کیا آپ آکسفورڈ کا انٹرویو پاس کر سکتے ہیں؟

ماڈرن لینگویجز میں داخلہ لینے والے طلبہ سے یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ابھی بھی اطالوی یا فرینچ زبان سیکھنا کیوں ضروری ہے جب دنیا پر انگریزی زبان کا غلبہ ہے۔

یونیورسٹی کالج کے نک یوئنگ نے نفسیات کے شعبے میں داخلہ لینے والے طلبہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کیسے دماغ کے چہرہ پہچاننے والے حصے کی اہمیت بیان کر سکتے ہیں۔ (پی اے)

آکسفورڈ یونیورسٹی نے ان سوالوں کے نمونے جاری کیے ہیں جو وہاں داخلہ لینے کے خواہشمند طلبہ سے پوچھے جا سکتے ہیں۔

ان سوالوں کی فہرست میں چند سوال ہیں جیسے کہ ’ کیا جنگ سیاست کا متضاد ہے؟َ اور دماغ کے اس حصے کی کیا اہمیت ہے جو لوگوں سے ملاقات کے دوران ان کے چہرے پہچاننے میں مدد دیتا ہے؟‘

اگلے دو ہفتوں کے دوران آکسفورڈ میں داخلے کے امیدواروں کے کم سے کم دو انٹرویو لیے جائیں گے۔ یونیورسٹی نے یہ سوال داخلے کے طریقہ کار کو کم خوف زدہ بنانے کے لیے جاری کیے ہیں۔

ماڈرن لینگویجز میں داخلہ لینے والے طلبہ سے یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ابھی بھی اطالوی یا فرینچ زبان سیکھنا کیوں ضروری ہے جب دنیا پر انگریزی زبان کا غلبہ ہے۔

جب کہ انجینئیرنگ کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والوں کو ولاسٹی کے پیچھے موجود طاقت اور فٹ بال کو ہوا میں اچھالنے کے طریقہ کار کے بارے میں سکیچ بنانے کو کہا جا سکتا ہے۔

داخلہ ڈائریکٹر ڈاکٹر ثمینہ خان کہتی ہیں ’ ہم جانتے ہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے انٹرویو کے حوالے سے غلط فہمیاں اور مفروضے پائے جاتے ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ معلومات دی جائیں تاکہ طلبہ کی مدد کی جا سکے جو کہ ان کی آسانی کا باعث بنے۔

ڈاکٹر ثمینہ کے مطابق’اس بارے میں اندازہ ہونا کہ ان سے کیا پوچھا جا سکتا ہے انہیں انٹرویو کی تیاری میں مدد دیتا ہے اور کسی نامعلوم سوال کے بارے میں ان کی پریشانی کو کم کرتا ہے۔‘

جیزس کالج کے ڈاکٹر میتھیو ولیمز کہتے ہیں کہ ممکنہ طور پر سیاست، معیشت یا فلسفے کے طالب علم سے یہ کیوں پوچھا جائے گا کہ کیا جنگ سیاست کا متضاد ہے؟

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا ہے کہ ’ عام طور پر جنگ سیاست کا حصہ ہو سکتی ہے۔ اس کی مخالف نہیں۔ اس کا مقصد طلبہ کو کچھ الگ سوچنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اور ایک ایسی تشریح سوچنا ہے جو کی سیاست کو مثبت اور بہتر انداز میں دکھائے اور سیاست کو جنگ سے بچاؤ کے طور پر ثابت کرے۔

’ یہ ممکنہ رد عمل ’جنگ‘ کی اصطلاح سے جسمانی تشدد کا مطلب اخذ کر سکتے ہیں۔ ان میں سائبر جنگ بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اور سیاست کی سطح ریاست سے لے کر خاندانی تک ہو سکتی ہے۔‘

’اس لیے جنگ اور سیاست کی اتنی واضح تشریح ان اصطلاحات کے حوالے سے ہماری سمجھ بوجھ کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔‘

یونیورسٹی کالج کے نک یوئنگ نے نفسیات کے شعبے میں داخلہ لینے والے طلبہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کیسے دماغ کے چہرہ پہچاننے والے حصے کی اہمیت بیان کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چہرہ پہچاننا ایک فن ہے جو کہ بہت فائدہ مند ہے اور اسے بہت آسان سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوال پوچھ کر ہم یہ طلبہ کی تجرباتی ساخت کے بارے میں تنقیدی سوچ جاننا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان دیکھ سکیں کہ ہم ان نتائج سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔

’مثال کے طور پر کیا اس تجربے میں ایک واضح مفروضہ اور پیش گوئی کی گئی ہے؟ کیا یہ تجربہ کرنے کے لیے یہ ایک بہتر حالت ہے؟ کیا ایک مناسب طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے؟ کیا اس تجربے کے دوران تمام صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری اقدامات لیے گئے ہیں؟‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ تنقیدی سوچ کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ طلبہ تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر یہ جاننا اس تجربے کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور اس کے نتائج کیسے یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے؟‘

یہ مشورہ ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب ہزاروں طلبہ رواں مہینے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے انٹرویو دینے والے ہیں۔

ڈاکٹر ثمینہ خان کہتی ہیں ’ یہ کوئی مشکل سوالات نہیں ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم پوچھتے ہیں اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ طلبہ کیسے سوچتے ہیں اور نئے خیالات اور معلومات پر کیا ردعمل دیتے ہیں۔ یہ ایک تعلیمی گفتگو ہے جو لیکچرز کا حصہ ہو گی اگر وہ پڑھنے کے لیے آکسفورڈ آتے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس