ماحولیاتی پامالی پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ

ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

کراچی کے سمندر پر کوڑے کے ڈھیر سمندری حیات کے لیے بڑا خطرہ ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:

 

پاکستانی معاشرہ ایک ہمہ جہت زوال کی طرف گامزن ہے۔ آپ کسی سماجی شعبے پر نظر ڈالیں تو وہ ایک نئی پستی کو چھوتا نظر آتا ہے۔ حکومتی بے حسی تو ایک طرف، ایسا لگتا ہے کہ ساری قوم سے احساس زیاں مفقود ہو گیا ہے۔ 

خصوصاً اگر ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی پامالی کی طرف دیکھا جائے تو عوام میں اس کے بارے میں قطعی کوئی آگاہی نہیں اور اسے کچھ احمقوں کی ذہنی اختراع سمجھا جاتا ہے۔ اشرافیہ اور عوام ان حقائق سے صرفِ نظر کر رہے ہیں کہ ماحولیاتی پامالی سے صرف موسمی تبدیلیاں ہی نہیں واقع ہو رہیں بلکہ اس کی وجہ سے غربت میں اضافہ، قحط سالی، بیماریوں میں اضافہ، جنگیں، انسانی حقوق کی پامالی اور عالمی امن و امان کو مسائل درپیش آ رہے ہیں۔

پاکستان کی اس مسئلے کے بارے میں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی نظراندازی ہماری ماحولیاتی پامالی میں بہت بڑے اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس نقصان میں قحط سالی سے زرعی زمین میں کمی اور اس کا غیر زرعی استعمال، مناسب پانی کی کمی، صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل، جنگلات کا کٹاؤ، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات شامل ہیں۔ یہ صورت حال اس قدر بگڑنے لگی ہے کہ یہ اب پاکستانی عوام اور معیشت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

معاشی اور سماجی وجوہات کی وجہ سے دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی نے بھی پاکستان میں ماحولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس بڑی تعداد میں نقل مکانی نے شہروں میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کو آباد کر دیا ہے، جس نے شہری ڈھانچے اور سہولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 

اس بڑھتی ہوئی شہری آبادی سے فضائی آلودگی اور صحت و صفائی کے خطرناک مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ فضائی آلودگی نے بڑے شہروں میں صحت کے پہلے سے ناپید خطرناک مسائل کو جنم دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مضر صحت دھند اب بڑے شہروں میں معمول کا حصہ بن گئی ہے۔

بڑھتی ہوئی آلودگی اور دھند نے صحت کے مسائل کے علاوہ کاروبار زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ڈیزل والی گاڑیاں، دو سٹروک انجن والے موٹر سائیکل اور رکشوں کے استعمال سے بڑھتی ہوئی صحت کے لیے نقصان دہ کاربن فضا میں ہمہ وقت موجودگی کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ 

شہروں میں بڑھتی ہوئی تعمیرات اور نئی ہاؤسنگ سوسائٹی کی وجہ سے اینٹوں کے بھٹوں کا بڑھتا ہوا استعمال اور کوڑا جلانے سے فضا میں مضر صحت گرد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ 

ایک تحقیق کے مطابق 2025 تک پاکستان کی آبادی تقریباً 23 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی جس کا مطلب بڑے شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس عرصے میں تقریباً 30 لاکھ مزید گاڑیاں بشمول موٹرسائیکلیں اور رکشے سڑکوں پر موجود ہوں گے اور موجودہ سطح سے آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔ آبادی کے بڑھنے سے ہمارے پانی کے ذخائر پر بھی برا اثر پڑے گا اور ان میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ ان کی آلودگی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں میں نقل مکانی سے ٹھوس فضلے میں بھی سنگین اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں کبھی بھی سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی اور ٹھوس فضلے کو ختم کرنے کے جدید طریقوں پر کم ہی انحصار کیا گیا ہے۔ عموماً ہمارے ہاں ٹھوس فضلے (سالڈ ویسٹ) کو جلا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہوائی آلودگی میں اضافہ جاری رہتا ہے۔ اسی طرح صنعتی فضلہ بھی بغیر کسی صفائی کے دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہے یا کھلی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ فضلہ آخر کار ہمارے زیر زمین پانی کے ذخائر میں شامل ہو کر انہیں بھی آلودہ کر دیتا ہے۔

پاکستان کو موسمی تبدیلی سے ہھی بہت خطرے لاحق ہیں۔ یہ خطرات ہمارے جغرافیائی محل وقوع، بہت بڑی آبادی اور کم تکنیکی مہارت کی وجہ سے مزید مہلک ہو گئے ہیں۔ ہمارے جنگلات کے کٹاؤ سے قدرتی آفات کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ جیسے جیسے ہماری ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی غیر معمولی اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ 

گو یہ اضافہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے مگر اس میں جلد خطرناک اضافے کا خدشہ ہے۔ اسی موسمی تبدیلی کی وجہ سے اس مہینے کی شروع میں ہمارے جنگلات میں آگ لگنے کے سینکڑوں واقعات پیش آئے جن سے بیش قیمت جنگلات ضائع ہوئے ہیں۔ 

کئی ماہرین کے مطابق اس موسمی تبدیلی کی وجہ سے ہم جلد قحط سالی اور سیلابوں سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔ اس موسمی تغیر کی وجہ سے ایک تحقیق کے مطابق 2100 تک ہمارے ہاں درجہ حرارت میں تقریباً 7.2 ڈگری درجے تک اضافہ ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف زرخیز زمینوں کے بنجر ہونے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ کچھ علاقوں میں تو شاید رہنا بھی ممکن نہ رہے۔ 

موسمی تبدیلیاں ہماری معیشت کے تمام شعبوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، خاص طور پر پانی کے وسائل، توانائی، صحت اور زرعی پیداوار اس کے خاص شکار ہو سکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ان بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تفصیلی پروگرام 2013 کے اقتصادی سروے میں بیان کیا گیا۔ 

موسمی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک سنجیدہ اور بھرپور کوشش پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت نے ایک ارب درخت لگانے کی مہم سے شروع کی۔ اس مہم میں کافی بے ضابطگیاں ہوئیں لیکن یہ ایک قابل ستائش کوشش تھی۔ لیکن اس بھرپور مہم کے باوجود خیبر پختونخوا کے جنگلات والے علاقوں میں آپ کو درختوں کی بےدردی سے غیر قانونی کٹائی ہوتی ہوئی اب بھی نظر آتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مہم کے ساتھ ساتھ ان جنگلات کی زیادہ موثر طریقے سے نگرانی کی جائے۔

گو ہمارے ہاں موسمی تبدیلی سے متعلق کافی ادارے قائم کیے گئے ہیں مگر ان کی کارکردگی توقعات کے برعکس رہی ہے۔ موسمی تبدیلی اور اس سے متعلقہ مسائل پاکستان کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے اور ضروری ہے کہ تمام متعلقہ ادارے اس سنگین خطرے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ایک مربوط منصوبے کا آغاز کریں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ