مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں پروفیسر بننے کے بعد سب سے زیادہ یہ جملہ بولوں گی۔۔۔۔ راستے سے ہٹیں۔ ہر روز صبح سے شام تک مجھے کئی بار یہ جملہ بولنا پڑتا ہے۔
صبح لہجہ نرم ہوتا ہے، شام تک لہجے میں تلخی آ جاتی ہے۔ ڈپارٹمنٹ کی ہر گزرگاہ اور ہر سیڑھی پر طلبہ رستہ روکے کھڑے ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی باتیں بھی وہیں کرنی ہیں، چائے بھی وہیں پینی ہے اور اسائنمنٹ بھی وہیں بیٹھ کر بنانی ہے۔
پاکستان میں تقریباً ہر جامعہ کا یہ حال ہے۔ کسی بھی جامعہ میں چلے جائیں۔ طلبہ کلاس رومز سے زیادہ کوریڈور کے ٹھنڈے فرش پر یا ڈپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے ملیں گے۔ جو وہاں موجود نہیں ہوں گے وہ ڈپارٹمنٹ کے دروازے پر کھڑے خوش گپیاں ہانک رہے ہوں گے۔
ان طلبہ کے درمیان سے گزر کر جانا اپنے آپ میں ایک امتحان ہوتا ہے۔ ہر قدم پر کہنا پڑتا ہے راستے سے ہٹیں، راستے سے ہٹیں، پھر کہیں وہ سستی سے تھوڑا سمٹتے ہیں اور دوسروں کے گزرنے کی جگہ بناتے ہیں۔
اس میں طلبہ کی غلطی نہیں ہے۔ ہماری جامعات میں ان کے بیٹھنے کے لیے جگہیں ہی نہیں بنی ہوئیں۔
کمرہ جماعت لیکچر کے لیے ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں بند رکھا جاتا ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے ہمارے پاس لیبارٹریز بھی مناسب تعداد میں موجود نہیں ہیں۔ جو موجود ہیں ان میں بیٹھنے کی نشستیں محدود ہیں۔ جو وہاں بیٹھے ہوتے ہیں انہیں ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے وہ وسائل کا غلط استعمال کر رہے ہوں۔
لائبریری کا ایک مخصوص ماحول ہوتا ہے۔ جنہیں لائبریری کا ماحول پسند ہو یا جنہوں نے کچھ گھنٹے سب کچھ بھلا کر پڑھائی کرنی ہو وہ وہاں چلے جاتے ہیں لیکن جنہوں نے بس کسی دوست سے بات کرنی ہو یا ڈپارٹمنٹ کے ماحول میں بیٹھ کر اسائنمنٹ حل کرنی ہو یا جو بس کلاس شروع ہونے سے چند منٹ قبل ملا ہوا کام کرنا چاہتے ہوں وہ کیا کریں؟
ان کے لیے پھر سیڑھیاں اور کوریڈور ہی بچتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میری چینی جامعہ اس لحاظ سے بہت مختلف تھی۔ وہاں طلبہ کے لیے عمارتوں کے اندر اور عمارتوں کے باہر بیٹھنے کے لیے بہت سی جگہیں بنی ہوئی تھیں۔ طلبہ جہاں چاہے آرام سے بیٹھ کر اپنا کام کر سکتے تھے۔
ایک طرف پیانو کی شکل کی جھیل تھی۔ اس کے کنارے کئی بنچ لگے ہوئے تھے۔ طلبہ وہاں بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے یا کچھ کھا سکتے تھے یا بس دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپیں لگا سکتے تھے۔
اس جھیل سے ایک کلومیٹر دور ایک آبشار بھی تھی۔ وہاں جھیل کے مقابلے میں قدرے زیادہ شور ہوتا تھا۔ اکثر صبح وہاں چینی ورزش کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔
اس کے علاوہ وہاں کینٹین کے علاوہ بہت سے ایسے کیفے بھی تھے جہاں طلبہ کافی پیتے ہوئے پڑھائی بھی کر سکتے تھے۔ میں اپنا زیادہ تر کام ان میں سے ایک کیفے میں کرتی تھی۔
مجھے کافی پینے کے لیے جامعہ سے باہر بھی نہیں جانا پڑتا تھا، مجھے کام کے لیے ایک مناسب جگہ بھی مل جاتی تھی اور میری وجہ سے کوئی ڈسٹرب بھی نہیں ہوتا تھا۔
اس سال موسم گرما میں مجھے سنگاپور جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے وہاں ایک ہفتہ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں گزارا۔ وہاں بھی جگہ جگہ طلبہ کے لیے بیٹھنے کی جگہیں بنائی گئی تھیں۔ ہر ڈپارٹمنٹ کے گراؤنڈ فلور پر طلبہ کے لیے بڑے بڑے بینچ، کرسیاں اور میزیں لگی ہوئی تھیں۔
ہر نشست کے قریب سوئچ بورڈ بھی لگا ہوا تھا۔ ایک طرف چھوٹے چھوٹے بریک آؤٹ رومز بنے ہوئے تھے۔ یہ کمرے ساؤنڈ پروف تھے۔ جو طلبہ باہر کے شور سے لاتعلق ہو کر کام کرنا چاہتے ہوں وہ ان کمروں کا استعمال کر سکتے تھے۔
ہمارے ہاں ان سہولتوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن یہی مستقبل ہے جس کی طرف ہمیں آہستہ آہستہ بڑھنا ہے۔ ہمارے ہاں عمارتوں کے سامنے بڑا سا گھاس کا قطعہ چھوڑ دیا جاتا ہے جسے ہم لان کہتے ہیں۔ طلبہ انہی لانز کو اپنے ہر کام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے گپیں لگانی ہوں، اسائنمنٹ کرنی ہو یا گروپ میٹنگ کرنی ہو، سب لان میں ہو گا۔
سردیوں میں یہ لانز خوب استعمال ہوتے ہیں، گرمیوں میں طلبہ ان سے بھاگتے ہوئے ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہیں۔
کیفے کا حال سب سے زیادہ بے حال ہوتا ہے۔ لان کے آخری سرے پر ایک شیڈ کے نیچے کوئی دکان لگ جاتی ہے اور اس کے سامنے طلبہ کا ہجوم بندھ جاتا ہے۔
طلبہ اپنا اپنا کھانا لے کر لان یا کوریڈورز میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی کو زیادہ خیال ہو تو کھانے کے بعد کچرا بھی سمیٹ لیتا ہے۔ ورنہ کوئی بوتل یہاں لڑھک رہی ہوتی ہے اور کاغذ ہوا کے سہارے یہاں سے وہاں گھوم رہے ہوتے ہیں۔
طلبہ کو ایسے راستے میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر غصہ بھی آتا ہے لیکن اس بات کا احساس بھی ہوتا ہے کہ ہماری جامعات کے ڈیزائن میں طلبہ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
ہم وسائل کا رونا روتے ہیں لیکن یہاں مسئلہ وسائل سے زیادہ سوچ کا ہے جسے ہم تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جامعات طلبہ کی شخصیت بناتی ہیں۔ ان کا ماحول، انفراسٹرکچر اور پالیسیاں طلبہ کی آنے والی زندگی کا تعین کرتی ہیں۔
اگر انہیں ایسا انفراسٹرکچر دیا جائے جو انہیں باعزت طریقے سے کسی ماحول میں رہنا سکھائے تو ان کی شخصیت مزید نکھر کر سامنے آئے گی اور ہم ملک کو ایک ایسی نسل دے پائیں گے جو سڑکوں پر دوسروں سے لڑنے کی بجائے مہذبانہ طریقے سے بات کر رہی ہو گی۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔