ٹیکسلا کے چھوٹے قد والے مگر بلند ہمت فری لانسر

30 سالہ عمیر کو اوسٹیو جینیسس نامی بیماری ہے، لیکن انہوں نے اپنی بیماری کو آڑے نہیں آنے دیا اور وہ فری لانسنگ کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سفارت خانوں کے گرافک ڈیزائننگ اور ویب ڈیویلپمنٹ کے پراجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔

سید عمیر نے بتایا کہ وہ خود کو معذور نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے نزدیک ان کی صلاحیتیں ان کی معذوری سے کہیں گنا زیادہ بڑی ہیں (فوٹو: ویڈیو سکرین گریب)

ٹیکسلا کے علاقے گڑھی افغاناں سے تعلق رکھنے والے سید عمیر کا قد 2 فٹ 9 انچ ہے۔ انہوں نے بچپن سے ہی مشکلات کا سامنا کیا مگر اپنی ہمت اور حوصلے سے ہر مشکل کو ناکام بناتے ہوئے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو منوا لیا۔

30 سالہ عمیر کو اوسٹیو جینیسس نامی بیماری ہے، جس میں انسانی جسم کی ہڈیاں مڑ جاتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس وقت خود کو معذور سمجھنا چھوڑ دیا تھا جب انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ وہ سن سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں اور یہ وہی وقت تھا جب انہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ اب کبھی زندگی میں کسی پر بوجھ نہیں بنیں گے، نہ صرف خود کما کر کھائیں گے بلکہ اپنی فیملی کی کفالت بھی کریں گے اور آج وہ جس مقام پر ہیں وہ بڑے بھائیوں کی طرح اپنے گھر والوں کا سہارا ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خود کو معذور نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے نزدیک ان کی صلاحیتیں ان کی معذوری سے کہیں گنا زیادہ بڑی ہیں۔ وہ اپنا ہر کام خود کرتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے اپنی وہیل چیئر بھی خود ڈیزائن کی ہے۔

’پڑھنا مشکل نہیں تھا، مگر داخلہ بہت مشکل تھا‘

سید عمیر جس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بہت سی سہولتوں سے محروم ہے اور خصوصی بچوں کی تعلیم تو اور بھی مشکل ہے۔

انہوں نے بتایا: ’مجھے سپیشل بچوں میں شمار کیا جاتا تھا، لہذا سکول اور کالج لیول تک ایڈمیشن دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا جاتا رہا کہ یہ عام بچوں کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا، اسے سپیشل بچوں کے سکول میں داخل کروایا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’میں جسمانی طور پر معذور ضرور تھا مگر دماغی طور پر بالکل صحت مند تھا تو میری والدہ نے میری پرھائی کے لیے ایک ٹیچر رکھ کر دیے جو مجھے گھر آکر پڑھایا کرتے تھے اور یوں میری تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔‘

عمیر نے بتایا: ’میں نے اپنی پڑھائی پرائیویٹ مکمل کی تو میرے ٹیچر اور کزن نے مجھے کچھ کورسز کا مشورہ دیا، جس کے بعد میں نے اپنے گاؤں کی ایک اکیڈمی میں ایڈمیشن لے لیا اور وہاں سے تین ماہ کا کورس کرنے کے بعد مجھے آئی ٹی کی فیلڈ میں بہت زیادہ دلچسپی محسوس ہوئی۔ میں نے سوچا کہ یہ کام ایسا ہے کہ میں ایک جگہ بیٹھ کر آرام سے کر سکتا ہوں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد میں نے آن لائن بہت سی ویب سائٹس سے کورسز کیے اور پانچ سے چھ سال تک گرافک ڈیزائننگ اور ویب ڈیویلپمنٹ سیکھی۔‘

’لوگوں کا ترس کھانے والا رویہ اچھا نہیں لگتا‘

عمیر چاہتے ہیں کہ لوگ ان پر ترس نہ کھائیں لیکن انہیں اکثر ایسی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک واقعہ بتایا: ’ایک مرتبہ میں مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہا تھا تو ایک صاحب آئے اور انہوں نے مجھے کچھ پیسے پکڑا دیے۔ میں اس وقت وہاں اپنے ڈرائیور کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے کچھ کہا نہیں اور جب میرا ڈرائیور آیا تو وہ صاحب مجھے دیکھ کر کافی حیران ہوئے اور انہوں نے مجھ سے معذرت کی۔‘

بقول عمیر: ’ایسے رویے بہت احساس کمتری کا شکار کر دیتے ہیں اور بد قسمتی سے ہماری سوسائٹی میں ایک معذور سے بہت ہی ترس بھرے رویے سے پیش آنے کو ہی رحم دلی کہا جاتا ہے۔‘

’زندگی کی پہلی کمائی پانچ سو روپے‘

عمیر نے بتایا کہ ان کا پہلا پراجیکٹ ایک آڈیو تھی جسے سن کر انہوں نے لکھنا تھا، اسے ٹرانسکرپٹ رائٹنگ کہتے ہیں، جس سے انہوں نے پانچ سو روپے کمائے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول عمیر: ’وہ باقیوں کے لیے پانچ سو روپے ہوں گے مگر میرے لیے ایک بہت بڑی رقم تھی جس نے پھر میری کامیابیوں کا سلسلہ رکنے نہیں دیا اور مجھ میں خود اعتمادی پیدا ہوئی کہ میں بہت کچھ کر سکتا ہوں۔‘

وہی خود اعتمادی آج انہیں یہاں تک لے آئی کہ ان کے کیریئر کا آغاز فری لانسنگ سے ہوا تھا، لیکن ان کے پاس اب اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ فری لانسنگ کرسکیں کیونکہ وہ اب پاکستان میں موجود آذربائیجان، قزاقستان اور جرمن سفارت خانوں کے لیے گرافک ڈیزائننگ اور ویب ڈیویلپمنٹ کے پراجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔

عمیر نے بتایا کہ ’غیر ملکی باشندے اور سفارت کار میرے کام سے بہت خوش ہوتے ہیں اور مجھے کافی سراہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں والے بھی اس بات پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے کا نام عالمی سطح پر لے گئے ہیں۔

’خواہش ہے کہ اپنے جیسے لوگوں کے لیے کچھ کروں‘

عمیر نے بتایا: ’لوگوں کو اپنی طرح دیکھ کر تکلیف ہوتی تھی، یہی وجہ ہے کہ جب میں نے کورسز کے ذریعے سیکھ کر کمانا شروع کیا تو پھر میں نے اپنی ایک ویب سائٹ بنائی تاکہ میں معذور لوگوں کو بلامعاوضہ یہ سب سکھا سکوں اور میں اس میں کامیاب بھی ہوا۔ بہت سے لوگ سیکھ کر اب فری لانسنگ سے کما رہے ہیں اور مجھے اپنے مقصد کو پورا ہوتا دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔‘

حال ہی میں انہوں نے ایک یوٹیوب چینل بھی شروع کیا ہے، جہاں وہ معذور بچوں کے متعلق بہت سی معلومات فراہم کرتے ہیں اور ایک پروگرام بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’میں اس یوٹیوب چینل کے پیسوں سے معذور لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میرا مقصد یہی ہے کہ میں ایسے لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع تلاش کروں اور وہ بھی ایک عام شہری کر طرح کما کر عزت کی زندگی بسر کریں۔‘

عمیر نے بتایا کہ وہ معذوروں تک فری وہیل چیئرز بھی پہنچاتے ہیں اور وہ وہیل چیئر ڈیزائن کرتے ہوئے معذوری کو مدنظر رکھتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ابھرتے ستارے