرنا ہے۔
یہ تلخ حقیقت کہنے والے کوئی معمولی اداکار نہیں تھا بلکہ عامر خان تھے، جنہوں نے یہ سارے شکوے گلے بلکہ تحفظات پروڈیوسر سدھا کر بوکاڈے کے گوش گزار کیے تھے، جو 1991 میں فلم ’ساجن‘ بنانے کی تیاری کر رہے تھے جس کے ہدایت کار لارنس ڈی سوزا ہی تھے۔
فلم کے لیے سلمان خان اور مادھوری ڈکشٹ کا تو انتخاب ہو گیا تھا۔ دونوں پہلی بار کسی فلم میں آ رہے تھے اسی لیے پرستاروں کی بےتابی اپنے عروج پر تھی۔ سب سے اہم کردار کے لیے عامر خان تک رسائی حاصل کی گئی تو انہوں نے ’ساجن‘ اس لیے بھی سائن کی تھی کیونکہ ایک سال پہلے ان کی اور مادھوری ڈکشٹ کی میوزیکل رومنٹک فلم ’دل‘ نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا تھا۔
اسی بنا پر عامر خان کو یقین تھا کہ ’ساجن ‘ مادھوری ڈکشٹ کی موجودگی میں ان کے کیرئیر کو ایک نئی سمت کی جانب موڑ دے گی۔ ادھر پروڈیوسر سدھا کربوکاڈے خوش تھے کہ وہ ایک ہر دلعزیز کاسٹ کی بہترین فلم بنانے والے ہیں۔
لیکن فلم کی عکس بندی کے شیڈیول سے چند ہفتوں پہلے عامر خان کا یہ اعلان انہیں کسی قیامت سے کم نہیں لگا کہ وہ یہ کہہ کر ’ساجن‘ سے الگ ہو رہے ہیں کہ اس کے ہدایت کار لارنس ڈی سوزا کی یہ پہلی فلم ہے اور بھلا وہ کیسے ایک ناتجربہ کار اور نوآموز ہدایت کار کے ساتھ کام کر کے اپنے کیرئیر کو داؤ پر لگا دیں؟
عامر خان کے خیالات پر ہدایت کار لارنس ڈی سوزا کا دل تو ٹوٹا تھا لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھے۔ وہ دیگر ہدایت کاروں کے برعکس ایک تخلیقی ذہن رکھنے والے سینیما ٹوگرافر اور سٹنٹ کیمرا مین تھے۔ دیکھا جائے تو ہدایت کار بننے کا پہلا موقع بھی پروڈیوسر سدھا کر بوکاڈے نے ہی انہیں 1990میں ’نیائے انیائے‘ میں دیا تھا۔ فلم تو نہیں چلی لیکن سدھاکر بوکاڈے یہ دیکھ کر متاثر ہوئے کہ لارنس ڈی سوزا انتہائی تیزی سے کام کرتے ہیں۔ اسی بنا پر انہوں نے ’ساجن‘ کے لیے ہدایت کار کے طور پر ان کے نام کا ہی اعلان کیا۔
عامر خان کے ریمارکس کے بعد کوئی اور ہوتا تو کب کی ہدایت کار کی قربانی دے دیتا، لیکن سدھاکربوکاڈے نے پھر بھی لارنس ڈی سوزا کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لارنس ڈی سوزا جہاں ہدایت کار تھے وہیں سینیما ٹوگرافر اور کیمرا مین بھی۔ ان کی یہی اضافی خوبیاں کسی بھی پروڈیوسر کا سرمایہ اور وقت بچانے میں معاون ہوتیں۔ وہ ہر منظر کو برق رفتاری کے ساتھ عکس بند کراتے۔ پھر اپنی خوش اخلاقی کی بنا پر کئی اداکاروں سے گہرے مراسم تھے، جو ان کی مطلوبہ تاریخیں لینے میں کام آتے۔
عامر خان کے انکار پر ہنگامی طور پر غور ہوا کہ اب کیا کیا جائے۔ پہلو یہ بھی نمایاں رکھا گیا کہ اب مادھوری ڈکشٹ کے مقابل ایسا ہی کوئی اداکار ہو جس کی عامر خان کی طرح مادھوری ڈکشٹ سے کیمسٹری ہٹ ہوئی ہو۔ تو ایسے میں مادھوری ڈکشٹ کی ’تھانیدار‘ کے ہیرو سنجے دت کا خیال آیا۔ یہ وہ دور بھی تھا جب مادھوری ڈکشٹ اور سنجے دت کی محبت کے فسانے عام تھے۔ پروڈیوسر کا ماننا تھا کہ یہ پہلو بھی فلم کی کامیابی کے لیے اہم رہے گا۔
سنجے دت کے سامنے پیشکش رکھی گئی تو انہوں نے ناز نخرے دکھانے کی بجائے فوری طور پر رضا مندی ظاہر کی۔ سنجے دت نے یہ جانتے ہوئے کہ انہیں ’ساجن‘ میں پیر کی معذوری کے ساتھ پوری فلم میں آنا ہے، اس پر کوئی تذبذب کا اظہار نہیں کیا بلکہ انہوں نے خوشی خوشی یہ تجربہ کرنے میں پہل کی۔
اب کہنے والے کہتے ہیں کہ عامر خان نے لارنس ڈی سوزا کا تو صرف بہانہ بنایا تھا، اصل ڈر تو انہیں یہ تھا کہ کہیں چھڑی تھامے محبوب شاعر کے روپ میں وہ ناکام ہو گئے تو کیرئیر پر ہمیشہ کے لیے داغ ہی نہ لگ جائے۔ لیکن دوسری جانب سنجے دت نے بالکل ویسا ہی رسک لیا جیسے ان کے والد سنیل دت نے ’ملن‘ میں عین جوانی اور مقبولیت کے وقت معذور انسان کا کردار ادا کر کے لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیشتر فلم بینوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ’ساجن‘ کی کہانی دراصل اس کی رائٹر ریما راکیش ناتھ کی زندگی سے متاثر تھی۔ ریما جو 70 کی دہائی میں فلم ’جوانی دیوانی‘ میں بطور ہیروئن آنے والی تھیں کہ اچانک ایک بھیانک کار حادثے کا ایسا شکار ہوئیں کہ ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ چہرے پر 11 ٹانکے آئے اور پھر ڈیڑھ سال تک بستر پر پڑی رہیں۔ سٹار بنتے بنتے رہ جانے کا غم اور صدمہ ایسا تھا کہ انہوں نے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں اور پھر ان کا خاصا نام ہونے لگا۔ فلم میں ان کا یہ کردار تھوڑی ترمیم کے ساتھ سنجے دت نے ادا کیا۔
فلمی پس منظر سے تعلق رکھنے والی ریما راکیش ناتھ ڈی کے سپرو کی بیٹی تھیں۔ صحت یابی کے بعد فلمی کہانیاں لکھنے کے شوق میں سٹوڈیوز کے چکر لگاتی رہیں، جہاں ان کی ملاقات اور پھر شادی راکیش ناتھ سے ہوئی۔
وہی راکیش ناتھ جو مادھوری ڈکشٹ کے سیکریٹری تھے اور جنہوں نے مادھوری ڈکشٹ کو سپرسٹار بنانے میں اپنے تعلقات اور بہترین پیشہ ورانہ معاملات کا کمال خوبی سے استعمال کیا۔
رومنٹک فلم ’ساجن‘ کے موسیقار پہلے پہل لکشمی کانت پیار ے لعل تھے لیکن وہ ہدایت کار لارنس ڈی سوزا کی مرضی کی بجائے اپنی من مانی کرنے لگے تو انہیں ہٹا کر موسیقار جوڑی ندیم شرون کا چناؤ کیا گیا، جن کا اس زمانے میں طوطی بول رہا تھا۔
انہوں نے فلم کے لیے سمیر اور فیض انور کے لکھے ہوئے پہلے 11 گیت ریکارڈ کیے اور یہ سارے ہی سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ چاہے ان میں ’میرا دل بھی کتنا پاگل ہے،‘ ’بہت پیار کرتے ہیں،‘ ’تم سے ملنے کی تمنا‘ یا پھر ’جییں تو جییں کیسے‘ زبان زد عام ہوئے۔ ذرا تصور کریں کہ جب ایک فلم میں کمار سانو، ایس پی بالا سبرامنیم، پنکج اداس، الکا یاگنگ اور انوررادھا پوڈیل کے سریلے سر ملے ہوں تو کیا شاہکار گانے سننے کو ملیں گے۔
لار نس ڈی سوزا نے حسب روایت ’ساجن‘ کو انتہائی برق رفتاری کے ساتھ کم و بیش 36 دنوں میں بنا لیا تھا لیکن انہیں لگتا تھا کہ فلم کے گانوں میں اب بھی کچھ نہ کچھ کمی ہے، اسی لیے خصوصی طور پر ٹائٹل سونگ ’دیکھا ہے پہلی بار‘ فلم کے مکمل ہونے کے بعد تیار کرایا گیا، جو دیگر گیتوں کی طرح ہر کوئی گنگنانے پر مجبور ہوا۔ گانوں کی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ’ساجن‘ کے آڈیو کیسٹ کی 70 لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔
ہدایت کار لارنس ڈی سوزا کی ’ساجن‘ جب 30 اگست1991 کو سینیما گھروں کی زینت بنی تو ہر سینیما کھڑکی توڑ کمائی کرنے میں کامیاب رہا۔
لارنس ڈی سوزا کے مطابق جب انہوں نے تقسیم کاروں کے لیے ٹرائل شو رکھا تھا تو منہ مانگے نرخ میں ’ساجن‘ ہر کوئی خریدنے کو تیار تھا۔ اگلے سال فلم فیئر ایوارڈ میں ’لمحے‘ کے بعد سب سے زیادہ 11 نامزدگیاں ’ساجن‘ کو ہی حاصل ہوئیں۔
لارنس ڈی سوزا کو بہترین ہدایت کار کے لیے نامزدگی بھی ملی لیکن صرف موسیقار ندیم شرون اور گلوکار کمار سانو نے مسلسل دوسری بار فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے۔
ایک ایسی فلم اور ایسے ہدایت کار جس پر عامر خان نے عدم اعتماد کا اظہار کیا، وہ تین دہائیوں کے باوجود آج تک بلاک بسٹر میوزیکل فلم کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسی فلم جس کا کوئی بھی گیت سنا جائے تو کوئی بھی پہچان سکتا ہے کہ یہ کس فلم کا گانا ہے۔