مصر ماحولیاتی کانفرنس: غریب ملکوں کے نقصان کا ذمہ دار کون؟

خسارے اور نقصان کی تلافی کا طریقہ کار وضع کرنا عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی ناانصافیوں کا مداوا کرنے کے لیے ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔

28 ستمبر 2022 کو لی گئی اس تصویر میں صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو میں بے گھر ہونے والے سیلاب متاثرین ایک عارضی خیمہ کیمپ کے باہر بیٹھے ہیں (اے ایف پی)

مختلف ممالک کے رہنما 2022 کی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے لیے مصر میں جمع ہو رہے ہیں اور اس دوران آپ کو کثرت سے ’خسارے اور نقصان‘ کے الفاظ سنائی دیں گے۔

اس سے مراد معاشی اور مادی دونوں طرح کے نقصانات ہیں جن کا سامنا ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار دنیا کے بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کا ماحولیاتی تباہی میں بہت معمولی ہاتھ ہے مگر اس کے باوجود وہ شدید گرمی کی لہروں، سیلابوں اور آب و ہوا سے متعلق دیگر آفات کا سامنا کر رہے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نقصان کی تلافی کے لیے مالدار ممالک آگے بڑھیں، جو ویسے بھی تاریخی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔

اس کی ایک واضح مثال پاکستان ہے جہاں 2022 کے موسم گرما میں گلیشیئر پگھلانے والی گرمی کی لہر اور طوفانی بارشوں کے سبب ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ شدید متاثر ہوا۔

سیلاب نے پاکستان کے کھیت کھلیانوں کو میلوں چوڑی جھیلوں میں تبدیل کر دیا جس سے وہاں آباد برادریاں کئی ہفتوں تک پھنس کر رہ گئیں۔

1700 سے زیادہ لوگ موت کی وادی میں جا سوئے، لاکھوں افراد اپنے گھر اور ذریعہ معاش سے محروم ہو گئے اور 40 لاکھ ایکڑ سے زیادہ فصلیں اور باغات ڈوب گئے یا تباہ ہو گئے۔

مال مویشیوں کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس کے بعد ملیریا کے کیسز میں اضافہ ہونے لگا کیونکہ ٹھہرے ہوئے پانی میں مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف ایک فیصد حصہ ڈالتا ہے۔

لیکن گرین ہاؤس گیسیں قومی سرحدوں کے اندر نہیں رہتیں، ان کا اخراج کہیں بھی ہو اس سے پوری دنیا کی آب و ہوا متاثر ہوتی ہے۔

گرم موسم کے سبب بارشیں کہیں زیادہ ہوتی ہیں اور مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں بارش کی شدت میں 50 فیصد تک اضافہ کیا ہے۔

1995 سے تقریباً ہر سال منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسوں میں خسارے اور نقصان کی مالی تلافی کا سوال مدت سے زیر بحث چلا آ رہا ہے لیکن بین الاقوامی موسمیاتی معاہدوں میں ان ادائیگیوں کے لیے مالیاتی طریقہ کار کے معاملے میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔

بہت سے ترقی پذیر ممالک رواں برس کی کانفرنس کوپ 27 کو اس رسمی طریقہ کار کے قیام پر پیش رفت کے لیے ایک اہم لمحے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

افریقہ کے انتہائی غریب ممالک کو شدید امداد کی ضرورت ہے

مصر کی میزبانی میں منعقد ہونے والی رواں سال کی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس میں اگر خسارے اور نقصان کی تلافی مرکزی موضوع بنے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہو گی۔

قومی سطح پر کم ترین  گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے ممالک میں افریقہ کے ملک سرفہرست ہیں لیکن اس کے باوجود یہ براعظم موسمیاتی تبدیلیاں سے شدید ترین متاثر ہونے والے ممالک کا گڑہ ہے۔

افریقہ نے 2019 میں فی کس کے حساب سے تقریباً 1.1 میٹرک ٹن آب و ہوا کو گرم کرنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کیا جو کہ عالمی اوسط 4.7 سے بہت کم ہے۔

اس کے برعکس امریکہ نے 16.1 میٹرک ٹن فی کس کے حساب سے ان گیسوں کا اخراج کیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ان ممالک کو، جن میں سے بہت سے دنیا کے غریب ترین ممالک شامل ہیں، موافقتی اقدامات کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے گی، جیسا کہ سمندری دیواریں تعمیر کرنا یا سمارٹ موسمیاتی زراعت اور انفراسٹرکچر کی طرف بڑھنا جو زیادہ گرمی اور شدید طوفانوں کو برداشت کرنے کے لیے لچکدار ہے۔

تین نومبر، 2022 کو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی آڈاپشن گیپ رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے جو امداد دولت مند ممالک فراہم کر رہے ہیں اس کی نسبت مزید پانچ سے 10 گنا زیادہ بین الاقوامی مالی امداد کی ضرورت ہے۔

جب موسمیاتی آفات آتی ہیں تو متاثرہ ممالک کو امدادی کارروائیوں، بنیادی ڈھانچے کی مرمت اور بحالی کے لیے مزید مالی مدد کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ یہ خسارہ اور نقصان ہے۔

مصر دولت مند ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ موسمیاتی موافقت اختیار کرنے اور خسارے اور نقصان کی تلافی دونوں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے پر مزید پیش رفت کریں۔

موسمیاتی ناانصافی اور خسارہ و نقصان

خسارے اور نقصان کا جب بھی ذکر ہو فطری طور پر مساوات کا اصول لاگو ہوتا ہے کہ جس نے جتنا غلط کیا وہ اتنا نقصان اٹھائے گا۔

اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن ممالک نے گلوبل وارمنگ میں بہت کم کردار ادا کیا وہ دولت مند ممالک کے گیسوں کے اخراج کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے ذمہ دار کیوں ہیں؟

ایک اور چیز بھی اس معاملے کو متنازع بنا دیتی ہے۔ مذاکرات کار جانتے ہیں کہ خسارے اور نقصان کی ادائیگی کا خیال تاریخی ناانصافیوں پر توجہ مبذول کروا دے گا جس کے بعد مزید مالی معاوضے کے بارے میں بات چیت کا راستہ کھل سکتا ہے۔

مثال کے طور پر امریکہ میں غلامی یا یورپی طاقتوں کے استعماری استحصال کے دوران ہونے والے نقصانات۔

سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں منعقد ہونے والے 2021 کی موسمیاتی کانفرنس کوپ 26 میں مذاکرات کاروں نے کچھ اہم مسائل پر پیش رفت کی جیسے کہ گیسوں کے اخراج کے اہداف اور ترقی پذیر ممالک کے لیے موافقت اختیار کرنے کے لیے مالیاتی وسائل کو دوگنا کرنے کے وعدے۔

لیکن کوپ 26 سے ان لوگوں کو بہت مایوسی ہوئی جو ترقی پذیر ممالک کے خسارے اور نقصان کی تلافی کے لیے مالیاتی نظام کا طریقہ کار وضع کرنے کے سرگرم وکیل ہیں۔

خسارے اور نقصان کی تلافی کے لیے ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے؟

کوپ 26 میں ایسی قرارداد کی کمی اور مصر کا خسارے اور نقصان سمیت موافقت اختیار کرنے  کے لیے غریب ممالک کو درکار مالی امداد پر توجہ مرکوز رکھنے کے عزم کا مطلب ہے کہ یہ مسئلہ رواں سال زیر بحث آئے گا۔

غیر منفعت بخش ادارے سنٹر فار کلائمیٹ اینڈ انرجی سولوشنز  کو توقع ہے کہ گفتگو کا مرکزی موضوع سینٹیاگو نیٹ ورک برائے خسارہ و نقصان کو ادارہ جاتی انتظامات فراہم کرنے پر ہو گا۔

سینٹیاگو نیٹ ورک برائے خسارہ و نقصان ترقی پذیر ممالک کو خسارے اور نقصان کم کرنے کے لیے تکنیکی تعاون پیش کرتا ہے اور 2021 کے  گلاسگو ڈائیلاگ کے مطابق مختلف ملکوں کو خسارے اور نقصان کے عوض مالی امداد پر بات چیت کرنے کے لیے اکٹھا کرتا ہے۔

 موسمیاتی تبدیلیوں کے انتہائی خطرے سے دوچار 58 ممالک کے وزرائے خزانہ کا نمائندہ گروپ وی 20 اور امیر ممالک پر مشتمل جی سیون بھی اکتوبر 2022 میں موسمیاتی خطرات کے خلاف ایک معاہدے پر پہنچے تھے۔ 

گلوبل شیلڈ اگینسٹ کلائمیٹ رسکس نامی معاہدے کے ذریعہ مالیاتی طریقہ کار وضع کیا گیا تھا۔

گلوبل شیلڈ کی توجہ آفات کے بعد متاثرہ ممالک کو جلد از جلد رسک انشورنس اور مالی امداد فراہم کرنے پر مرتکز ہے مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ بین الاقوامی بحث میں کیسے فٹ ہو گا۔

اس حوالے سے بعض گروہوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ انشورنس سسٹم پر انحصار غریب ترین لوگوں کو نظر انداز کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور اس سے خسارے اور نقصان کی تلافی کے لیے  ایک خیراتی فنڈ قائم کرنے کی وسیع بحث سے توجہ ہٹ سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خسارے اور نقصان کی تلافی کے طریقہ کار کو باقاعدہ شکل دینے میں ترقی یافتہ ممالک درج ذیل دو وجوہات کی بنیاد پر بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ 

پہلی یہ کہ اس بات کا تعین کیسے کیا جائے کہ کون سے ممالک یا برادریاں معاوضے کی اہل ہیں اور دوسرا یہ کہ ایسے میکانزم کی حدود کیا ہوں گی۔

خسارے اور نقصان کے سبب مالی امداد حاصل کرنے والوں کی اہلیت کا دائرہ کہاں سے شروع ہو گا؟

ممالک یا برادریوں کو ان کے موجودہ اخراج یا مجموعی ملکی پیداوار کی بنیاد پر خسارے اور نقصان کے معاوضہ تک محدود کرنے کا عمل ایک مشکل اور پیچیدہ چیز ہے۔

زیادہ تر ماہرین موسمیاتی خطرے کی بنیاد پر اہلیت کا تعین کرنے کی تجویز دیتے ہیں لیکن یہ بھی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔

عالمی رہنماؤں کا ردعمل کیا ہو گا؟

ایک دہائی قبل ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پذیر ممالک کو موافقت اختیار کرنے اور خطرات کم کرنے کے لیے ہر سال 100 ارب امریکی ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم اس عہد کو پورا کرنے میں انہوں نے سست روی سے کام لیا اور دنیا اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب جس تباہی سے دوچار ہے یہ اس کی تلافی کے لیے ناکافی ہے۔

خسارے اور نقصان کی تلافی کا طریقہ کار وضع کرنا عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی ناانصافیوں کا مداوا کرنے کے لیے ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔

سب کی نظریں چھ سے 18 نومبر کو مصر پر لگی ہوئی ہوں گی کہ عالمی رہنماؤں کا کیا ردعمل ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر یہ دا کنورسیشن سے لی گئی ہے اور یہاں اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ 

اس کی مصنفہ بینتھنی ٹائجن امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی میں کلائمیٹ پالیسی میں ریسرچ فیلو ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات