ریپ، اغوا اور ہراسانی کے الزام: اوبر پر 550 خواتین کا مقدمہ

ان امریکی خواتین نے مقدمے میں الزام عائد کیا ہے کہ انہیں اوبر ڈرائیوروں نے مختلف قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا۔

17 اکتوبر، 2020 کو ماسکو میں اوبر کی ٹیکسی نظر آ رہی ہے (اے ایف پی)

اوبر کمپنی پر 500 سے زائد امریکی خواتین نے مقدمہ دائر کیا ہے جن کا الزام ہے کہ انہیں اوبر ڈرائیوروں نے مختلف قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جن میں جنسی زیادتی اور جنسی حملے سے لے کر پیچھا کرنے اور اغوا تک شامل ہیں۔

 کاروباری نیوز ویب سائٹ فارچون کے مطابق سان فرانسسکو کاؤنٹی سپیریئر کورٹ میں بدھ کو قانونی فرم سلیٹر سلیٹر شولمین کی طرف سے دائر کیے گئے سول ایکشن مقدمے میں کہا گیا کہ متعدد ریاستوں میں خواتین مسافروں کو ‘اغوا، ریپ، جنسی طور پر مار پیٹ، پیچھا کرنے، ہراساں کرنے یا دوسری صورتوں میں اوبر ڈرائیوروں نے حملہ کیا۔

لا فرم نے کہا کہ اس کے پاس تقریباً 550 خواتین شکایت کنندہ ہیں جن کے اوبر کے خلاف دعوے ہیں اور وہ کم از کم 150 مزید دعوؤں کی تحقیقات کر رہی ہے۔

اوبر کے ترجمان نے جمعرات کو فارچون ویب سائٹ کو بتایا کہ کمپنی جنسی حملے کی ’ہر ایک رپورٹ‘ کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ حفاظت سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں، یہی وجہ ہے کہ اوبر نے نئے حفاظتی فیچرز بنائے ہیں، رہ جانے والی مرکوز پالیسیاں بنائی ہیں اور سنگین واقعات کے بارے میں زیادہ شفافیت لائی گئی ہے۔ ’اگرچہ ہم زیر التوا مقدمے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘

کمپنی کے خلاف دعویٰ کرنے والی ایک خاتون نے الزام لگایا کہ فروری 2022 میں اس کے ڈرائیور نے اس وقت جنسی حملہ کیا اور ریپ کی کوشش کی جب وہ چینو ہلز، کیلیف میں اس کی گاڑی میں سفر کر رہی تھی۔

کیلیفورنیا کی ایک اور خاتون نے بتایا کہ ایک اوبر ڈرائیور نے اسے ’پیچھے سے پکڑا اور جنسی زیادتی‘ کی۔

اس کیس میں ایک علیحدہ الزام میں بتایا گیا کہ کس طرح 2021 میں ایک اوبر ڈرائیور نے پٹسبرگ کے باہر ایک خاتون کو اس کی منزل پر لے جانے کی بجائے اس کے ریپ کی کوشش کی تھی۔

اسی سال دیگر دعویداروں میں سے ایک اور نے کہا کہ اسے اوبر ڈرائیور کی گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھنے پر مجبور کیا گیا جہاں ’اس  نے زبردستی اسے بوسہ دیا اور ریپ کا نشانہ بنایا۔‘

سلیٹر سلیٹر شلمین کے بانی شراکت دار ایڈم سلیٹر نے ایک خبر جاری کرتے ہوئے اوبر پر الزام لگایا کہ وہ اپنے صارفین کی بجائے اپنی ترقی کو ترجیح دے رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اوبر مسافروں کی حفاظت کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہے: حملوں کو روکنے کے لیے کیمرے لگانا، ڈرائیوروں کے پس منظر کی زیادہ مضبوط جانچ پڑتال کرنا، جب ڈرائیور کسی منزل کے راستے سے ہٹ جائیں تو وارننگ کا نظام تشکیل دینا۔ اوبر کے لیے اپنے صارفین کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ ‘

رواں ماہ کے آغاز میں اوبر نے اپنی امریکی سیفٹی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسے 2019 اور 2020 میں جنسی حملے اور بدسلوکی کی تین ہزار 824 رپورٹیں موصول ہوئیں۔

یہ جنسی تشدد کی اطلاعات میں 38 فیصد کمی تھی جس کا تعلق شاید کوویڈ-19 وبا کے دوران اوبر کی مانگ میں بہت زیادہ کمی سے ہو سکتا ہے۔

اوبر کے چیف لیگل آفیسر ٹونی ویسٹ نے رپورٹ میں کہا کہ ہر ڈیٹا پوائنٹ کے پیچھے ایک ذاتی تجربہ ہوتا ہے اور بعض اوقات درد اور نقصان کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔

’یہی وجہ ہے کہ ہم حفاظت کے حوالے سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ان واقعات کی روک تھام میں مدد کے لیے نئے فیچرز بنا رہے ہیں جو انڈسٹری کے لیے مسئلہ بن رہے ہیں۔‘

اوبر کو پہلے ہی اپنے طور طریقوں کے بارے میں سخت سوالات کا سامنا ہے۔ ایک وسل بلور نے اس بارے میں تکلیف دہ سچائیوں کا انکشاف کیا ہے کہ کمپنی اپنی بین الاقوامی ترقی کے ابتدائی دنوں میں کس طرح کام کر رہی تھی۔

یہ مقدمہ بدھ کو اوبر کی نام نہاد فائلوں کے لیک ہونے کے چند روز بعد سامنے آیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ کس طرح کمپنی نے یورپ میں اپنی توسیع کی مخالفت کرنے والے ٹیکسی ڈرائیوروں کے پرتشدد مظاہروں کا فائدہ اٹھایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ