مہنگائی پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق مہنگائی کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں پیسے کے بہاؤ کی کمی ہے، کیوں کہ لوگ غیر یقینی حالات کی وجہ سے پیسے کو روک کے بیٹھے ہیں۔

29 اگست 2022 کی اس تصویر میں لاہور کے ایک بازار میں لوگ خریداری کر رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ ایک کیش اینڈ کیری کا منظر ہے جو شہر کے متوسط طبقے کے علاقے میں ہے۔ مہینے کی پہلی تاریخیں ہیں اور اتوار کا دن بھی ہے، اس لیے معمول سے زیادہ رش ہے جسے دیکھ کر میں سوچنے لگتا ہوں کہ پاکستان میں مہنگائی کا کوئی اثر ہوا بھی ہے یا نہیں۔

میرے آگے ایک خاتون اپنی بھری ہوئی ٹرالی لیے کھڑی ہیں، جب ان کا بل انہیں تھمایا جاتا ہے تو وہ اپنا پرس کھولتی ہیں۔ پرس میں سے جو رقم نکلتی ہے وہ بل کے مقابلے میں چار ہزار کم ہے۔ خاتون کیش کاؤنٹر والے کو کہتی ہیں کہ ’چار ہزار کی چیزیں نکال کر بل کم کرو۔‘

یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے کیونکہ متوسط طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے کریڈٹ کارڈ دے دیتا ہے لیکن یہ ظاہر نہیں ہونے دیتا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اگر یہ حالت کھاتے پیتے گھرانوں کی ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی صورت حال کیا ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات نے اگست میں مہنگائی کا تناسب 27.3 فیصد بتایا تھا جو کہ 1975 کے بعد پاکستان میں سب سے بلند ترین سطح ہے۔ ستمبر میں اس میں قدرے کمی دکھائی گئی جو کہ 23.2 فیصد بتائی گئی۔

اگرچہ دنیا بھر میں اس وقت مہنگائی کی ایک بڑی لہر چل رہی ہے، اشیائے خورد و نوش اور انرجی کی قیمتیں 35 سے 45 فیصد تک بڑھ چکی ہیں جس کی وجہ یوکرین جنگ ہے تاہم پاکستان میں مہنگائی کی ایک اضافی وجہ حالیہ تباہ کن سیلاب بھی ہے جس کے نتیجے میں فصلوں کو شدید نقصان ہوا ہے۔

صرف دو بڑی فصلوں میں سے چاول کی 15 فیصد اور کپاس کی 40 فیصد فصل تباہ ہوئی ہے۔ اسی طرح سبزیوں کی اربوں روپے کی فصلیں بھی برباد ہو گئی ہیں۔ مارکیٹ میں پیاز، آلو اور ٹماٹر سمیت مختلف سبزیوں کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ روپے کی قدر میں شدید عدم استحکام اور ڈالر کی بڑھتی قدر بھی مہنگائی میں اضافے کا موجب بن رہی ہے۔

مارکیٹ میں مقابلے کی فضا قائم کی جائے

پاکستان میں قیمتیں بڑھنے کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ کے اندر اجارہ داری اور مانیٹرنگ کے طریقہ کار متحرک نہ ہونا ہے۔ پہلے تحصیل لیول پر اسسٹنٹ کمشنرز کے زیر اہتمام پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہوتی تھیں لیکن اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں، جس کی وجہ سے ایک ہی ضلع میں ہر دو کلومیٹر کے بعد ریٹ بدل جاتے ہیں۔ جس کا جتنا جی چاہے وہ مانگ لے، اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔

اگر مہنگائی کی وجوہات داخلی ہوں تو اسے کنٹرول کرنے کے دو ہی طریقے رائج ہیں۔ ایک یہ ہے کہ مارکیٹ کے اندر مسابقت کا رجحان ہو جیسے کہ جدید دنیا کے اندر ہے۔

وہاں کی بڑی بڑی سپر مارکیٹوں کے درمیان ہمیشہ مقابلے کی فضا رہتی ہے کہ کون اپنے صارفین کو سستی سے سستی اشیا مہیا کرے گا، لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی مارکیٹ موجود نہیں ہے جو اس عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہو۔

ہمارے ہاں مقامی سطح کی چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں ہیں جو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ وہ بڑے بڑے گوداموں میں اشیائے خوردو نوش ذخیرہ کر لیتی ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں سپلائی کم ہو جاتی ہے۔

جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو انہیں اپنا منافع کئی گنا کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور لوگوں کے پاس چونکہ کوئی آپشن نہیں ہوتا اس لیے وہ انہی مارکیٹوں سے خریداری پر مجبور ہوتے ہیں۔ باہر کی دنیا میں قیمتوں کے کنٹرول کا کوئی طریقہ کار نہیں ہوتا۔ حکومت صرف مقابلے کی فضا قائم کرتی ہے اور یہ یقینی بناتی ہے کہ کسی کی اجارہ داری قائم نہ ہو۔

پاکستان میں مناپلی کنٹرول اتھارٹی تو موجود ہے لیکن وہ کیا کرتی ہے کچھ پتہ نہیں۔ ڈاکٹر ساجد امین جاوید ایس ڈی پی آئی میں ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بھی یہی مؤقف اپنایا کہ پاکستان میں مہنگائی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ بد انتظامی بھی ہے۔

’حالیہ سیلاب کو دیکھ لیں تو چیزوں کی اتنی کمی نہیں تھی لیکن ذخیرہ اندوزوں نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے من مانے ریٹس وصول کیے اور لوگوں نے ادا کیے۔ چونکہ اس سال پاکستان کے گروتھ ریٹ کو دیکھتے ہوئے مہنگائی کی شرح کم ہونے کی توقع نہیں ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیٹھے۔

’پیٹرول اور انرجی پر عائد ٹیکسوں میں دس فیصد کمی کروائے۔ اس وقت یہ ٹیکس سالانہ تقریباً 850 ارب روپے کے ہیں۔ دوسرا جو لوگ خط غربت سے نیچے ہیں انہیں سیفٹی نیٹ کے ذریعے مدد کی جائے۔‘

سٹیٹ بینک کی خودمختاری ایکٹ ختم کریں

ڈاکٹر عاصم جعفری فیئر فنانس سے منسلک ماہر معیشت ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مہنگائی کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں پیسے کے بہاؤ کی کمی ہے۔ لوگ غیر یقینی حالات کی وجہ سے پیسے کو روک کے بیٹھے ہیں۔ سٹیٹ بینک، آئی ایم ایف کی پابندی کی وجہ سے نوٹ چھاپ کر مارکیٹ میں پھینک نہیں سکتا۔ لوگ نہ نئی گاڑیاں خرید رہے ہیں اور نہ ہی پلاٹ، یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں پیسے کی گردش رک گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آج جن حالات سے پاکستان گزر رہا ہے امریکہ ان حالات سے 1980 میں گزرا تھا۔ اس وقت امریکی بینکوں نے شرح سود 22 فیصد کر دی تھی۔ پاکستان میں بھی شرح سود کو بڑھایا جائے۔ پہلے یہاں کون سی بزنس لوننگ ہو رہی ہے جو رک جائے گی۔ شرح سود بڑھے گی تو لوگ اپنی سیونگ نکالیں گے جو ہمارے جی ڈی پی کا 32 فیصد ہے۔ لوگ سونے کو کیش میں بدلیں گے۔ یہ پیسہ مارکیٹ میں آئے گا تو مارکیٹ میں غیر یقینی حالات ختم ہوں گے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ 17 سے 20 فیصد جی ایس ٹی کی مد میں صارفین سے جو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، اس کا کتنے فیصد قومی خزانے میں پہنچتا ہے تو ان کا جواب خاصا حیران کن تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’صرف چار فیصد قومی خزانے میں جاتا ہے اور صرف اس مد میں چوری ہونے والے ٹیکس کا تخمینہ تقریباً ایک ہزار ارب روپے ہے، جو ہمارے مجموعی ریونیو کا 22 فیصد بنتا ہے۔‘

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب آپ دس ہزار روپے کی خریداری کرتے ہیں اور حکومت کو تقریباً دو ہزار روپے جی ایس ٹی کی مد میں ادا کرتے ہیں تو سرکاری خزانے میں صرف 400 روپے پہنچتے ہیں۔ باقی دکاندار اور ہول سیل والے ہڑپ کر جاتے ہیں۔

حکومت کے لیے ہر دکاندار کو ٹیکس نیٹ میں لانا خاصا مشکل ہے اور ماضی میں ایسی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے، اس لیے حکومت صرف ترقی یافتہ ممالک کا ماڈل اپنائے اور بڑی بڑی سپر مارکیٹوں کو لائسنس دے، جن کے کیش کاؤنٹر براہ راست ایف بی آر سے منسلک ہوں۔

اس طرح حکومت کو نہ صرف ہزاروں ارب کی اضافی آمدنی ہو گی بلکہ مارکیٹ میں مقابلے کی فضا بھی جنم لے گی اور مصنوعی مہنگائی کا خاتمہ ہو گا۔

آڑھتی کا کردار ختم کیا جائے

پاکستان میں مہنگائی کی بڑی وجہ آڑھت بھی ہے۔ مال فیکٹری سے آڑھتیوں کے پاس جاتا ہے۔ آڑھتیوں سے دکانداروں کے پا س آتا ہے۔ جیسے ہی مارکیٹ میں کسی چیز کی طلب بڑھتی ہے، آڑھتی مال روک لیتا ہے، اس لیے اس جنس کی قیمت اگر دس روپے بڑھنی چاہیے تو وہ 20 روپے بڑھ جاتی ہے۔ سبزیوں اور پھلوں پر تو آڑھتیوں کی اجارہ داری ہے۔

مثال کے طور پر گلگت سے ایک کسان سے آلو 20 روپے کلو خریدا جاتا ہے اور منڈی میں آڑھتیوں تک پہنچتا ہے تو وہ 35 روپے کلو ہو جاتا ہے۔ آڑھتی اسے خرید کر دکاندار کو 50 روپے کلو بیچتا ہے۔ دکاندار صارف کو وہی آلو 70 روپے کلو بیچتا ہے۔

جس کسان نے آلو پر محنت کی اور اگایا اسے کچھ نہیں ملتا لیکن درمیان کا 50 روپے کا منافع سپلائر، آڑھتی اور دکاندار کھا جاتے ہیں۔ اس طرح کسان سے صارف کے درمیان والے ہاتھ نے اضافی 50 روپے بھی کما لیے اور حکومت کو ایک روپے کا ٹیکس بھی نہیں ملا۔

اسی ناانصافی کے خلاف گذشتہ دنوں کسانوں نے احتجاج بھی کیا تھا کہ ان سے گندم 2200 روپے من خریدی جاتی ہے لیکن صارف کو 4400 روپے من بیچی جاتی ہے۔ پاکستان میں نہ صرف مہنگائی ختم کرنے بلکہ جی ایس ٹی میں چوری روکنے اور اسے بڑھانے کے لیے حکومت کو آڑھت ختم کرنا پڑے گی۔

اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بڑی بڑی سپر مارکیٹوں کو پاکستان میں لائسنس دیے جائیں۔ وہ مارکیٹیں براہ راست کسانوں سے مال خریدیں اور صارفین تک پہنچائیں۔ اس سے حکومت کے ٹیکس ریونیو میں کم از کم دو ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت