حج نامہ: جیل سے رہائی پاتے ہی میدان عرفات پہنچنے والے دو پاکستانی

دونوں ہم وطنوں سے جیل جانے کی وجہ پوچھنے کا وقت تو نہ مل سکا لیکن اس گفتگو سے یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوا کہ یہ عشق کا کیسا عالم ہے جو دنیا کے کونے کونے سے حج کی خواہش کرنے والوں کو میدان عرفات کے دشت میں لے آتا ہے۔

آٹھ جولائی 2022 کی اس تصویر میں حجاج کوہ عرفات، جسے جبل رحمت بھی کہتے ہیں، پر نماز ادا کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

میدان عرفات میں داخل ہوئے تو احرام میں ملبوس تیزی سے چلتے دو پاکستانیوں کو پشتو میں باتیں کرتے سنا۔ سلام دعا کے بعد ماجرا پوچھا تو پتہ چلا کہ انہیں رات کو ہی جدہ کی جیل سے رہائی ملی تھی، جس کے بعد وہ فوراً عرفات کے لیے نکل پڑے اور اب خطبہ حج سے قبل مسجد نمرہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دونوں ہم وطنوں سے جیل جانے کی وجہ پوچھنے کا وقت تو نہ مل سکا لیکن اس گفتگو سے یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوا کہ یہ عشق کا کیسا عالم ہے جو دنیا کے کونے کونے سے حج کی خواہش کرنے والوں کو میدان عرفات کے دشت میں لے آتا ہے۔

انسانی طبیعت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے وطن، اہل و عیال، دوست احباب، رشتے داروں اور مال و دولت سے انسیت رکھے اور ان کے قریب رہے، لیکن جب کوئی شخص حج کے لیے آتا ہے تو اسے یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اور مال و دولت خرچ کرکے جانا پڑتا ہے۔ 

اور یہ سب ایک مسلمان صرف اس لیے کرتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان کو کعبے کے حج و زیارت پر ابھارا ہے، دیدار کا شوق بھی دلایا ہے اور سب سے بڑھ کر حج کا اتنا اجر و ثواب متعین فرمایا ہے کہ سفر حج ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔ 

کوئی 10 لاکھ عاشقان دین نے جعمے کے مبارک دن میدان عرفات کی گرمی، سخت دھوپ اور کئی کلومیٹر پیدل چلنے جیسی سختیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے حج کا عظیم اور ضروری رکن وقوف عرفات مکمل کیا۔ 

تقریباً چار لاکھ کی گنجائش والی مسجد نمرہ کا ایئرکنڈیشن ہال تو کھچا کھچ بھرا ہی تھا، باہر  کھلے آسمان تلے بھی حجاج کی کمی نہیں تھی۔

مسجد یقینی طور پر بڑی ہے لیکن یہاں آپ کو کوئی زیادہ تزئین و آرائش دکھائی نہیں دیتی۔ سفید درو دیوار کے ہال میں ٹیوب لائٹس بھی عام سی نصب ہیں۔ رنگ و روغن بھی پرانا محسوس ہوا۔ شاید دو سال کرونا وبا کی وجہ سے یہ بندش کے اثرات تھے۔ لیکن ایئرکنڈیشنر اتنا تیز کہ ہال کے دروازوں سے نکلنے والی یخ بستہ ہوائیں تقریباً 50 میٹر کے احاطے کا موسم بھی خوشگوار بنا دیتی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں اکٹھی ادا کرنے کے بعد حجاج نے اس عظیم مقام کا رخ کیا، جہاں پیغمبر اسلام نے ان کے لیے اس دین کے مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مقام مسجد نمرہ سے کوئی دو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

راستے میں حجاج کو مفت ٹھنڈے پانی کی بوتلیں بلکہ توانائی بڑھانے کے لیے آئس کریم بھی بڑی تعداد میں تقسیم کی جا رہی تھی۔ پانی اور آئس کریم سے بھرے بڑے بڑے ٹرالرز تیزی سے خالی ہوتے رہے۔ کوئی پانی پینے کے لیے دے رہا ہے تو کوئی پانی کی بوتلیں سروں پر انڈیل کر حاجیوں کے جسم کا درجہ حرات کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

کھمبوں پر لگے فوارے ماحول کو بدلنے میں یقیناً اہم کردار ادا کر رہے ہوں گے لیکن حاجیوں پر ان کا براہ راست کوئی زیادہ اثر محسوس نہیں ہوا۔

ایک حاجی حمیداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا حج کا سفر اچھا رہا۔

انہوں نے بتایا کہ ’حج کے دوران انہوں نے پاکستان کے لیے خصوصی دعا کی ہے اور ساتھی حجاج سے بھی دعا کرنے کی درخواست کی ہے۔‘

حمیداللہ نے بتایا کہ ’دعا کی ہے کہ اللہ پاک پاکستان کو معاشی اور سیاسی محاظ سے مضبوط بنائے کیوں کہ پوری امت مسلمہ کی نظریں پاکستان پر لگی ہیں اس لیے پاکستان کو مضبوط ہونا چاہیے۔ اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں اگر پاکستان نہیں رہا تو ہمارا کیا بنے گا۔‘

سعودی حکام کے مطابق مقدس مقامات پر آٹھ ہزار پانی کے فوارے نصب کیے گئے ہیں، جن سے دھول ختم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ یہ فوارے دن میں 15 گھنٹے کام کرتے ہیں، جس کے دوران یہ دو لاکھ 30 ہزار کیوبک میٹر پانی پھینکتے ہیں۔ یہ حج کے تیرہ دن چلیں گے۔

مسجد نمرہ سے جبل رحمت تک تقسیم کی جانے والے پلاسٹک کی بوتلوں، آئس کریم کے خالی ریپرز، تیز ہوا کے سامنے نہ ٹکنے والی چھتریوں اور گرائے جانے والے دیگر ناکارہ سامان جیسے کہ پلاسٹک کی تسبیحات کا ایک سمندر راستے میں موجود تھا۔

ڈسٹ بن رکھے گئے تھے تاہم وہ کب کے بھر چکے تھے۔ شاید حجاج کو تکلیف نہ ہو، اس لیے صفائی کا مسلسل بندوبست دکھائی نہیں دیا۔ حجاج کی تمام تر توجہ اس پیدل سفر کے دوران اللہ کو یاد کرنے پر مرکوز تھی، لہذا اس کوڑے کا خیال کسی کو نہیں تھا۔ پلاسٹک پاؤں کے نیچے آکر عجیب کرخت آوازیں نکال رہے تھے لیکن وہ  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ پر کوئی اثر نہیں ڈال سکے۔

چھتریوں کے استعمال کی ترغیب کے ساتھ ساتھ حجاج کو کوڑا بھی مناسب مقامات پر ٹھکانے لگانے کی گزارش کی جاسکتی ہے۔ اس سے حج انتظامیہ کا کام بھی آسان ہوگا جبکہ پلاسٹک کے بےدریغ استعمال پر بھی غور اچھا رہے گا۔

سعودی وزیر صحت فہد بن عبدالرحمٰن الجلاجل نے میدان عرفات میں حجاج کی صحت پر اطیمنان کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سخت گرمی کے موسم میں چھتریوں کے استعمال کے بارے میں پھیلائی گئی آگہی مہم مفید رہی۔ ان کے مطابق اس قدر گرمی کے باوجود حجاج کرام میں ہیٹ سٹروک کے صرف تین کیس سامنے آئے۔

جبل رحمت کا دلکش نظارہ دور سے دکھائی دینے لگتا ہے۔ خشک لیکن خوش قسمت پہاڑ پر سفید احرام میں ملبوس حجاج کیا ہی منظر بناتے ہیں۔ یہ منظر آنکھوں کی تسکین کا باعث ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پیغمبر اسلام نے آخری خطبہ حج دیا تھا اور دنیا کو ایک نیا آئین، نیا ضابطہ اخلاق دیا تھا۔

انہوں نے فرمایا تھا: ’اے لوگو! سنو، میری باتوں کو بہت غور سے سنو، اور ان کو ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں پہنچ سکے۔

۔  اے لوگو! جس طرح یہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ جگہ عزت و حرمت والے ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے مسلمانوں کی زندگی، عزت  اور مال حرمت والے ہیں۔ (تم اس کو چھیڑ نہیں سکتے )۔

۔ لوگو کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو۔

۔ کسی کو تنگ نہ کرو، کسی کا نقصان نہ کرو، تا کہ تم بھی محفوظ رہو۔

۔ یاد رکھو، تم نے اللہ سے ملنا ہے اور اللہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔

۔ اللہ نے سود کو ختم کر دیا، اس لیے آج سے سارا سود ختم کر دو (معاف کر دو)۔

۔ تم عورتوں پر حق رکھتے ہو، اور وہ تم پر حق رکھتی ہیں۔ جب وہ اپنے حقوق پورے کر رہی ہیں تم ان کی ساری ذمہ داریاں پوری کرو۔

۔ عورتوں کے بارے میں نرمی کا رویہ قائم رکھو، کیونکہ وہ تمہاری شراکت دار (پارٹنر) اور بے لوث خدمت گزار رہتی ہیں۔

۔ کبھی زنا کے قریب بھی مت جانا۔

۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو، صرف اللہ کی عبادت کرو، پانچ فرض نمازیں پوری رکھو، رمضان کے روزے رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو۔ اگر استطاعت ہو تو حج کرو۔

۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ تم سب اللہ کی نظر میں برابر ہو۔ برتری صرف تقویٰ کی وجہ سے ہے۔

۔ یاد رکھو! تمہیں ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے، خبردار رہو! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا۔

۔ یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا، نہ کوئی نیا دین لایا جائے گا۔ 

۔ میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں۔ قرآن اور میری سنت۔ اگر تم نے ان کی پیروی کی تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔

۔ سنو! تم لوگ جو موجود ہو، اس بات کو اگلے لوگوں تک پہنچانا اور وہ پھر اگلے لوگوں کو پہنچائیں اور یہ ممکن ہے کہ بعد والے میری بات کو پہلے والوں سے زیادہ بہتر سمجھ (اور عمل) کر سکیں۔‘

پھر آپ نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور کہا: ’اے اللہ! گواہ رہنا، میں نے تیرا پیغام تیرے لوگوں تک پہنچا دیا۔‘

اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں میں شامل کریں، جو اس پیغام کو پڑھیں، اس پر عمل کرنے والے اور اس کو آگے پھیلانے والے بنیں۔ آمین

اب ہم سب کے لیے سوال یہی ہے کہ ہم ان احکامات پر آج بھی کتنا عمل کرتے ہیں؟ کتنا ان کو مانتے ہیں۔ حج کا مقصد اور پیغام یہی ہے اگر ہر سال یہ لاکھوں عازمین حج کے دلوں میں گھر کر لے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ