کیا اسامہ بن لادن کبھی چترال آئے تھے؟ 

ایسے شواہد موجود ہیں کہ اسامہ بن لادن افغانستان کے راستے چترال بھی آئے تھے اور وہاں مقیم رہے۔

اسامہ بن لادن 1998 میں افغانستان میں (الجزیرہ/اے ایف پی)

نائن الیون کے حملوں کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اسامہ بن لادن آخری اطلاعات تک مشرقی افغانستان میں تورہ بورہ کے دشوار گزار پہاڑوں میں دوسرے جنگجوؤں کے ساتھ موجود تھے جہاں سے شدید بمباری کے بعد وہ فرار ہو گئے۔

اس کے بعد افواہوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ امریکہ نے اس کے سر کی قیمت ڈھائی کروڑ امریکی ڈالر رکھی تھی۔ وہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کے نشانے پر آ چکے تھے۔ امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے علاوہ کئی خفیہ ادارے انہیں ڈھونڈ نکالنے کی مہم میں شریک تھے۔

زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ بن لادن تورہ بورہ سے پاکستان میں داخل ہوئے اور ڈیورنڈ لائن سے متصل کسی قبائلی علاقے میں روپوش ہیں مگر ساتھ ہی اسامہ کے ممکنہ ٹھکانے کے طور پر قبائلی علاقوں کے علاوہ گلگت بلتستان میں کے ٹو پہاڑ سے لے کر خیبر پختونخوا میں چترال تک کئی دوسرے علاقے بھی زیرِ بحث آئے۔

چترال خیبر پختونخوا کے انتہائی شمال میں واقع دو اضلاع پر مشتمل علاقہ ہے۔ البتہ جس وقت اسامہ بن لادن کی تلاش جاری تھی اس وقت یہ ایک ہی ضلع تھا۔ اس کی شمالی، مغربی اور جنوب مغربی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پڑوس میں گلگت بلتستان، دیر اور سوات کے علاقے موجود ہیں۔

افغانستان سے ملنے والی اس کی سرحد میں کئی ایسے پہاڑی درے موجود ہیں جن کے ذریعے اس کا افغانستان سے زمینی رابطہ قائم رہتا ہے۔ ان میں سے گرم چشمہ اور ارندو کے علاقوں کے آس پاس ایسے درے موجود ہیں جہاں سے لوگوں کا دو ممالک کے درمیان آمد و رفت بھی ہوتا ہے۔

یہ علاقے روس افغان جنگ کے دوران مجاہدین کی آماج گاہ بن گئے تھے اور پاکستانی حکومت افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی کمک کے لیے یہاں کے دروں سے اسلحہ اور نفری بھیجتی تھی۔

موسم کی شدت اور برف باری کی وجہ سے سردیوں میں چترال کا رابطہ ماضی قریب تک ملک کے دوسرے حصوں سے کٹ جاتا تھا اور مقامی لوگ طویل سردیاں اپنے گھروں میں گزارنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ اب لواری پاس میں سے ایک سرنگ گزرتی ہے جو سال کے 12 مہینے اسے ملک کے دوسرے حصوں سے جوڑے رکھتی ہے۔

چترال عموماً پرامن علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور یہاں کے مقامی لوگ تنازعات میں الجھنا پسند نہیں کرتے۔ نائن الیون کے بعد بھی جب آس پاس کا سارا خطہ محاذِ جنگ بن گیا تھا تو چترال میں دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔

چترال ایجنسیوں کی نظر میں کب آیا؟  

پھر کیا ہوا کہ چترال جیسے پرامن علاقے کو عالمی خفیہ ایجنسیوں اور بین الاقوامی میڈیا دنیا کے سب سے مطلوب دہشت گرد کے ٹھکانے کے طور پر دیکھنے لگ گیا؟

اس کا آغاز افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ کے بعد ہوا۔ ستمبر 2002 میں امریکہ میں صحافیوں نے اس وقت کے پاکستانی سربراہ جنرل پرویز مشرف سے ان رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ کیا اسامہ بن لادن واقعی میں چترال یا گلگت میں موجود ہیں؟

امریکی اخبار کرسچن سائنس مانیٹر میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق انہوں نے اس بات کی تردید کی اور کہا ’مجھے نہیں لگتا کہ چترال میں یہ عناصر موجود ہیں۔ جہاں ہمیں معلومات ملتی ہیں وہاں ہم کارروائی کرتے ہیں۔‘ اسی طرح انہوں نے اسامہ کی گلگت میں موجودگی کو بھی بعید از قیاس قرار دیا۔

اسامہ کا ’چترال‘ میں ریکارڈ کیا گیا ویڈیو ٹیپ 

جنرل مشرف کی تردید سے یہ سلسلہ رک نہیں گیا۔ ایک سال بعد جب اسامہ بن لادن کی کسی نامعلوم مقام سے ویڈیو منظرِ عام پر آئی تو ان چہ مگوئیوں کو جیسے پر لگ گئے۔ یہ بن لادن کا وطیرہ تھا کہ وہ کوئی پیغام دنیا تک پہنچانے یا محض اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے ویڈیو یا پھر آڈیو ٹیپ ریکارڈ کر کے کسی میڈیا چینل تک پہنچا دیتے تھے یا پھر کسی ویب سائٹ کے ذریعے منظرِ عام پر لے آتے۔

یہ ویڈیو ٹیپس عموماً کمرے کے اندر ریکارڈ کی جاتیں اور انہیں ریکارڈ کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا کہ ان سے کوئی ایسی تفصیل یا معلومات عیاں نہ ہو جس سے ایجنسیوں کو کسی بھی طرح ان کے ٹھکانے کا سراغ مل سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

البتہ 2003 کی اس ویڈیو میں خاص بات یہ تھی کہ یہ ایک کھلی جگہ ریکارڈ کی گئی تھی اور اردگرد کا قدرتی ماحول اس میں نظر آ رہا تھا۔ ویڈیو میں اسامہ بن لادن کو ایک پہاڑی ڈھلوان پر ایک لاٹھی کے ذریعے چلتا دیکھا جا سکتا تھا۔ ان کے ہمراہ حال ہی میں ہلاک کیے جانے والے القاعدہ کے سینیئر رہنما ایمن الظواہری بھی تھے۔ ویڈیو نائن الیون کے دو سال مکمل ہونے پر نشر کی گئی اور اس میں مزید حملوں کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

یہ ساری تفصیلات اسامہ کا پیچھا کرنے والے سراغ رساں اداروں کے لیے بہت مفید تھیں۔ امریکی سی آئی نے ان تفصیلات کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔

28 اگست 2006 کو امریکی میڈیا ادارے سی این این کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کے مطابق اس ویڈیو میں سب سے اہم چیز جن پر سی آئی اے کے ماہرین کی توجہ گئی پہاڑ پر نظر آنے والے درخت تھے جنہیں انہوں نے چترال کے درختوں سے مشابہ قرار دیا۔

اس ویڈیو سے پہلے بھی اس سال پاکستانی اور امریکی اہلکاروں نے مل کر اس دوران چترال میں مختلف علاقوں میں خفیہ سرچ آپریشن کیا تھا اور اس کی وجہ مارچ کے مہینے میں القاعدہ کے خاص رکن خالد شیخ محمد کی راولپنڈی سے گرفتاری کے بعد اس سے ملنے والی معلومات تھیں جو اسامہ کے چترال اور بلوچستان میں ہونے کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ اس بارے ایک خبر اس وقت ڈان میں چھپی تھی۔

چترال میں ’امریکی ایف بی آئی کا دفتر‘ 

ڈان کے مطابق اپریل 2004 کے ایک دن چترال کے چیو پل سے ایک جلوس برآمد ہوا۔ اس جلوس کی سربراہی جماعتِ اسلامی کے چترال سے موجودہ منتخب رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کر رہے تھے۔ چترالی اس وقت متحدہ مجلس عمل کی نشت سے قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ جلوس کے شرکا کا دعویٰ تھا کہ امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے چترال کے شاہی قلعے کے اندر ایک دفتر کرائے پر لیا ہوا ہے۔ وہ فوراً اس دفتر کو بند کر کے امریکیوں کو چترال سے بھیجنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

دراصل کچھ عرصہ پہلے امریکی قونصل خانے کی گاڑی میں امریکی چترال میں داخل ہوئے تھے اور چترال شہر میں ایک مکان کرائے پر لے کر چلے گئے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کا ارادہ یہاں طویل قیام کا تھا۔ اس مکان کے لیے پشاور سے فرنیچر بھی بھیجا گیا تھا مگر پھر اس مظاہرے کے بعد شاید امریکیوں کو چترال میں رہنے کا ارادہ معطل کرنا پڑا اور وہ دوبارہ یہاں نظر نہیں آئے۔  

12 ستمبر 2011 کو امریکی جریدے نیویارکر کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا کہ افغانستان کے خفیہ اداروں نے 2005 میں ایک پاکستانی سید اکبر صابر کو گرفتار کیا۔ اکبر صابر کے بارے میں افغان حکام کا کہنا تھا کہ اس نے گرفتاری سے قبل اسامہ بن لادن کو چترال سے براستہ کنڑ افغانستان پشاور پہنچایا تھا۔

یاد رہے کہ لواری میں سرنگ بننے سے پہلے بعض اوقات راستہ بند ہونے کی وجہ سے چترال سے پشاور جانے والوں کو افغانستان کے علاقے کنڑ سے گزرنا پڑتا تھا۔ افغان حکام کا اکبر صابر پر الزام ہے کہ وہ آئی ایس آئی کا ایجنٹ تھا اور ایجنسی کی طرف سے اسامہ کے ساتھ تعینات دستے کا حصہ تھا مگر خود اکبر صابر کا کہنا تھا کہ وہ آئی ایس آئی کے بجائے اس کے بنائے گئے ایک ملیشیا کا حصہ تھا اور پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا۔  

اسامہ بن لادن چترال میں ’مقامی خاندان کے مہمان‘ 

اگست 2006 میں سی آئی آئے کے ایک افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر سی این این کے صحافی پیٹر برگن کو بتایا کہ غالب امکان ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع چترال میں روپوش ہیں۔

ان کا خیال تھا کہ اسامہ کے کسی غار میں روپوش ہونے کے عام تصور کے برعکس وہ چترال میں ’زیادہ سے زیادہ دو محافظوں کے ساتھ کسی مقامی خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہو سکتے ہیں۔‘  

انہوں نے 2003 کے ویڈیو ٹیپ میں نظر آنے والے درختوں کے ساتھ ساتھ اسامہ کے جاری کردہ آڈیو ٹیپ کے حوالے بھی دیے اور کہا کہ اسامہ کے چترال میں ہونے کا ایک اور ثبوت ان کے آڈیو پیغامات کو شہروں میں موجود کسی نشریاتی ادارے مثلاً ’الجزیرہ‘ تک پہنچنے میں درکار وقت بھی ہے۔

اسامہ اپنے پیغامات کی ترسیل سکیورٹی خدشات کے وجہ سے برقی ذرائع کی بجائے قاصدوں کے ذریعے کرتا تھا کیونکہ برقی آلات کی جاسوسی کر کے صارف کی لوکیشن معلوم کی جا سکتی ہے اور پکڑے جانے کا امکان بہرحال رہتا ہے۔  

سی آئی اے افسر نے القاعدہ ایراق کے سربراہ ابو معصب الزرقاوی کی ہلاکت کی مثال دی جسے سات جون 2006 کو مار دیا گیا تھا اور اس کی ہلاکت پر اسامہ کا آڈیو پیغام 30 جون کو ٹی وی پر نشر ہوا۔

پیغامات میں اس تاخیر کی وجہ سے امریکی ماہرین کو شک پڑ گیا تھا کہ اسامہ چترال میں ہونے کی وجہ سے اس کے پیغامات شہروں تک پہنچنے میں اتنا وقت لگ رہا ہے۔ البتہ جب پیٹر برگن نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمود درانی سے اسامہ بن لادن کے چترال میں ہونے کے بارے میں استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ثقافتی اور مذہبی پر طور پر مختلف ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ اسامہ کی رہائش کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’وہ (چترال کے لوگ ) اسے پسند نہیں کرتے۔ چترال میں وہ اپنے آپ کو بہت انجان پائے گا۔‘ 

’نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ کی چترال میں تلاش‘ 

 15 جون 2009 کو امریکی اخبار نیو یارک ڈیلی نیوز میں چھپنے والے ایک مضمون نے تہلکہ مچا دیا۔ اس مضمون پر کئی دوسرے بین الاقوامی اخباروں نے بھی تبصرے لکھے یا اس کے حوالے دیے اور چترال ایک بار پھر پہلے سے کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ اسامہ بن لادن کی ممکنہ کمین گاہ کے طور پر زیرِ بحث آگیا۔

مضمون کا عنوان تھا، ’اسامہ بن لادن کہاں ہیں؟ امریکہ نے نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ کی تلاش میں پاکستان کے علاقے چترال پر توجہ مرکوز کر دی۔‘

یہ وہ دور تھا جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈرون طیارے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے لگے تھے۔ انہیں خفیہ معلومات حاصل کرنے اور نگرانی کے علاوہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر میزائل داغنے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آئے روز ڈرون حملے ہوتے مگر چترال میں ڈرون حملے کبھی نہیں ہوئے۔ البتہ ان دنوں چترال کی فضاؤں میں ڈرون طیاروں کی پروازوں کی کئی اطلاعات آئیں جنہیں مقامی لوگ شک اور خوف کے ملے جلے تاثرات سے دیکھتے تھے۔  

مذکورہ امریکی اخبار میں جب چترال کے متعلق یہ خبر چھپی تو اس میں چترال کی فضاؤں میں نگرانی کی غرض سے آنے والے ان طیاروں کے متواتر پروازوں کا بھی ذکر تھا اور کہا گیا تھا کہ چترال میں داخل ہونے والوں اور باہر جانے والوں کی کڑی نگرانی شروع کی گئی ہے۔ اس مضمون میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ اسامہ 2006 سے چترال میں مقیم ہیں۔ چترال کے علاوہ وہ سوات کے علاقے کالام پر بھی شک کر رہے تھے۔ یہاں ایک بار پھر اسامہ بن لادن کے ریکارڈڈ پیغامات کا ذکر کیا گیا تھا۔

امریکی اخبار نے لکھا کہ 2003 سے لے کر 2008 تک ان میں سے کوئی بھی پیغام سردیوں کے موسم میں سامنے نہیں آیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سردیوں میں چترال کا رابطہ شہروں سے کٹ جاتا ہے اور اسامہ کے لیے اپنے قاصدوں کو پیغام دے کر شہر بھیجنا ممکن نہیں ہوتا۔

14 جنوری اور 14 مارچ 2009 کو اسامہ بن لادن کی جانب سے اسرائیل کے حوالے سے جو پیغامات نشر ہوئے تھے ان کے بارے میں امریکی حکام کا خیال تھا کہ جنوری کا پیغام دراصل دسمبر میں ریکارڈ کیا گیا تھا جب چترال کے راستے ابھی بند نہیں ہوئے تھے اور پھر مارچ میں راستے کھلنے کے بعد دوسرا پیغام ریکارڈ کرکے نشر کیا گیا۔ خبر میں سی آئی اے کے افسران سمیت متعدد ماہرین کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ ہندوکش کے پہاڑوں میں گھرے چترال کو اسامہ بن لادن کا خفیہ مسکن سمجھتے ہیں۔  

چترال میں بن لادن کو تلاش کرنے والے صرف ایجنسیاں ہی نہیں ہیں! 

امریکی چینل سی بی ایس 15 جون 2010 کو ایک خبر چھپی جس میں لکھا گیا تھا کہ 13 جون 2010 کو چترال کی حسین وادی کالاش کے اشپاتا اِن نامی ہوٹل سے ایک امریکی سیاح اپنی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار کو بغیر بتائے غائب ہو گیا۔

پولیس نے خبر ملنے کے بعد سیاح کی تلاش شروع کی اور وہ شخص جلد ہی قریب ایک جنگل میں پایا گیا۔ اس شخص کا نام گیری بروکس فاکنر تھا اور اس نے پولیس کو بتایا کہ وہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے افغانستان میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ اس وقت اس کے پاس سے ایک پستول، تلوار، رات کو دیکھنے کے خصوصی عینک کے ساتھ ساتھ بائبل اور کم مقدار میں چرس بھی برآمد ہوئی۔

فاکنر کے مطابق اسامہ کو پکڑ کر نائن الیون کا انتقام لینا اور اس کے سر کی قیمت وصول کرنا اس کی زندگی کا مشن تھا۔ اس کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اسامہ کو پکڑنے کے لیے اسے الوہی حکم ملا ہے، وہ اس سے پہلے سات دفعہ پاکستان آیا تھا اور تین مرتبہ چترال کا چکر بھی لگا چکا تھا۔ 

آٹھ ستمبر 2010 کو جی کیو میگزین میں فاکنر کے بارے میں بعد میں جو تفصیلات سامنے چھپیں وہ بہت مضحکہ خیز اور دلچسپ تھیں۔ اس نے اس سے پہلے دو دفعہ کشتی کے ذریعے امریکہ سے پاکستان آنے کی کوشش کی تھی مگر امریکہ کے ایک ساحل سے روانہ ہونے کے بعد تیز ہواؤں کی وجہ سے پاکستان پہنچنے کے بجائے میکسکو پہنچا۔

 کشتی کے ذریعے سفر میں ناکامی کے بعد وہ اسرائیل چلا گیا تاکہ ’ہینگ گلائڈ‘ کے زریعے پرواز کرکے پاکستان پہنچ سکے مگر وہاں گلائڈ کے حادثے کے بعد اپنی ہڈیاں توڑوا بیٹھا۔ فالکنر کی اس دلچسپ کہانی پر ہالی ووڈ میں ’آرمی آف وَن‘ کے نام سے 2016 میں ایک مزاحیہ فلم بھی بنائی گئی۔

پاکستانی حکام نے فالکنر سے تفتیش کے بعد اس کے خلاف مزید کاروائی کیے بغیر اسے امریکی حکام کے حوالے کیا۔  

چترال دوبارہ امریکہ کی نظروں میں  

اکتوبر 2010 میں نیٹو کے ایک اعلیٰ افسر نے سی این این کی نامہ نگار باربرا سٹار کو بتایا کہ اسامہ بن لادن چترال یا کرم ایجنسی میں ہو سکتے ہیں۔

نیٹو افسر نے اسامہ بن لادن کے ساتھ ساتھ اس کے اہم معتمد ایمن الظواہری کا ممکنہ ٹھکانہ بھی یہی دو علاقے بتائے۔ اس حوالے سے جب پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ماضی میں اس قسم کی رپورٹ غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ انہوں نے اسامہ اور اس کے ساتھی کے پاکستانی سرزمین پر ہونے کی تردید کی۔  

مگر رحمان ملک کی تردید کے برعکس اگلے سال امریکی نیوی کے کمانڈوز نے ایبٹ آباد میں کاروائی کرکے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ اس کی لاش شناخت کے بعد بحیرہ عرب میں ڈبویا گیا۔ 2001 میں اپنی روپوشی سے لے کر 2011 میں پاکستان میں اپنی موت تک کے عرصے میں وہ کن کن علاقوں میں اور کس حال میں رہے اور خصوصاً یہ کہ کیا چترال کو اس نے کبھی اپنی کمین گاہ کے طور پر استعمال کیا یا نہیں، یہ سارے راز شاید اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کی میت کے ساتھ سمندر کی پاتال میں دفن ہو گئے ہیں اور ان کا پورا جواب کبھی نہ ملے۔  

اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد وادی کالاش میں تلوار لے کر اس کی تلاش کرنے والا بروکس فاکنر ایک بار پھر منظرِ عام پر آ گیا۔ وہ بن لادن کے سر کی قیمت کی ڈھائی کروڑ ڈالر کی رقم میں سے اپنا حصہ طلب کر رہے تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اسامہ کی ہلاکت میں آپ کا کیا کردار ہے تو ان کا کہنا تھا کہ میں ہی اسامہ کو پہاڑوں سے نکال کر نیچے وادی (ایبٹ آباد) میں لایا تھا۔ ظاہر ہے فاکنر کو اس رقم میں سے کچھ بھی نہ ملا۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ