بلوچستان کے کان کن بچے، جنہیں دن کی روشنی نصیب نہیں

قانون کے تحت 18 سال سے چھوٹا ہر فرد بچہ شمار ہو گا، لیکن کانوں میں 10 سال تک کے بچوں کو کام کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستان لیبر سروے برائے 2021 کے مطابق اس وقت پاکستان میں 10 سے 14 سال تک کے 7.3 فیصد بچے چائلڈ لیبر سے منسلک ہیں (شیما صدیقی)

کان کنی کا شعبہ پاکستان کا ایک اہم شعبہ ہے اور آئے دن یہاں سے حادثات اور اموات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس صنعت سے جڑا ایک اہم مسئلہ چائلڈ لیبر بھی ہے جس پر کم بات کی جاتی ہے۔

بچوں سے مزدوری کی تصدیق حالیہ پاکستان لیبر سروے برائے 2021 بھی کرتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں دس سے 14 سال تک کے 7.3 فیصد بچے چائلڈ لیبر سے منسلک ہیں، جبکہ پاکستان سنڑل مائن لیبر فیڈریشن کے مطابق 13 سال کی عمر سے بچے کانوں میں کام کرنے لگتے ہیں۔

پاکستان ادارہ شماریات کا ریکارڈ یہ بھی بتاتا ہے کہ 15-19 سال کی عمر کے 4.9 فیصد بچے ہر طرح کی مزدوری کرتے ہیں۔

یہ شرح پچھلے سالوں کی نسبت کم ہوئی ہے لیکن یہ اب بھی بچوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ ہے۔

گلوبل ہیومن رائٹس ڈیفنس کی رپورٹ 2021 کہتی ہے کہ پاکستان کے تقریباً 20 فیصد بچے مزدور کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

جب بات ہو بلوچستان کے کان کن بچوں کی، جہاں پہلے ہی بچے کم خوراک، غیر محفوظ بچپن اور غیر معیاری تعلیم کا شکار ہیں، وہاں کانوں میں کام کرتے بچے کسے دکھائی دیتے ہیں۔

جب ہم نے کوئٹہ شہر جانے کا قصد کیا تھا تو ہماری فہرست میں کان کنی کی صنعت اور کان کنوں کے مسائل پر سٹوری کرنا شامل تھا۔

مگر کان کنی سے منسلک بچوں پر کام کرنا براہ راست ہماری سٹوری نہیں تھی۔ جانا تو ہم مچھ کانوں کی طرف لیکن سینیئر اور مقامی لوگوں نے ہمیں ’سکیورٹی رسک‘ سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ لہٰذا ہم کوئٹہ شہر سے منسلک ہنہ اڑک پر پاکستان منرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی کانوں کی طرف چلے گئے۔ یہ جگہ قریب بھی تھی نسبتاً محفوظ۔

کوئلہ بوریوں میں بھرتے بچوں کی کہانی

ابھی ہم نے کان کنوں سے ملنے کے لیے سفر شروع ہی کیا تھا کہ سڑک کے کنارے چھوٹے بچوں کو کوئلہ بوریوں میں بھرتے دیکھتے ہی ہم نے گاڑی روک لی۔

یہ بچے کوئلہ بھری بوریاں گدھے پر لاد کر آگے بھیج رہے تھے۔ ہم نے گاڑی روک کر ان سے بات کی۔

چار افراد پر مشتمل یہ خاندان اس وقت والد اور دو بیٹوں اور ایک بھتیجے پر مشتمل تھا، جن کا کام اوپر پہاڑیوں سے کوئلے کو گدھے پر لاد کر نیچے سڑک تک لانا تھا۔

ان بچوں میں سب سے بڑے بچے کی عمر 13 سے 14 سال کے لگ بھگ تھی۔ جبکہ ایک چھوٹا بچہ جو ہمارے اندازے کے مطابق چھ سال کا تھا، اس نے واضح طور پر ہمیں ناپسند کیا۔ ہم سے بات کرنا اور یہاں تک کہ ہماری مسکراہٹ کا جواب دینا بھی پسند نہیں کیا۔

ہم نے اس ٹیم کے سربراہ عبدالطیف سے بات کی اور ان بچوں کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔

45 سالہ عبدالطیف نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے کیونکہ ہر طرف غربت ہے۔ ان تین بچوں میں ان کے دو اپنے بچے ہیں اور ایک منیب، جو بھائی کا بیٹا ہے۔

بچوں کی عمروں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کی عمریں دس سے 12 سال کی ہیں۔

انہوں نے پہاڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں یہاں سے اوپر چڑھنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں کیونکہ گدھے کو دوڑا نہیں سکتے۔ اوپر کان کے پاس سے ہم کوئلہ گدھوں پر لاد کر نیچے لاتے ہیں۔

واپس آنے میں بھی ہمیں دو گھنٹے ہی لگ جاتے ہیں۔ اس طرح ہمیں ایک پورے چکر میں چار گھنٹے لگتے ہیں۔

عبدالطیف کا کہنا تھا کہ وہ اور بچے صبح آٹھ بجے یہاں آتے ہیں۔ ان کا گھر دور ہے اور وہ پیدل ہی چل کر یہاں آتے ہیں جبکہ بچوں کو گدھے پر بٹھا دیتے ہیں۔

کام کرتے کرتے انہیں شام ہو جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گدھے کے ایک طرف 40 کلو اور دوسری طرف بھی اتنا ہی وزن لادا جاتا ہے، یعنی ایک چکر میں وہ اوپر سے 80 کلو کوئلہ اتار کر لاتے ہیں۔

عبدالطیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بچے سکول جائیں، لیکن غربت کی وجہ سے ہی ان کے گھر کے سارے لڑکے یہ کام کرتے ہیں۔

تعلیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ قریب میں سکول بھی نہیں ہے۔ قریب پی ایم ڈی سی کی کالونی ہے جہاں سرکاری کانوں میں کام کرنے والے خاندان رہائش پذیر ہیں۔

ان خاندانوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے وہاں سکول ہیں، لیکن مقامی لوگوں کے لیے نہیں کیونکہ مقامی آبادی یہاں سے دور ہے۔

 پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے

بچوں کی مزدوری کے حوالے سے بلوچستان حکومت نے 2016 میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ نافذ کیا، جو کہتا ہے کہ 18 سال سے کم عمر ہر بچہ، چاہیے وہ لڑکی ہو یا لڑکا بچہ کہلائے گا۔

اسے کسی بھی قسم کا ایذا نہیں پہنچائی جا سکتی۔ بچے کی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت کا خیال رکھا جائے گا اور اس کے بنیادی حقوق اور پچپن کو محفوظ بنایا جائے گا۔

 جب بات کریں کان کنی کے قانون کی، تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں کان کنی کا قانون 1923 سے چلا آ رہا ہے، جو 1887 میں طے شدہ نکات کی بنیاد پر ہی ہندوستانی قانون کا حصہ بنا۔

اسے پاکستان میں بھی اسی طرح قانون کا حصہ بنا لیا گیا۔ یہ قانون بچوں کی مزدوری کے حوالے سے کہتا ہے کہ کان کنی کے کسی بھی حصے میں صرف وہی کان کن ہی کام کر سکتا ہے جو 17 سال پورے کر چکا ہو۔

اگر اس کے پاس عمر کا ثبوت نہ ہو تو یہ چیف انسپکٹر کا کام ہے کہ وہ کان کن کو کام دیتے ہوئے اس کا میڈیکل ٹیسٹ کرائے گا۔

یہ رپورٹ بطور سند میڈیکل ڈاکٹر کی جاری کردہ ہو گی۔ اس سے چھوٹے عمر کے افراد اس پیشے سے منسلک نہیں ہوں گے۔ نئے کان کن کے کام کرنے کے اوقات کار بھی کم ہوں گے۔

 بچوں سے مزدوری : کوئلہ کان کن یونین کیا کہتی ہے

اقبال یوسف زئی کول مائن لیبر یونین مچھ کے صدر ہیں، ساتھ ہی کول لیبر الائنس کے صوبائی صدر بھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان بچوں کی بہتری کے لیے ہمارا قانون واضح ہے کہ یہ اس صنعت میں بچہ مزدوری کی کوئی گنجائش نہیں۔ بلکہ کان کنوں کے بچوں کے لیے سکول اور تعلیمی وظائف یعنی سکالرشپ سب کچھ موجود ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، جس سے مزدور کا بچہ مزدور ہی رہ جاتا ہے۔

’پہلے ہی مزدور کم کماتا ہے اس کے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا، اس لیے اگر وہ سکول بھیجا بھی جاتا ہے تو دو چار جماعتیں پڑھ کر وہ کان کنی کے پیشے میں آ جاتا ہے۔

نہ گھر والے بلوغت کا انتظار کرتے ہیں اور کبھی وہ بھی نہیں۔ گھر کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے بچے سکول کے بجائے کان پر سخت محنت کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اکثر بچے پہلے پہل میٹ قلی، قلی اور لنگری یعنی چائے بنانے یا پانی پلانے جیسے چھوٹے موٹے کاموں سے منسلک ہو تے ہیں۔‘

اقبال صاحب نے زور دیا کہ یہاں ہمارے مائن ویلفیئر اداروں کا بھی قصور ہے جو بہت سست روی سے چلتے ہیں۔ نہ بچوں کو مفت تعلیم، کتاب اور وظیفے ملتے ہیں۔ چند تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اقبال یوسف زئی نے مزید بتایا کہ ’میں خود مائن ویلفیئر کے تعلیمی وظائف کمیشن کا رکن ہوں۔

اس سال تعلیمی مد میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن غور کریں کہ پچھلے سال تک پورے بلوچستان کے کان کنوں کے بچوں کی تعلیمی مد میں صرف دو لاکھ کی رقم مختص کی گئی تھی جبکہ ہزاروں کان کن اس شعبے سے منسلک ہیں اور ان کے بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے۔

اندازہ لگائیں کہ صرف مچھ کے مضافاتی علاقے میں ویلفیئر کے تحت ایک سکول قائم ہے، جبکہ یہ کوئلے کی کنوں کے حوالے سے ایک بڑا علاقہ ہے۔

مچھ شہر میں کوئی اور صنعت ہے نہیں۔ تمام تر آبادی کان کنی کے شعبوں سے ہی منسلک ہیں۔

50 سے 70 ہزار آبادی والا یہ شہر ہے۔ جہاں صرف ویلفیئر کا ایک ہی سکول ہے جبکہ کان پر کوئی ایمبولینس بھی موجود نہیں۔

حادثے ہونے کی صورت میں پرائیویٹ گاڑیوں میں زخمیوں کو کوئٹہ شہر منتقل کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بچوں کی عمروں میں کوئی قید نہیں، 18 سال سے کم تو چھوڑ یں یہاں نابالغ بچے بھی اس کام سے منسلک ہیں۔

’آٹھ دس سال کا بچہ بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ 13 سے 14 کو تو چھوڑیں دس سال کے بچے بھی کان کے اندر کام کرتے رپورٹ کیے گئے ہیں۔

’40، 50 سال پہلے جو ایک سکول تھا وہ آج بھی ایک ہی ہے جبکہ آبادی بڑھ چکی ہے۔‘

کول مائن اونر ایسوسی ایشن کیا کہتی ہے؟

سعید آغا، کول مائن اونر ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ہیں۔ انہوں نے اقبال یوسف زئی سے الگ بات بتائی۔ سعید آغا کے مطابق کان کن مالک اپنا کام کر رہا ہے۔

ایف سی ہرنائی کول مائن پروجیکٹ کے تحت ہرنائی میں کئی کام کیے گئے ہیں۔ خواتین کے لیے بنیادی صحت کا مرکز بھی ہے۔ وہاں کالا یرقان پھیل رہا ہے۔

فلٹر پلانٹ بھی لگائے گئے ہیں۔ وہاں تین سکول بھی چل رہے ہیں۔ جہاں ایک سکول میں 560 غریب بچوں کو معیاری تعلیم دی جا رہی ہے۔

پچھلے دنوں ہرنائی میں زلزلہ آیا تھا جس کے بارے میں آگاہی اور سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔

’انہیں معلوم ہی نہیں دن میں دنیا کیسے دکھائی دیتی ہے‘

سب سے پہلے ہم نے سعید آغا کی بات کی تصدیق کرنے کے لیے ہرنائی کے مقامی ڈاکٹر سمیع ترین سے بات کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ہرنائی میں اس وقت تین سکول چل رہے ہیں۔ جس میں ایف سی کے تحت ایک پرائیویٹ سکول ہے۔

ایک سرکاری  اور ایک کان کن ویلفیئر کے تحت، جو صرف کان کنوں کے بچوں کے لیے ہے جبکہ سرکاری ہسپتال موجود ہے، جہاں جدید طبی سہولیات کا فقدان ہے۔

مقامی خاتون صحافی صائمہ [نام تبدیل کیا گیا ہے] نے بتایا کہ ان بچوں کا مستقبل کے حوالے سے پہلا بڑا قدم یہ ہی ہے کہ ان بچوں کے والدین کی معاشی حالت بہتر کی جائے۔

ان کی تنخواہ مستقل اور مناسب ہو گی تو وہ اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی ان پیشوں سے منسلک نہیں کریں گے۔

کان مالکان کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی پاسداری اور چائلڈ لیبر پر حقیقی پابندی ہو۔

 اگر کان مالکان اور مائن ویلفیئر مل کر کام کریں کہ بچوں سے کام نہیں لیا جائے گا کیونکہ گھرانے معاشی طور پر کم زور ہیں۔

کچھ نہ کچھ گھر میں آئے اس لیے والدین ان بچوں کو اس صنعت سے جوڑ دیتے ہیں۔

خاتون صحافی نے 13 سال کے کان کن بچے کے بارے میں بتایا کہ وہ صبح چھ بجے کان کے اندر چلا جاتا ہے اور واپسی شام چھ بچے ہوتی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اس نے دن کی روشنی نہیں دیکھی۔ یعنی ان کانوں پر کام کرنے والے بچوں کو معلوم ہی نہیں کہ دن میں دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے۔

تعلیم ہی اس نظام اور سوچ میں تبدیلی لا سکتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ کان پر ہر عمر کا بچہ مل جائے گا۔ وہ بھی جو اپنا منہ خود نہیں دھو سکتا۔

اس سے بڑا بھی اور اس سے بڑا بھی۔ انہیں تنخواہ بھی کم ملتی ہے۔

یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ کام کرنے کے پیسے ایک یا دو بچوں کو دیے گئے لیکن کام پورا خاندان کر رہا ہے۔

بہرام لہری سوشل ایکٹوسٹ اور کوئٹہ شہر کی مقامی ہیں اور کان کنی کی صنعت پر ان کی گرفت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بچے کی عمر تو CRC  کمیشن کے تحت طے ہے کہ 18 سال سے چھوٹا ہر فرد بچہ شمار ہو گا، لیکن ہم نے خود کانوں میں 10 سال تک کے بچوں کو بھی کام کرتے دیکھا ہے۔

یہ مختلف کاموں سے منسلک ہوتے ہیں۔ کہیں چائے پانی پر اور کہیں کانوں کے اندر اور کہیں کانوں سے باہر کوئلہ اور زمین صاف کرتے ہوئے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں مقامی سطح پر آگاہی نہیں ہے۔ نہ انہیں اپنے حقوق معلوم ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی یونین انہیں آگاہ کرتی ہے۔

جب حقوق ہی نہیں معلوم تو وہ اس کے حوالے سے آواز بھی نہیں اٹھاتے۔

تعلیم اور صحت ہر انسان کا بنیادی حق ہے، جو اس صنعت سے منسلک بچوں کو ہی نہیں بڑوں کو بھی نہیں ملتا۔

بہرام سمجھتے ہیں کہ غربت اس مسئلے کی اہم وجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی آبادی کے ساتھ افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد اس شعبے سے منسلک ہے۔

کم سے کم تنخواہ اور ہر طرح کا کام کرنا ان کی مجبوری بن جاتا ہے۔ معاشی مشکلات بھی بچوں اور نو عمر لڑکوں کو اس صعنت سے جوڑ دیتی ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ سب سے پہلے قانون پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔

بلوچستان نے 1991 کے قانون کو بہتر کیا ہے اور ہر طرح کے چائلڈ لیبر پر پابندی لگائی ہے۔

آزاد ذرائع سے معلوم کیا جائے کہ کتنے بچے کان کن کنی سے جڑے ہوئے ہیں۔

خاتون صحافی نے تجویز دی کہ بلوچستان کی معاشی بدحالی کو دیکھتے ہوئے کم عمر مزدوروں سے مخصوص اور کم سے کم وقت کے لیے مزدوری لی جائے۔

ساتھ ہی ان کی تعلیم کا بھی خیال رکھا جائے۔ اگر کان یونین اور کان مالکان اپنی ذمہ داری ادا کریں تو صورت حال کچھ بہتر ہو سکتی ہے۔

اقبال یوسف زئی نے زور دیا کہ قانون پر عمل درآمد ہونے کے ساتھ آبادی کے تناسب سے سکولوں کی تعداد بڑھائی جائے اور اس کا انتظام بھی بہتر ہو۔

ساتھ ہی مزدور کی اجرت کو بڑھایا جائے اور حکومتی ادارے اپنا کام کریں۔

اب سو سال پرانا انگریزوں کا بنایا ہوا کان کنی کا قانون آج نہیں چل سکتا، لیکن مشکل تو یہ ہے کہ سو سال پرانے نکات پر بھی عمل ہو جائے تو بھی بلوچستان کا بچہ پڑھ سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل