کوئلے کی کان میں دب جانے والے مزدور کا زندہ نکلنا مشکل کیوں؟

رواں ہفتے مچھ میں ایک کوئلہ کان بیٹھ جانے سے دو مزدور ملبے تلے دب گئے۔ ایک کو 24 گھنٹے بعد بے ہوشی کی حالت میں نکال لیا گیا جبکہ دوسرے کی لاش تین دن بعد برآمد ہوئی۔

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں گذشتہ سال کوئلے کی کانوں میں حادثات کے دوران 98 افراد ہلاک ہوئے  (انڈپینڈنٹ اردو)

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 64 کلومیٹر دور مچھ کے علاقے میں ایک کوئلے کی کان کے باہر مطیع اللہ کئی گھنٹے کھڑے اپنے ان مزدور ساتھیوں کی زندگی کے لیے دعا کرتے رہے، جو کان کے بیٹھ جانے سے اندر پھنس گئے تھے، تاہم ان کے ساتھی بچ نہ پائے۔

اتوار کو پیش آنے والے اس حادثے میں دو مزدور ملبے تلے دب گئے۔ ایک کو 24 گھنٹے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں نکال لیا گیا جبکہ دوسرے کی لاش تقریباً 72 گھنٹے بعد بدھ کو نکالی گئی۔

عینی شاہد مطیع اللہ کے مطابق توتی کوئلہ کان میں مزدور معمول کے مطابق 70 فٹ گہری کان سے کوئلہ نکالنے کا کام کر رہے تھے کہ کان کی چھت کا ایک حصہ گر گیا، خوش قسمتی سے وہ اور دوسرے مزدور حادثے سے بال بال بچ گئے، تاہم نعمت اللہ اور دارو خان ملبے تلے پھنس گئے۔

نعمت اللہ کو بے ہوشی کی حالت میں سوموار کو 24 گھنٹے کے بعد نکال لیا گیا۔ محکمہ مائنز اینڈ منرل کی ریسکیو ٹیم کے مطابق نعمت اللہ اور دارو خان  کا تعلق افغانستان سے بتایا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان میں کوئلہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا یہ دعویٰ ہے کہ صوبے میں مائنز کے حوالے سے صورت حال اچھی نہیں ہے کیونکہ یہاں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے قوانین پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔

ایسی ہی ایک تنظیم پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل لالہ سلطان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحت و سلامتی کے قانون یعنی آکیوپیشنل ہیلتھ اینڈ سیفٹی کی پابندی ہوگی تو لوگوں کا تحفظ ہوسکے گا۔   

لالہ سلطان کے مطابق: ’اس قانون پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدور حادثات میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں حادثات میں ہلاک ہونے والے افراد کے لیے پانچ لاکھ روپے معاوضہ مقرر ہے لیکن بلوچستان میں یہ صرف دو لاکھ روپے مقرر ہے۔

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں گذشتہ سال کوئلے کی کانوں میں حادثات کے دوران 98 افراد ہلاک ہوئے۔

عام طور پر مزدوروں کو شکوہ  رہتا ہے کہ جو مزدور کان میں دب گیا اسے زندہ نکالنا بہت مشکل ہے۔ اس کی تصدیق خود سرکاری اداروں کے اہلکار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

اس سلسلے میں جب انڈپینڈنٹ اردو نے بلوچستان کے ضلع دکی کے ایک مائنز انسپکٹر دوست محمد سے بات کی تو انہوں نے بتایا: ’ہمارے پاس کسی حادثے کی صورت میں ریسکیو کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔‘

دوست محمد کا کہنا تھا: ’کوئلہ کانوں میں سب سے زیادہ حادثات دکی میں رونما ہوتے ہیں، ہمارے پاس گیس کے اخراج کی صورت میں گیس ماسک اور ایگزاسٹ کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے۔ جب حادثہ ہوتا ہے تو مزدور اپنی مدد آپ کے تحت کان میں پھنسے افراد کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم صرف مشورے دے سکتے ہیں۔‘

دوست محمد کے بقول: ’ہمارے پاس آکسیجن کے لیے جو ماسک اور کٹ موجود ہے وہ 1980 کی دہائی کے ہیں، جو زائد المعیاد ہوچکے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل جب ایک کان حادثے میں چار افراد پھنس گئے تو ان کو نکالنے میں 48 گھنٹے لگ گئے تھے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان کے ضلع دکی سے روزانہ کوئلے کے 200 ٹرک نکلتے ہیں، جن میں ہر ایک ٹرک میں 33 ٹن تک کوئلہ ہوتا ہے۔

دوست محمد کے مطابق: ’یہ سسٹم کی کمزوری ہے کیونکہ ہمارے پاس ایمبولینس نہیں اور نہ ہی ایمرجنسی کے دوران فوری اقدامات کے لیے کوئی سہولت موجود ہے۔‘

واضح رہے کہ عالمی معیار کے مطابق کوئلے کی کان کا سائز چھ بائی سات کا ہونا چاہیے، جس میں ہر ڈیڑھ فٹ پر لکڑی لگانی چاہیے جبکہ کان سے گیس کے اخراج  کے لیے متبادل راستہ بھی ہونا چاہیے، جو بلوچستان کی کانوں میں نہیں ہوتا۔

انسپکٹر مائنز کوئٹہ عاطف سمجھتے ہیں کہ کوئلے کی کان میں حادثات کے دوران جب پہاڑ گرتا ہے اور ملبہ زیادہ ہوتا ہے تو اس میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کسی اور کو نقصان نہ ہو۔ ’جب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو ہم پہلے دیکھتے ہیں کہ وہاں پھنسے افراد کو اسی راستے سے نکال لیں یا متبادل راستہ بنائیں۔‘

محمد عاطف کے بقول جب پہاڑ گرتا ہے تو اسی کان میں ریسکیو کا کام کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ لکڑی زیادہ وزن برداشت نہیں کرسکتی۔

انہوں نے بتایا: ’ہمارے پاس مائنز میں حادثات کی صورت میں ریسکیو کے لیے مشینری موجود رہتی ہے جسے کمپریسر مشین کہتے ہیں، جس سے پہاڑ میں سوراخ کیا جاتا ہے۔‘

لیبر فیڈریشن کا مطالبہ ہے کہ جو بھی مزدور کام کررہا ہے اسے 25 سال تک 17500 روپے کا معاوضہ دیا جائے تو اس سے حادثات کی روک تھام میں بہتری آسکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان