صوبہ خیبرپختونخوا کے پسماندہ ضلع شانگلہ میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
ضلع شانگلہ سوات کے شہرمینگورہ سے 40 کلومیٹر دور واقع ہے۔ پانچ تحصیلوں پر مشتمل ضلع شانگلہ کی آبادی ساڑھے سات لاکھ ہے جہاں کے بیشتر لوگوں کا روزگار کوئلے کی کان کنی سے جڑا ہے۔
35 سالہ حسین علی کوئلے کی کان میں کام کرنے کے دوران ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے سے عمر بھر کے لیے معزور ہو گئے ہیں۔
حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے میٹرک میں تعلیم چھوڑ کر کوئلے کی کان میں کام کرنا شروع کیا۔
2016 میں کام کے دوران کان میں سلائیڈنگ کی زد میں آ کر ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کے بعد وہ ویل چیئر پر محدود ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ ضلع شانگلہ میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ اس جان لیوا کام سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ شانگلہ میں کوئلے کی کان میں سپائنل کارڈ ٹوٹنے کی وجہ سے معذور ہونے والے نوجوانوں کی تعداد 200 سے زیادہ ہے جبکہ کئی مزدور ہاتھ پاؤں سے محروم یا نابینا ہو چکے ہیں۔
ان کا مزید دعویٰ تھا کہ اکثر مزدور پھیپڑوں کی بیماری میں بھی مبتلا ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ مخیر حضرات اور غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے کئی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے سے معذور مزدوروں کے لیے ویل چیئرز کا بندوبست کر چکے ہیں۔
حسین نے کہا کہ معذور ہونے کے بعد انہوں نے گاؤں میں ایک دکان کھول لی ہے اور فارغ وقت میں وہ مقامی بچیوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کل زیادہ تر حادثات درہ آدم خیل کی کوئلے کی کانوں میں پیش آتے ہیں کیونکہ یہ کانیں نئی نئی شروع ہوئی ہیں اور ان میں حفاظتی اقدامات کا فقدان ہے۔
ضلع شانگلہ میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی آگاہی اور حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیم شانگلہ کوئل مائینز ورکررز ویلفئیر ایسوسی ایشن (سموا) کے جنرل سیکرٹری عابد یار نے بتایا ضلع شانگلہ کے 75فیصد تک مزدور کوئلے کی کان کنی سے وابستہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جتنی بھی کوئلے کی کانیں ہیں اس میں شانگلہ کے مزدور کام کرتے ہیں۔
عابد یار نے کہا کہ شانگلہ کے کان کن مزدوروں کی پہلے کوئی تفصیل موجود نہیں تھی لیکن ان کی تنظیم نے 2017 سے اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کر دیا ہے۔
سموا کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ شانگلہ میں اوسطاً سالانہ 300 مزدور کوئلے کی کانوں میں مر جاتے ہیں اور 50 تک مستقل معذور ہو جاتے ہیں، جس میں سپائنل کارڈ انجری، گردن کی ہڈی ٹوٹنا ہے۔
’اس طرح سو تک وہ مزدور شامل ہوتے جن کے ہاتھ یا پاؤں کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کان کنی سے وابستہ مزدور 50 سال تک کی عمرمیں ناکارہ ہو جاتے ہیں کیونکہ مائنز میں گیسز اور گرد سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات نہ ہونے سے ان کے پھیپھڑے اور گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
سموا کے جنرل سیکرٹری عابد یار نے کہا کہ شانگلہ زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں پچھلے ستر، اسی سالوں سے لوگ کان کنی سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شانگلہ کے لوگ پہاڑی اور سخت جان ہوتے ہیں۔ ’کانوں میں کام کرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے یہاں تک کہ سکول کی چٹھیوں میں نوعمر لڑکے بھی یہی کام کرنے لگتے ہیں۔
انہوں نے کہا دو ہفتے پہلے بھی اورکزئی کی کان میں دھماکے سے شانگلے کی تین نوجوان مر گئے تھے جس میں ایک میٹرک کا طالب علم تھا۔
عابد یار نے کہا کہ بدقسمتی سے کسی منرل ڈپارٹمنٹ یا لیبر ڈپارٹمنٹ نے شانگلے کے مرنے والے اور معذور مزدوروں کا ڈیٹا جمع کیا اور نہ ہی کوئی مالی مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ 2020 کی 196 مزدور مرے جبکہ 2021 میں 230 مزدور کوئلے کی کان میں ہلاک ہوئے۔
’شانگلہ میں مزدوروں کی 30 ہزار سے زائد بیوائیں جبکہ 80 ہزار کے قریب یتیم بچے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ اگر کام کے دوران مزدور مر جائے تو کان کا مالک پانچ لاکھ روپے دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کے پاس 26.5 ارب روپے ورکرز ویلفیئر فنڈ، جو ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں کوئلے کے فی ٹن کے حساب سے جمع ہوتا ہے، وہ بھی مزدوروں پر خرچ نہیں کیا جاتا۔
مقامی صحافی فضل ربی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوئلے کی کانوں کے مزدور حادثوں کے علاوہ صوبہ بلوچستان اورسابقہ فاٹا میں اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے علاوہ مائنز تنازعات کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا دیکھا جائے تو اوسطاً ہرمہینے چار سے پانچ مزدوروں کی لاشیں ضلع شانگلہ لائی جاتی ہیں۔
فضل ربی نے کہا کہ ایک مزدور کو 1500 روپے یومیہ ملتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شانگلہ کی یونین کونسل پیر آباد میں سب سے زیادہ مزدور متاثر ہوئے ہیں۔