ایک تہائی ملک پانی میں ہے، فصلیں بہہ گئی ہیں، تقریبا تین کروڑ30 لاکھ افراد بے گھر ہیں، اربوں ڈالر کا نقصان، خوراک کا ایک منڈلاتا بحران، اور پھر بھی بارشیں ہو رہی ہیں۔
پاکستان کے میگا مون سون کے دوران اگست میں ہونے والی بارش معمول سے 700 فیصد زیادہ تھی۔
مارچ 2022 کے دوران پاکستان میں آنے والی شدید ہیٹ ویو سے برفانی تودے پگھلنے کے بعد سیلاب کے پانی میں اضافہ ہوا۔ ماہرین آب و ہوا کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے کم از کم اس صورتحال میں تو مزید اضافہ کیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی وزیر آب و ہوا شیری رحمان نہ صرف فوری امداد کا مطالبہ کر رہی ہیں بلکہ امیر صنعتی ممالک کی جانب سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے ہونے والے نقصان کے معاوضے کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں۔
جیسا کہ انہوں نے دی گارڈین اخبار کو بتایا؛
’پاکستان دنیا کی گرین ہاؤس گیسوں کا ایک فیصد سے بھی کم خارج کرتا ہے- لیکن وہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں پیش گوئی سے کہیں زیادہ تیزی سے ہو رہی ہیں۔‘
تاہم امیر ممالک اپنے صنعتی اخراج سے ہونے والے نقصان اور اس کی ادائیگی کے لیے بہت کم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے آب و ہوا کے اثرات بدترین ہوتے جا رہے ہیں ، کیا یہ جاری رہیں گے؟
ایک چیز بحث کا موضوع نہیں ہے: موسمیاتی تبدیلیوں سے نقصان اور تباہی ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سالانہ ماحولیاتی سربراہ اجلاسوں میں موسمیاتی مذاکرات کاروں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے اثرات کا حوالہ دینے کے لیے ’نقصان اور تباہی‘ کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن میں شامل تمام 165 ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ ایسا ہو رہا ہے لیکن اس بات پر کوئی اتفاق نہیں ہے کہ اس کی قیمت کس کو ادا کرنی چاہیے؟
بالی میں حالیہ جی 20 مذاکرات بالکل اسی مسئلے پر جزوی طور پر ناکام رہے۔
یہ سوال کہ کون ادائیگی کرتا ہے صنعتی اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان بڑی بحث کا سبب بنا، جنہوں نے اس بات پر بھی اختلاف کیا کہ امیر ممالک کی جانب سے 2020 تک موسمیات کے لیے سالانہ 145 ارب ڈالر کی وعدہ کردہ فراہمی میں ناکامی پر کتنی سختی سے تنقید کی جائے۔
لیکن اب ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے بھی نقصان اور تباہی کے لیے کارروائی اور فنڈنگ کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ تاریخی اخراج کا معاوضہ اب بھی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔
جزوی طور پر، یہ مناسب ہے اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ جیسے ابتدائی صنعتی ممالک میں گرین ہاؤس گیسوں کی غیر متناسب مقدار خارج ہوئی ہے لیکن یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مخصوص واقعات میں کتنا حصہ ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں مون سون کا ہمیشہ خطے کے موسموں کا حصہ رہا ہے۔ اگر آپ کو معلوم نہیں کہ زیادہ اخراج کرنے والے ملک کا اس تباہی میں کتنا حصہ ہے تو معاوضہ مختص کرنا کافی حد تک مشکل ہوگا۔
یہ کہنے کے بعد کہ فوسل فیول کمپنیوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اور آب و ہوا کی روک تھام کے لیے لابنگ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے- ممکنہ طور پر تمام ممالک کی بجائے نجی کمپنیوں کے لیے ذمہ داری کا تعین کرنا آسان ہو جائے گا۔
یہ واحد مسئلہ نہیں ہے۔ مسائل یہ بھی ہیں کہ؛
- پیسے کہاں جائیں گے؟
- کیا یہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں جائیں گے یا اس کا زیادہ تر حصہ مرکزی بیوروکریسی میں رہ جائے گا؟
- چین جیسے ابھرتے ہوئے زیادہ آلودگی پھیلانے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو اب بھی ایک ترقی پذیر ملک سمجھا جاتا ہے لیکن عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریبا ایک تہائی خارج کرتا ہے۔ امریکہ کے سالانہ اخراج سے دوگنا سے بھی زیادہ؟
- کون سی عدالتیں معاوضے کی رقم کے بارے میں فیصلہ کریں گی؟
کیونکہ ان سوالات سے نمٹنے کے لیے کوئی ’ماحولیاتی عدالتیں‘ ہیں ہی نہیں۔
شاید قانونی مثال قائم کرنا سب سے اہم ہے اگر امیر ممالک واضح طور پر ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا معاوضہ دیں۔ قانونی طور پر، معاوضہ کسی شخص، تنظیم یا ملک کی طرف سے کسی متاثرہ شخص کو ادا کیا جاتا ہے۔ لہذا اگر امیر ممالک معاوضہ ادا کرنا شروع کر دیں تو یہ لامتناہی گڑھا بھی بن سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ معاوضے کا موضوع متنازع ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے کچھ رہنماؤں اور ماحولیاتی انصاف کے حامیوں میں اس کی مقبولیت کے باوجود، قانونی پیچیدگیوں اور ممکنہ طور پر بھاری رقم شامل ہونے کا مطلب یہ ہونا ناممکن ہے۔
جس کا چیز زیادہ امکان ہے، وہ ماحولیاتی موافقت اور آفات سے نمٹنے کے لیے مالی مدد اور عزائم میں اضافہ ہے- جو آب و ہوا کی مالیات کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہاں فرق یہ ہے کہ فنڈنگ رضاکارانہ طور پر دی جارہی ہے۔ لیکن اس وقت آب و ہوا کی مالیات درکار سطح کے قریب کہیں بھی نہیں مل رہیں۔
عدم امکان کے باوجود کچھ ترقی پذیر ممالک کی بھرپور توجہ معاوضے پر ہے۔
ان کے نسبتاً کم اخراج اور غیر متناسب نقصان کو دیکھتے ہوئے، یہ قابل فہم ہے۔ امیر ممالک کے لیے یہ ایک ڈیل بریکر ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ، خطرہ اس بات کا ہے کہ یہ مسئلہ اہم ماحولیاتی مذاکرات پر حاوی ہوجائے گا۔
جب معاوضے کے سوال پر سیاست ہوتی ہے تو موسمیاتی تبدیلیوں کے دیگر حصے رہ جاتے ہیں جہاں ہمیں فوری طور پر پیش رفت کی ضرورت ہے۔ مثلاً آب و ہوا سے پیدا ہونے والی قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کے لیے فوری طور پر مزید مالی اعانت حاصل کرنا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نومبر میں مصر میں ہونے والی سی او پی 27 موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے دوران مذاکرات میں ترقی پذیر ممالک کے بلاک کی سربراہی پاکستان کرے گا۔ امکان ہے کہ نقصان اور تباہی کے معاوضے کی ادائیگیوں اور مالیات کے بارے میں دھواں دار مذاکرات اور سخت رائے دیکھنے کو ملے گی۔
یورپ میں توانائی کے بحران اور سپلائی کا فرق کم کرنے کے لیے مزید فوسل ایندھن کی کشمکش کےساتھ ساتھ کئی گنا بڑھ جانے والی ماحولیاتی آفات کے ہوتے ہوئے، اس سال کی کانفرنس پہلے ہی کشیدہ ہونے کی توقع تھی۔
غیر معمولی یورپی اور امریکی خشک سالی ظاہر کرتی ہے کہ امیر ممالک بھی موسمیاتی اثرات سے شاید ہی محفوظ ہوں۔ تاہم ان میں مقابلہ کرنے اور بحالی کی صلاحیت زیادہ ہے۔
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کمیونٹیز اور عالمی پالیسی سازوں کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ معاوضہ ایک حل ہے۔ واضح بات یہ ہے کہ آب و ہوا کی مالیات کو بڑھانے اور موثر طریقے سے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ نقصان اور تباہی اور معاوضے پر سیاست زدہ بحث سے ہٹ کر اس بات کو یقینی بنانے کے حق میں ہونا چاہیے کہ زمین پر موجود لوگ – جیسے پاکستان میں بے گھرلاکھوں افراد – مدد تک رسائی حاصل کر سکیں۔