چلی کی ارینا جو خاتون اول کے عہدے سے جان چھڑانا چاہتی ہیں

پہلی خاتون اول جو مزید خاتون اول نہیں رہنا چاہتی ہیں۔

ارینا فی الحال بورک کی قیادت میں سوشل کنورجنس پارٹی میں فیمینسٹ فرنٹ کی انچارج ہیں (چلی کی حکومتی ویب سائٹ)

ارینا کارامانوس گاڑی میں کام پر جا سکتی تھیں لیکن سینٹیاگو، چلی میں موسم بہار کا وقت تھا اور یہ خاتون اول جو ماہر بشریات اور سیاسی منتظم بھی ہیں وہ چہل قدمی کرنا چاہتی تھیں۔

ایک بیگ پیک اور سفید، نیلے اور نیون سبز سنیکرز پہنے، وہ اپنی ملازمتوں پر جانے والے دیگر 30 سے زائد افراد کے ساتھ گھل مل گئیں۔ لیکن جب وہ ایک سٹاپ پر پہنچیں تو ایک پیدل چلنے والے نے رک کر ملک کی ممتاز ترین خواتین میں سے ایک کے جانے پہچانے چہرے کو پہچان لیا۔

پہلی خاتون اول جو مزید خاتون اول نہیں رہنا چاہتی ہیں

چلی کے صدر گیبریل بورک کی ساتھی، ارینا کارامانوس کے اس اعلان کو تین ہفتے ہو چکے تھے جس میں انہوں نے اس عہدے سے سبکدوش ہو جانے کی بات کی تھی۔ ایک ایسا کام جس کی وہ متلاشی نہیں تھیں۔ ایک ایسا عہدہ جس کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ نہیں ہونا چاہیے۔ گیبریل بورک اس سال مارچ میں صدر بنے تھے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ارینا کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اس وقت سے اس عہدے کی مخالفت کی تھی جب 35 سالہ بورک گذشتہ دسمبر میں صدر منتخب ہوئے تھے۔ مارچ میں حلف اٹھانے کے وقت وہ لاطینی امریکہ کے سب سے کم عمر رہنما تھے۔ وہ اس پورے خطے میں اقتدار سنبھالنے والے بائیں بازو کے متعدد رہنماؤں میں سے ایک تھے۔

ارینا فی الحال بورک کی قیادت میں سوشل کنورجنس پارٹی میں فیمینسٹ فرنٹ کی انچارج ہیں۔ چلی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ارینا نے سیاسی منظرنامے پر پہلی عوامی حاضری گذشتہ برس کے اواخر میں دی تھی جب وہ صدارتی دوڑ کے دوسرے راؤنڈ میں بورک کے ساتھ سٹیج پر گئیں۔

اس لمحے تک، چلی کے اخبار La Nacion نے لکھا، بائیں بازو کے صدارتی امیدوار نے ارینا کو ’کامریڈ‘ کہا تھا لیکن اب انہیں ان کے نام سے پکارتے ہیں۔

وہ حقوق نسواں کی کارکن تھیں جنہوں نے انہیں جیتنے میں مدد دی۔ وہ ابتدائی طور پر، ہچکچاتے ہوئے، خاتون اول کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے لیے رضامند ہو گئیں، اس امید میں کہ وہ اس کردار کو تبدیل کر سکتی ہیں۔ لیکن اس فیصلے نے بہت سے ان کے حامیوں کو ناراض کیا۔

نامہ نگار سامنتھا شمٹ اور پولینا ولیگاس کی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس کے بعد کئی ماہ تک انہوں نے خاموشی سے اس کردار میں بہتری لانے کے لیے کام کیا۔ انہوں نے ذمہ داریوں کو وزارتوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا جن میں زیادہ تر چھ فاؤنڈیشنز چلانا، بچوں کے دن کی دیکھ بھال کے نیٹ ورک، ایک سائنس میوزیم اور خواتین کی ترقی کی تنظیم جیسے پروگراموں کی نگرانی کرنا شامل تھا۔

ان کا خیال تھا کہ یہ وزارتیں ان کی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں اور آخر کار اس عہدے کو ختم کر دیں۔ ایسا کرتے ہوئے، انہیں امید تھی کہ صدر کے ساتھی ہونے کا مطلب نہ صرف چلی بلکہ پوری دنیا میں تبدیل ہوگا۔

اول انہیں حکومت کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت تھی کہ ان کا منصوبہ اتنا انقلابی نہیں تھا اور یہ کہ روایت اور نوکر شاہی کو تبدیل کرنا ممکن تھا۔ اور وہ یہ تبدیلیاں ایسے لانا چاہتیں تھیں کہ تبدیلیاں ان کے بعد بھی جاری رہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں صبح کی سیر کے دوران وہ وزرا اور ان چھ فاؤنڈیشنز کے اراکین کو فون کالز کر رہی تھیں جن کی قیادت خاتون اول کو کرنی تھی۔

’کوئی جواب نہیں دے رہا ہے،‘ انہوں نے اپنی پریس سیکریٹری کو بتایا۔ اس کے بعد انہوں نے بجائے آواز کے میمو بھیجنا شروع کر دیا۔

ایک فاؤنڈیشن کے ایک رکن اس خیال کے خلاف تھے۔ بچوں کا آرکسٹرا اس وقار کو کھونا نہیں چاہتا تھا جو خاتون اول کی موجودگی سے حاصل ہوتا تھا۔ اس نے سوچا کہ اس کردار کا ارینا کرامانوس کی مہارتوں یا تجربے یا ڈگریوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو سب اہم ہے وہ عہدہ ہے۔

اور وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

کسی ادارے کو ختم کرنا

ارینا اور بورک کو اپنے 30 سال کا پیٹا اس طرح گزارنے کی توقع نہیں تھی۔ دونوں تقریباً دو سال سے ڈیٹنگ کر رہے تھے جب ایک وقت ایسا آیا کہ یہ واضح ہو گیا کہ بورک، جو ایک طالب علم کارکن سے کانگریس کے رکن بنے، صدر کے انتخاب کے لیے ان کی پارٹی کا بہترین آپشن تھے۔

ارینا نے 30 ہزار سے زیادہ دستخط اکٹھے کیے جن کی اسے بیلٹ کے لیے اہل ہونے کے لیے ضرورت تھی۔

33 سالہ ارینا کارامانوس اپنے آپ کو اس قسم کے شخص کے طور پر نہیں سمجھتی تھیں جو کسی مرد کے لیے اپنے منصوبوں کو روک دے۔ تارکین وطن کی بیٹی، جرمن نسل کی یوراگوئین ماں اور ایک یونانی والد جو آٹھ سال کی عمر میں فوت ہو گئے تھے۔ وہ چار زبانوں پر عبور رکھتی ہیں، دو دیگر زبانوں کا مطالعہ کر چکی ہیں اور جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے تعلیمی علوم اور بشریات میں ڈگریاں حاصل کر چکی ہیں۔ اگر وہ خاتون اول کے طور پر کام کرنے پر راضی ہو جاتی تو یہ بغیر تنخواہ کے ایک مشکل کل وقتی ملازمت ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب سے میں جو کچھ بھی کروں گی وہ دوسرے نمبر پر ہوگا۔ سب سے پہلی چیز جو میرے بارے میں سب کو معلوم ہوگی وہ یہ ہوگی کہ میں صدر کی ساتھی ہوں۔‘

خاتون اول کا تصور ایک امریکی خیال ہے جو چوتھے امریکی صدر کی اہلیہ ڈولی میڈیسن سے تعلق رکھتا ہے۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس کو مزئین کیا اور دونوں جماعتوں کے سیاست دانوں کے لیے سماجی تقریبات کی میزبانی کی۔ ایلینور روزویلٹ اور جیکولین کینیڈی نے عوام میں اس کردار کو آگے بڑھایا، اس توقع کو فروغ دیا کہ پہلی خواتین صدر اور غیرمتنازعہ سرگرمیوں کو آگے بڑھائیں گی۔ یہ توقعات لاطینی امریکہ کے کچھ حصوں میں بھی اپنائی گئیں۔

ارینا پہلی خاتون اول نہیں جو اس کردار سے ہچکچا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر میلانیا ٹرمپ کو دیکھیں۔ ایکواڈور میں سابق صدر رافیل کوریا کی بیلجیئم میں پیدا ہونے والی بیوی این ملہربی گوسلین زیادہ تر اس کردار سے دور تھیں، جسے انہوں نے کلاسسٹ قرار دیا۔ میکسیکو میں صدر آندرس مینوئل لوپیز اوبراڈور کی اہلیہ بیٹریز گوٹیریز مولر نے یونیورسٹی کے پروفیسر کے طور پر اپنا کام جاری رکھا ہے۔

بیٹریز گوٹیریز مولر نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا، ’میں نے یہ نہیں دیکھا کہ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ چلنے کے لیے اپنی ملازمت چھوڑنے کی ضرورت کیوں پڑے گی۔ لیکن وہ سفارتی تقریبات میں میکسیکو کی حکومت کی نمائندگی کرتی رہتی ہیں۔

مورخین کا کہنا ہے کہ جِل بائیڈن، جنہوں نے طویل عرصے سے شمالی ورجینیا کمیونٹی کالج میں انگلش کمپوزیشن پڑھائی ہے، وہ پہلی امریکی خاتون اول ہیں جنہوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر تنخواہ والی نوکری کی جب ان کے شوہر صدر تھے۔

چلی کی ایک ماہر سیاسیات کیرولینا گیریرو نے کہا کہ ان خواتین میں سے کسی نے بھی عہدہ پر رہتے ہوئے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جیسا کہ ارینا کوشش کر رہی ہیں۔ امریکہ کی اوہائیو یونیورسٹی کی تاریخ دان کیتھرین جیلیسن سمجھتی ہیں کہ ایسی کوشش ’سیاسی بارود‘ ہوسکتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ شاید چلی اس جانب راہ ہموار کرے گا۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کی قیادت پہلے ایک خاتون، مشیل بیچلیٹ کر رہی تھیں، جنہوں نے اپنی پہلی مدت میں دو خواتین سیاست دانوں کو جبکہ دوسری مدت میں اپنے بیٹے کو یہ کی ذمہ داریاں سونپی تھیں۔ چلی کے لوگوں نے دیکھا ہے کہ خاتون اول کے بغیر صدارتی محل کیسا لگتا ہے۔

لیکن ارینا اس کو معمول بنانا چاہتے ہیں اتفاق نہیں۔

اکتوبر کے اوائل میں آٹھ ماہ تک میڈیا انٹرویوز سے گریز کرنے کے بعد، وہ یہ اعلان کرنے کے لیے سامنے آئیں کہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’خاتون اول کا ادارہ جاتی کردار جیسا کہ ہم اب جانتے ہیں، ختم ہو جائے گا۔‘

قوم کو تبدیلی پر آمادہ کرنا

صدارتی محل میں اپنے آخری ہفتوں میں، ارینا نے اپنے بیگ میں سے ایک کرلنگ آئرن اور ایک آئی پیڈ نکالا جس کی سکرین کریک تھی اور جس پر سٹیکرز لگے تھے۔ وہ ہمیشہ دفتر میں فانوس اور مخمل کے پردوں کے ساتھ اپنے آپ کو انجانہ محسوس کرتی تھیں، جہاں پچھلی خاتون اول نے پھولوں کے انتظامات پر ماہانہ دو ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ کیا تھا جبکہ ارینا نے کھڑکی کے پاس ایک مصنوعی گلدستہ رکھا ہوا تھا۔

اس ہفتے کے آخر میں ارینا ایک بیضوی میز کے پاس بیٹھیں جس میں درجن بھر بورڈ اراکین کی کی قیادت کرتے ہوئے خاتون اول کے دفتر سے سائنس میوزیم، اپنی فاؤنڈیشن کو الگ کرنے کے اپنے منصوبے پر ووٹ دیا۔ اپنے سے عمر میں زیادہ بڑے لوگوں کو انہوں نے سمجھایا کہ یہ زیادہ مناسب طریقے سے وزیر ثقافت کے ذریعہ نامزد کردہ شخص کے ذریعہ چلایا جائے گا۔

انہوں نے کہا، ’صدر کے ساتھی کو پارٹنر بننے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، فاؤنڈیشن کے صدر بننے کے لیے نہیں۔‘

بورڈ نے متفقہ طور پر اس کے منصوبے کی منظوری دی۔ لیکن محل سے باہر، ارینا جانتی تھیں کہ بہت سے چلی کے باشندے اسے قبول نہیں کریں گے۔

بورک کی مقبولیت کی میں کمی آئی ہے۔ ایک سروے میں صرف 27 فیصد۔ ستمبر میں انہیں اب تک کا سب سے بڑا دھچکا لگا، جب ووٹروں نے اس نئے آئین کو مسترد کر دیا جس میں اس نے مدد کی تھی۔

ارینا کی کوششیں آغاز سے ہی کچھ لوگوں کو بری لگیں جب شہ سرخیوں میں بتایا گیا کہ خاتون اول کے دفتر کا نام تبدیل کر کے ’Irina Karamanos کابینہ‘ کر دیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے اس خیال کو تقویت ملی کہ ارینا اپنے بارے میں تبدیلی لا رہی ہے۔ (اس نے بعد میں نام کی تبدیلی کو ’انتظامی غلطی‘ قرار دیا۔)

باؤن سالہ مارسیلا سولابریٹا، ارینا کی کوششوں کو ’غیرمہذب‘ سمجھتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ یہ نہیں چاہتی تھیں تو پھر انہیں صدارتی امیدوار کا ساتھی بننے کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے تھا۔

پچپن سالہ بصری فنکار الیجینڈرا مورالس نے کہا کہ ارینا کو اس عہدے میںجدت لانی چاہیے اسے ختم نہیں کرنا چاہیے۔

ارینا کیا چاہتی ہیں؟

ارینا نے اس سال کو ایک بشری تجربے کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ چنانچہ جب سیاسی سائنس دانوں اور صنفی مطالعات کے ماہرین کے ایک گروپ نے ان سے اس کوشش کے بارے میں ان سے بات کرنے کو کہا تو انہوں نے موقع حاصل کیا۔

چلی کی پونٹیفیکل کیتھولک یونیورسٹی میں ایک میز کے اردگرد بیٹھی خواتین نے ان پر ایسے سوالات داغے جن کے بارے میں ارینا طویل عرصے سے سوچ رہی ہیں۔

خاتون اول کا عہدہ چھیننے کے علاوہ، ارینا دراصل صدر کے ساتھی کو چلی کے لوگوں کے دیکھنے کے انداز کو کیسے بدل سکتی ہیں؟ کیا یہ ممکن ہےکہ صدارت سے صنفی کردار کو ہٹا دیا جائے؟

ارینا نے بتایا کہ کئی بار سڑک پر لوگوں نے ان سے صدر کا ’خیال رکھنے‘ کو کہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یقینا میں ان کا خیال رکھتی ہوں۔ لیکن اگر میں نے نہیں رکھا تو کیا ہوگا، آپ جانتے ہیں؟ کیا ہوگا؟ کیا یہ شخص صدر نہیں ہو سکتا، کیا خود کفیل نہیں ہو سکتا؟‘

وہ اس خام خیالی کا خاتمہ چاہتی ہیں کہ ایک طاقتور مرد پر صرف ایک عورت کے ساتھ ہی بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا ابھی بھی بورک کے ساتھ چند عشائیوں اور تقریبات میں جانے کا ارادہ ہے - اگر ان سے ملنے کی اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ ہو۔ لیکن وہ ہر بین الاقوامی دورے پر نہیں جائیں گی یا ہر سرکاری تقریب میں حصہ نہیں لیں گی۔ وہ پہلی خواتین کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت نہیں کریں گی۔

لیکن انہوں نے پوچھا کہ کیا وہ معمول کی زندگی اس طرح گزار سکتی ہیں؟ وہ ایسی نوکری کیسے ڈھونڈ سکتی ہیں جس میں مفاد کا ٹکراؤ نہ ہو؟

ارینا نے سوچا رکھا ہے کہ وہ کس قسم کی نوکری پسند کریں گی - تحقیق کی طرف واپسی یا شاید تعلیم پر توجہ دی جائے۔ لیکن وہ ابھی تک واضح نہیں کہ یہ کیا ہوگا۔

یونیورسٹی کے کلاس روم سے نکلنے کے بعد انہوں نے اپنے نوٹس پر ایک نظر ڈالی۔ ایک سوال کے نیچے لکھر کھنچی تھی: ارینا کیا چاہتی ہیں؟

انہیں امید ہے کہ وہ بہت جلد اس کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر