آکسفورڈ میں تعلیم پانے اور وزیراعظم بننے میں کیا تعلق ہے؟

1721 سے لے کر اب تک برطانیہ میں 55 وزرائے اعظم آئے جن میں سے تقریباً 29 آکسفورڈ کے طالب علم رہے ہیں۔ ان میں سے لز ٹرس سمیت چار ایسے ہیں جنہوں نے فلسفہ، سیاسیات اور معاشیات کا مضمون پڑھا مگر بات محض اتنی نہیں ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کا شمار دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے (انواٹو)

پب میں بیٹھ کر پوچھنے کے لیے ایک بہترین سوال پیش خدمت ہے۔ مندرجہ ذیل ترتیب میں اگلا نمبر کس کا ہے: بریسینوز، سینٹ ہیوز، یا بالیول کا؟ یقینی جواب ہے مرٹن (بریسینوز، سینٹ ہیوز، بالیول اور مرٹن سب آکسفورڈ یونیورسٹی کے مختلف کالجوں کے نام ہیں)۔

اگلا وزیراعظم جو بھی ہو اس کا تعلق آکسفورڈ کالج سے ہو گا۔ ڈیوڈ کیمرون، ٹریزا مے اور بورس جانسن کی پیروی کرتے ہوئے وزیراعظم یا تو مرٹن (لز ٹرس) سے ہونا تھا یا لنکن (رشی سونک) سے۔ (مرٹن اور لنکن بھی آکسفورڈ کے کالج ہیں)۔

ایسا لگتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی رائے کس کے حق میں ہے۔ ’آکسفورڈ‘ ہمیشہ قیادت کرتا ہے، بظاہر اکثر و بیشتر اس کے دبستان فلسفہ، سیاسیات اور اقتصادیات سے فارغ التحصیل افراد سیاست اور میڈیا کی دنیا میں چھائے ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ٹریزا مے جغرافیہ کے مضمون میں غیر معمولی تھیں اور جانسن آکسفورڈ میں کلاسیکی تعلیم حاصل کرتے ہوئے بہت اولڈ فیشن تھے لیکن وہ فلسفہ، سیاسیات اور اقتصادیات (اس مضمون کو پی پی ای کہا جاتا ہے) پڑھنے والوں میں گھرے ہوئے تھے، خاص طور پر رشی سونک یا لز ٹرس۔ وہ ہر جگہ ہیں۔

 آپ نے شاید نوٹ کیا ہو کہ جب لز ٹرس (مرٹن کالج سے پی پی ای کی طالب علم) نے نک رابنس (یونیورسٹی کالج سے پی پی ای کے طالب علم۔ پی پی ای: فلسفہ، سیاسیات اور معاشیات کی تعلیم) کے ساتھ اپنا انٹرویو منسوخ کیا تو وہ کس قدر مایوس ہوئے یا سابق ٹوری رہنما ولیم ہیگ (میگڈالین سے پی پی ای) یارک شائر کے علاقے رچمنڈ سے اپنے جانشین رکن پارلیمان کے طور پر رشی سونک (لنکن سے پی پی ای) کے نام پر کتنے پرجوش تھے۔ جب لز ٹرس کو بطور وزیراعظم اپنے پہلے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا تو ممکن ہے ان کا استقبال لب ڈیم کے رہنما ایڈ ڈیوی کریں جنہوں نے جیزس کالج سے پی پی ای کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

 شاید یہ بات بھی آپ پر واضح ہو سکے کہ بہت سے لوگ کیوں سوچتے ہیں کہ ویسٹ منسٹر bubble سب کچھ اپنے اندر ہی رکھتی ہے اور کیوں نائجل فرانج جیسے فطری طور پر جارحانہ اور خود ساختہ بیرونی لوگ کسی وسیع ’اسٹیبلشمنٹ‘ کی سازش پر یقین رکھتے ہیں، اگرچہ یہ ایک بالکل بے سر و پا بات ہے۔ اس میں فلسفے، سیاسیات اور اقتصادیات سے تعلق رکھنے والے اچھے خاصے مختلف لوگ ہیں۔

 اس کے باوجود اگر محض وزرائے اعظم کی ہی بات کی جائے تو اس عہدے پر آکسفورڈ کی گرفت حیران کن حد تک مضبوط رہی ہے۔ جب سے رابرٹ والپول نے 1721 میں پہلے تسلیم شدہ وزیراعظم کے طور پر عہدہ سنبھالا تب سے ابھی تک آنے والے 55 وزرائے اعظم میں سے 29 آکسفورڈ کے فارغ التحصیل ہیں۔ گذشتہ نصف صدی میں بننے والے تمام وزرائے اعظم آکسفورڈ یونیورسٹی گئے یا پھر انہوں نے سرے سے تعلیم حاصل ہی نہیں کی۔

اس میں ایک استثنیٰ گورڈن براؤن کو حاصل ہے اور ان کے علاوہ وہ چار وزرائے اعظم جنہوں نے محض پی پی ای کی۔ 1900 کے بعد سے سب سے بڑا انتخابی عہدہ رکھنے والوں کی بات کی جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ 25 میں سے 14 آکسفورڈ کے تیار کردہ تھے لیکن کیمبرج کے محض تین (اور 1937 کے بعد کوئی نہیں) ایڈنبرا اور برمنگھم کے ایک ایک (بالترتیب براؤن اور چیمبرلین) اور چار جو کبھی یونیورسٹی نہیں گئے (بونر لا، ونسٹن چرچل، جیمز  کیلی گین اور جان میجر)۔ ان میں تین ایسے ہیں جنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک ہی کالج بالیول سے ایک ہی مضمون کلاسیکس میں ڈگری لی (ایچ ایچ ایسکوئتھ، ہیرالڈ میک ملن اور جانسن)۔

 1960 اور 1970 کی دہائیوں کے بیشتر حصے میں برطانوی سیاسی منظرنامے پر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گرامر سکول آکسفورڈ سے پی پی ای کے دو گریجویٹس کا غلبہ رہا۔ یہ دو ایسے معاصرین تھے جو ایک دوسرے کو سخت ناپسند کرتے تھے، ہیرالڈ ولسن (جیسس اینڈ یونیورسٹی کالج) اور ایڈورڈ ہیتھ (بالیول)۔ پی پی ای کے دو سابقہ طلب علم 2010 میں کارپس کرسٹی کے مقام پر لیبر کی قیادت کے لیے آمنے سامنے آئے، ڈیوڈ ملی بینڈ بمقابلہ ایڈ ملی بینڈ۔

یاد رہے کہ اگر لیبر اگلے انتخابات میں فتح سے ہم کنار ہوتی ہے تو ہم پہلی دفعہ لیڈز کے گریجویٹ کو بطور وزیراعظم دیکھیں گے لیکن بدخواہ خبردار رہیں کہ کیر سٹارمر نے قانون کی تعلیم سینٹ ایڈمنڈ ہال آکسفورڈ سے حاصل کی ہے۔ ان کی کابینہ میں کم از کم بھی پانچ شخصیات آکسفورڈ کی تیار کردہ ہوں گی، یعنی اینیلیز ڈاڈز (سینٹ ہلڈا)، ریچل ریوز (نیو کالج)، ایوٹ کوپر (بیلیول)، نک ٹامس سائمنڈز (سینٹ ایڈمنڈ ہال) اور ایڈ ملی بینڈ (کورپس کرسٹی)۔

1960 اور 1970 کے عشروں کے درمیان جو لیبر کی کابینہ تھی، اس کا ایک چوتھائی اسی طرح کی پروفائل کا حامل ہے، خود ونس سمیت ٹونی بین (نیو کالج)، ڈینس ہیلی (بیلیول)، باربرا کیسل (سینٹ ہیوز)، شرلی ولیمز (سمر ول) اور مائیکل فٹ (ویڈم)۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں مزید نام گنوا سکتا ہوں مگر میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آکسفورڈ سے پی پی ای یا کسی اور چیز میں ڈگری حاصل کر لینا فکری بلند قامتی یا سیاسی کامیابیوں کی علامت نہیں۔ جنگ کے بعد کے زمانے سے تعلیمی اعتبار سے ہمارے ممتاز ترین رہنما ولسن تھے، جنہوں نے انعامات جیتے اور اپنے تمام پرچوں میں بہترین گریڈز حاصل کرتے ہوئے اپنے تعلیمی سال میں پی پی ای کے نمبر ون طالب علم قرار پائے، مگر تاریخ دان ان کی بطور وزیراعظم کامیابیوں کو بہت اعلیٰ نمبر نہیں دیتے۔ 

پی پی ای میں ڈگری حاصل کرنے سے وابستہ رسمی کشش کو جیزس کالج کی ویب سائٹ پر موجود اس مختصر اقتباس نے اچھی طرح بیان کیا ہے: ’پی پی ای ایک غیر معمولی کورس ہے اور اس کے تین مضامین، فلسفہ، سیاسیات اور اقتصادیات متضاد فکری انداز اور چیلنجز کا مجموعہ ہیں۔ کورس کے اندر تخصیص کے لیے بہت زیادہ تنوع اور گنجائش موجود ہے اور آپ کو ایسے کورس کے انتخاب میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی جو آپ کی فکری ضروریات اور دلچسپیوں کو پورا کرتے ہوں۔

’ایک انتہا یہ ہے کہ آپ تینوں مضامین کو پورے تین سال تک جاری رکھ سکتے ہیں اور اس مخصوص پروگرام کے اختتام تک آپ کو ان اہم اداروں، مفکرین اور نظریات پر واضح گرفت ہو گی جنہوں نے جدید معاشرے کی تشکیل کی ہے۔ دوسری انتہا یہ کہ آپ بنیادی طور پر ایک مضمون کو اپنی توجہ کا مرکز بنا سکتے ہیں، پہلے سال کے بعد دوسرے کو مکمل طور پر چھوڑ سکتے ہیں اور تیسرے سال میں محض چند پیپرز کرنے ہوں گے۔ اس طرح آپ مثال کے طور پر سیاست یا فلسفے کو ایک ذیلی مضمون کے طور پر رکھتے ہوئے معاشیات کو ’کلیدی‘ مضمون کے طور پر پڑھ سکتے ہیں۔ اس طرح آپ متضاد قسم کے دوسرے ڈسپلن میں دانشورانہ تنوع کے ساتھ معاشیات میں اعلیٰ سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔‘

اگرچہ اتنے عرصے کے دوران کچھ اصول بدل چکے ہیں لیکن کورس کے مقاصد اور ڈھانچہ 1921 میں ابتدائی انڈرگریجویٹس کے آغاز کے بعد سے ایسا ہی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس وقت سے پہلے آکسفورڈ میں معاشیات کی تعلیم حاصل کرنا ناممکن تھا جب کہ کیمبرج کے پاس دنیا کا ایک معروف سکول تھا، جس سے جدید مائیکرو اور میکرو اکنامکس کے بالترتیب علمبردار الفریڈ مارشل اور جان مینرڈ کینز وابستہ تھے۔ ’سیاسیات‘ کو انتہائی تاریخی اور ادارہ جاتی انداز میں پڑھایا جاتا ہے جس میں کچھ نہ کچھ ’تھیوری‘ تو ہے لیکن ’پولیٹیکل سائنس‘ نہیں۔ اس کے لیے آپ کو کیمبرج یا لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس کی ضرورت ہے۔

پی پی ای کورس کو کلاسیکس کے مقابلے میں جدید تہذیبوں کی بنیاد کی سوجھ بوجھ پیدا کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا جس طرح Literae Humaniores  یا ’گریٹس‘ آپ کو قدیم روم اور یونان سے متعارف کروائیں گے، لہٰذا پی پی ای کو ماضی میں اور بعض اوقات اب بھی ’ماڈرن گریٹس‘ کے طور پر جانا ہے۔

اپنے زمانے کے اعتبار سے یہ ایک انقلابی یا کم از کم بالکل حیران کن چیز تھی۔ یونیورسٹی میں خواتین کی کم تعداد کے اعتبار سے خاتون اور اس کے ابتدائی طلبہ میں سے ہونے کے ناطے  باربرا کیسل دو طرح سے بنیاد گزار تھیں، وہ بعد میں لیبر پارٹی کی لیجنڈری رہنما بنیں اور مسز تھیچر کی کامیابی سے پہلے وسیع پیمانے پر برطانیہ کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر ان کا نام گردش میں تھا۔

بھڑکیلے بالوں والی اور پرجوش کیسل (nee Betts) کی پیدائش 1910 میں ہوئی اور اکتوبر 1929 تک وہ سینٹ ہیوز میں رہیں۔ اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب ’فائٹنگ آل دا وے‘ میں وہ بتاتی ہیں کہ وہ پی پی ای کے لیے کیوں گئی تھیں۔ وسیع پیمانے پر احساس تفاخر اور خواتین کے خلاف تعصب اور آکسفورڈ کے بیرونی دنیا سے ہم آہنگ نہ ہو سکنے میں ناکامی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں:

’سینٹ ہیوز پہنچ کر میں نے فرانسیسی سے فلسفہ، سیاسیات اور اقتصادیات (پی پی ای) میں جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ میری زندگی کی منصوبہ بندی کے لیے زیادہ مناسب تھا۔ کچھ مدت سے میں بالکل واضح تھی کہ مجھے صرف سیاست اور صحافت کے پیشے میں دلچسپی ہے۔ بدقسمتی سے جب میں نیو سکول پہنچی تو اس کی عمر محض پانچ برس تھی اور وہ شدید مشکل حالات سے گزر رہا تھا۔ اسے متعارف کروانے کا مقصد آکسفورڈ کا اپنے آپ کو جدید بنانا تھا اور صاف بات یہ ہے کہ اس کے لیے درکار ہتھیاروں سے یونیورسٹی آراستہ نہ تھی۔ سینٹ ہیوز میں مجھے فقط ایک ہاؤس ٹیوٹر ملے جو قرون وسطیٰ کے مورخ، مختصر سے وجود کے گول مٹول ملنسار انسان تھے، جنہیں واضح طور پر جدید دنیا کے اقتصادی و سیاسی مسائل کا کچھ پتہ نہ تھا۔‘

اپنے تمام منفرد اور حقیقی چیلنجز کے پیش نظر اقتصادیات کا مضمون ایک خاص ریاضیاتی ذہنی ساخت کا مطالبہ کرتا ہے، جس کی جڑیں ہمیشہ سیاسی معاملات میں پیوست نہ ہوتی تھیں، بظاہر یہ مضمون مستقبل کے سیاست دانوں کا پسندیدہ ٹھہرتا کیوں یہ آکسفورڈ یونین، مختلف سیاسی تنظیموں اور انجمنوں اور طلبہ کے اخبارات میں ’وقت گزاری‘ کے لیے زیادہ فرصت فراہم کرتا۔

انتہائی پرجوش مائیکل ہیسٹ لائن (پیمبروک) اور خوش مزاج ڈیوڈ کیمرون (بریزینوز) اس کی مثالیں ہیں۔ کیمرون کے بارے میں ان کے سیاسیات کے استاد ورنن بوگڈانور کا کہنا تھا کہ ’میں نے جتنے طلبہ کو پڑھایا ان میں سے وہ ایک بہترین اور قابل طالب علم تھے۔۔۔ لیکن میں ان کے خیالات کا ذمہ دار نہیں ہوں۔‘

کیمرون نے پہلی پوزیشن حاصل کی لیکن ان کے بارے میں ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ وہ آدھی آدھی رات تک پڑھتے ہوں۔ دوسری طرف بعد میں ان کے یورپین یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے فیصلے نے آئینی ماہر بوگڈانور یا ’بوگز‘ (جیسا کہ وہ آکسفورڈ میں جانے جاتے ہیں) کو اس سیاسی ابتری کے بارے میں کئی کتابیں لکھنے پر مجبور کیا، جو ان کے سابق طالب علم نے پیچھے چھوڑی تھی۔ (فطری طور پر خود بوگڈانور بھی پی پی ای کے طالب علم تھے، جنہوں نے کوئینز کالج سے پڑھا تھا۔)

 کیمرون کے مقابلے میں ہیسٹ لائن اور بھی کم محنتی طالب علم تھے جنہوں نے آکسفورڈ میں اپنا بیشتر وقت آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کنزرویٹو ایسوسی ایشن (OUCA) پر غلبہ حاصل کرنے، سماجی تعلقات استوار کرنے اور ساتھ ساتھ مال بنانے میں صرف کیا۔ ان کے سوانح نگار مائیکل کرک (پی پی ای نیو کالج) ان کے تعلیمی ریکارڈ کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

’اس وقت پی پی ای پڑھنے والے طلبہ اپنی دوسری مدت کے اختتام پر ایک بنیادی امتحان Prelims دیتے تھے لیکن اس رکاوٹ کو پار کرنے میں ہیسٹ لائن کو مزید 12 مہینے لگے۔ اگلی بار وہ اپنے منتخب کردہ تینوں مضامین آئینی تاریخ، اقتصادیات اور فرانسیسی میں فیل ہو گئے۔ یہ خاص طور پر اس لیے بہت برا نتیجہ تھا کیونکہ ان میں سے دو مضامین تو وہ پہلے ہی سکول میں پڑھ چکے تھے۔ انہوں نے تاریخ اور اقتصادیات تو سمر میں پاس کر لیں لیکن اپنے فرانسیسی نسب کے باوجود مارچ 1953 میں تیسری کوشش سے پہلے فرانسیسی زبان کا مضمون پاس نہیں کر سکے تھے۔

آج آکسفورڈ کالجز بہت زیادہ سخت ہیں اور عام طور پر ایک سے زائد مرتبہ ابتدائی امتحان میں فیل ہونے کے بعد طلبہ کو واپس بھیج دیتے ہیں (یعنی انہیں نکال دیتے ہیں)۔

آپ انہیں پی پی ای کے انتہائی کام چور طالب علم کہہ سکتے ہیں مگر وہ پھر بھی نائب وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔ مارگریٹ تھیچر (سمر ول کالج) کی اقتدار سے برطرفی میں ہیسٹ لائن کو مشکوک کردار ادا کرنے کا امتیاز بھی حاصل ہے۔ 1990 کا ٹوری قیادت کا بحران ایک تلخ بھیانک معاملہ تھا، جس کی گونج 2000 کی دہائی تک بہت واضح سنائی دیتی رہی، یہ بالکل آکسفورڈ یونیورسٹی کنزرویٹو ایسوسی ایشن کے ماضی کے انتخابات کی طرح تھا مگر زیادہ مہذب انداز میں۔

لیکن سیاسی امنگ کے لیے پی پی ای کوئی بہت لازمی چیز نہیں۔ مارگریٹ رابرٹس (جو بعد میں تھیچر بنیں) اور ٹریزا بریزیئر (بعد ازاں مے) نے بالترتیب کیمسٹری اور جغرافیہ پڑھا تھا، انہوں نے لاپروا یا شرارتی ہوئے بغیر اپنی پڑھائی کو سنجیدگی سے لیا اور اعلیٰ امتیاز سے پاس کیا۔ ٹریزا مے کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ ان کا ڈگری کا انتخاب ’پی پی ای کے بہت سے پرجوش سیاست دانوں کے مقابلے میں کم نمائشی تھا لیکن آپٹکس میں ان کی دلچسپی ہمیشہ کی طرح گہری تھی۔‘

پی پی ای نہ پڑھنے والی تھیچر اپنی یاداشتوں میں کافی وقت اس بات پر صرف کرتی ہیں کہ کیمسٹری کی تعلیم حاصل کرنا کتنا مزے دار تھا اور سمر ول کالج میں ان کے اساتذہ کیسے متاثر کن تھے۔ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیلات بھی اچھی خاصی بیان کرتی ہیں جن کی زیادہ توجہ آکسفورڈ یونیورسٹی کنزرویٹو ایسوسی ایشن اور بدقسمتی سے بطور مخخف FUCUA (فیڈریشن آف یونیورسٹی کنزرویٹو اینڈ یونینسٹ ایسوسی ایشنز) کہلانے والی تنظیم پر مرکوز رہیں مگر ایک لفظ بھی اس بارے میں نہیں کہ آیا انہیں کبھی پی پی ای میں دلچسپی پیدا ہوئی۔  

درحقیقت یہ دونوں حوالوں سے درست ہے۔ حیرت انگیز طور پر لیبر کی طرف سے اکثریت حاصل کرنے والے اکلوتے تین افراد اپنے سیاسی کیریئر کے لیے کچھ زیادہ فکرمند نہ تھے۔ کلیمنٹ ایٹلی (یونیورسٹی کالج، اگرچہ پی پی ای کے آپشن سے پہلے کے)، ہیرالڈ ولسن (جیزس) اور ٹونی بلیئر (سینٹ جونز) آکسفورڈ گئے اور بالترتیب تاریخ، پی پی ای اور قانون کے مضامین لیے لیکن انہیں لیبر کی سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ کلیمنٹ ایٹلی ایک قدامت پسند سامراجی تھے، ولسن ایک نیم دل لبرل اور ٹونی بلیئر (خدا ان پہ رحم کرے) ایک راک سٹار بننا چاہتے تھے۔

تھیچر اور ٹریزا مے کی اس میں عدم دلچسپی اور لیبر پارٹی کے پی پی ای سے بہترین کارکردگی کے پیش نظر اسے بائیں بازو کا نظم و ضبط سمجھا جا سکتا ہے یا کم از کم ایسا جو ایڈورڈ ہیتھ، نائجل لاسن اور اولیور لیٹون جیسے دائیں بازو کے بہت سے سابق طلبہ کے لیے باعث فخر نہیں تھا۔ اس کے باوجود شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ روپرٹ مرڈوک نے تین برس ووسٹر کالج میں جدید تہذیب کا مطالعہ کرتے ہوئے گزارے۔

اس وقت انہوں نے اپنے کمرے میں لینن کا مجسمہ سجا رکھا تھا اور وہ ’ریڈ روپرٹ‘ کے نام سے معروف تھے۔ اس کے برعکس دوسری طرز کی مثالوں میں انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک افیئرز کے سربراہ مارک لٹل ووڈ (بالیول) اور یو کے انڈپینڈنٹ پارٹی کے سابق رکن پارلیمان مارک ریکلیس (کرائسٹ چرچ) کے نام شامل ہیں۔ بل کلنٹن، بے نظیر بھٹو، آنگ سان سوچی، آسٹریلیا کے وزرائے اعظم میلکم فریزر اور باب ہاک بھی پی پی ای کے طلبہ تھے جو برطانوی فریم آف ریفرنس میں آسانی سے فٹ نہیں بیٹھتے۔

(نوٹ: اس فہرست میں عمران خان کا نام بھی شامل کیا جا سکتا ہے جنہوں نے 1972 میں آکسفورڈ کے کیبل کالج سے پی پی ای کی تعلیم حاصل کی)۔

پی پی ای کا نصاب اس دنیا کی عکاسی کرتا ہے جس کا وہ حصہ ہے۔ اگرچہ آپ کو گھومنے پھرنے کی کچھ آزادی ہے لیکن آپ میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ سمیت کئی بین الاقوامی سیاسی نظاموں کے تقابلی مطالعات کا رجحان پیدا ہوگا۔ کمیونسٹ ممالک کی اقتصادیات کے مطالعے کی گنجائش پہلے سے ختم ہو چکی ہے لیکن آپ ماضی میں اور اب بھی ملٹن فرائیڈمین کے اس مقالے کے نظریات سے خود کو اچھی طرح سیراب کر سکتے ہیں، جس کا عنوان بس اتنا سا تھا ’منی۔‘

یونینز کی طاقت میں کمی کے ساتھ لیبر اکنامکس ختم ہو کر رہ گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اب پی پی ای کے طلبہ ’گیم تھیوری،‘ ’چین کی سیاست‘ اور ’مابعد صنعتی انقلاب کی عمرانیات‘ کا بھی مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ڈان مجموعی طور پر مہذب لوگوں اور یونیورسٹیاں روادار اور شائستہ انداز کی متجسس جگہیں ہوتی ہیں لیکن ان کی ایک ذمہ داری اپنے طلبہ کے لیے متضاد ہونا اور انہیں چیلنج کرنا بھی ہے۔

ابھی آکسفورڈ میں لز ٹرس کے وقت کے بارے میں اتنا معلوم نہیں سوائے یہ کہ وہ بنیاد پرست نقطہ نظر کی ایک پرجوش لبرل ڈیموکریٹک تھیں اور ان کے مطابق ان کی ’پرواز‘ دائیں بازو کی سمت تھی۔ ہم نہیں جانتے اس بات کی اہمیت کتنی ہے کہ ان کے اساتذہ نے انہیں کیسے تیار کیا اور انہوں نے کتنی زیادہ یا کم اقتصادیات جذب کی۔

1970 کے بعد سے طلبہ کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ پہلے سال کے بعد فلسفہ، سیاسیات یا اقتصادیات میں سے ایک کو چھوڑ دیں اور اس طرح اختیاری پرچوں کو یوں ترتیب دیں کہ مشکل ریاضی کے پرچے کم سے کم لیے جائیں یا اعلیٰ درجے کی ’رسمی منطق‘ کی پراسرار دنیا (جو جتنی دیکھنے میں لگتی ہے اس سے بھی کہیں زیادہ کم دلچسپ ہے) جیسے پیچیدہ فلسفیانہ پرچوں کو ترک کر دیا جائے۔ اس لیے ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے پی پی ای کے مطالعے نے محترمہ لز ٹرس کو اپنی نئی ذمہ داری کے لیے کس قدر تیار کیا ہے۔ ان کی اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ یقیناً اس چیز نے بھی انہیں ٹوری قیادت کے صف اول کے امیداواروں میں آنے میں مدد دی جس کے بعد وہ تیزی سے اور اب تک کی سب سے کم عمر خاتون وزیر بن گئیں اور اب ایک نوجوان وزیراعظم ہیں، جن کی 50 ویں سالگرہ میں ابھی چند برس باقی ہیں۔

جہاں تک پی پی ای کی بات ہے تو ان کا ذاتی سیاسی فلسفہ اوریجنل نہ سہی لیکن طے شدہ ہے، ان کی سیاسی جبلتیں یقیناً اچھی طرح تراشی ہوئیں اور متوقع طور پر پاپولسٹ ہیں لیکن ان کا معاشی مطالعہ کمزور بنیادوں پر استوار اور متذبذب لگتا ہے۔ بحیثیت مجموعی وہ بہت اچھے گریڈز کی حامل نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس