افغانستان میں 12 افراد کی باقیات پر مشتمل اجتماعی قبر دریافت: طالبان

اجتماعی قبر دیہاتیوں کو گذشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان کی سرحد سے متصل سپن بولدک کے ایک قصبے میں ملی۔

24  نومبر، 2001 کو ہرات میں لی گئی اس تصویر میں شمالی اتحاد کا ایک جنگجو ایک چھوٹے سے پول کے قریب کھڑا ہے جہاں سے اس کے 11 ساتھیوں کی لاشیں ملی ہیں (اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان حکام نے پیر کو کہا کہ سپن بولدک میں اجتماعی قبر دریافت ہوئی ہے جس میں 12 افراد کی باقیات ہیں۔

اجتماعی قبر دیہاتیوں کو گذشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان کی سرحد سے متصل سپن بولدک کے ایک قصبے میں ملی۔

یہ قصبہ ہے وہ مقام ہے جہاں گذشتہ سال افغانستان کی سابق حکومت کی فوج  اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی تھی۔

حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اجتماعی قبر میں دفن لوگ نو سال قبل اس وقت مارے گئے تھے جب امریکی حمایت یافتہ حکومت برسراقتدار لیکن اس جگہ آزادانہ چھان بین نہیں کی گئی۔

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق: ’یہ وہ لوگ تھے جنہیں سابق ظالم کمانڈر جنرل رازق نے دیہات سے گرفتار کیا۔ یہ تمام عام شہری تھے جنہیں قتل کر کے اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔‘

وہ قندھار پولیس کے سابق سربراہ کا حوالہ دے رہے تھے، جو طاقت ور کمانڈر تھے اور جنہیں 20 سالہ جنگ کے دوران  طالبان کے خلاف مؤثر لڑائیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اس اجتماعی قبر کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں جس کے بعد ہم فیصلہ کریں گے کہ کس قسم کی تحقیقات ہونی چاہیے۔‘

صوبہ قندھار کے گورنر کے ترجمان حاجی زید کا کہنا ہے کہ اجتماعی قبر سے ملنے والی باقیات کو قریب ہی دوبارہ دفن کر دیا گیا ہے۔ ایک اور شخص کی باقیات سمیت جن کی علیحدہ قبر پر کوئی نشانی موجود نہیں تھی۔

افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینٹ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ ’فرانزک معائنہ مؤخر کرتے ہوئے ان باقیات کو مزید خراب اور نقصان نہ پہنچایا جائے۔‘

طالبان حکام نے شوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز شیئر کی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دیہاتی ہڈیوں کے ڈھیروں کے اردگرد جمع ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جنرل عبدالرازق کو اکتوبر 2018 میں افغانستان میں اس وقت کے اعلیٰ امریکی کمانڈر جنرل سکاٹ ملر سے ملاقات کے چند منٹ بعد ایک محافظ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

طالبان نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے رزاق کو نشانہ بنایا جن کی شہرت قندھار اور ہمسایہ صوبوں میں ایک بے رحم مخالف کے طور پر تھی۔

رزاق کے بھائی تدین خان نے طالبان کے الزامات کو مسترد کر دیا۔

متحدہ عرب امارات سے اے ایف پی کے ساتھ ٹیلی فون پر مختصر بات چیت میں تدین خان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے خاندان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔‘

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے افغان شہریوں کو ہلاک کرنے کے واقعے کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گروسمین نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’قبر کے مقامات دریافت ہونے سے مزید فوری ہو گیا ہے کہ حکام انتقامی کارروائیاں روکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا