جنرل میسروی: پاکستانی فوج کے پہلے آرمی چیف

تقسیم کے وقت دو نوزائیدہ ممالک کے درمیان فوج کی تشکیل اور تقسیم کا عمل کیسے مکمل کیا گیا اور پاکستان کے پہلے آرمی چیف کون تھے؟

جنرل میسروی نے دوسری عالمی جنگوں میں نمایاں کردار ادا کیا تھا (امپیریئل وار میوزیم) 

پاکستانی فوج دنیا کی 10 مضبوط ترین افواج میں نویں نمبر پر ہے۔ فوج کو جو برتری حاصل ہے اس کی وجہ سے اس کی معمول کی تقرریوں و تبادلے کے معاملات بھی قومی سطح پر بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔

ایک ایسے موقعے پر جب موجودہ حکومت نے جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ قارئین یہ جان سکیں کہ پاکستانی آرمی کی تشکیل کیسے ہوئی تھی اور اس کے پہلے چیف کون تھے؟ اس وقت دو نوزائیدہ ممالک کے درمیان فوج کی تشکیل اور تقسیم کا عمل کیسے مکمل کیا گیا تھا؟

فیلڈ مارشل کلاڈ آوچن لیک فوج کی تقسیم کے خلاف تھے

تقسیم سے پہلے یکم جولائی 1947 کو برٹش انڈین فوج میں مقامی فوجیوں کی تعداد تین لاکھ 73 ہزار 570 تھی، جن میں ایک لاکھ 54 ہزار 780 ہندو، ایک لاکھ 35 ہزار268 مسلمان، 35 ہزار 390 سکھ  جبکہ باقی مسیحی اور گورکھا تھے۔

ہندوؤں کا تناسب 41.4 فیصد اور مسلمانوں کا 36.2 فیصد تھا۔ دوسری جنگ عظیم تک ہندوستانی فوج کی تعداد 25 لاکھ تھی جس میں سے بیشتر کو غیر فعال کر کے گھروں میں بھیج دیا گیا تھا۔ تقسیم کے وقت ہندوستان میں انگریزی فوج کی تعداد چھ بٹالین پر مشتمل تھی۔

فوج کی کمانڈ  فیلڈ مارشل آوچن لیک کے پاس تھی جو تقسیم کی صورت میں مشترکہ فوج کی حمایت میں تھے لیکن قائداعظم کسی صورت میں اس تجویز سے متفق نہیں تھے بلکہ لیاقت علی خان نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ’میں اور جناح اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ فوج کی موجودگی اور کنٹرول کے بغیر اقتدار نہیں سنبھالیں گے۔‘

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سربراہی میں جب پارٹیشن کمیٹی بنی، جس میں سول اور فوجی افسران کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے تو اس کمیٹی کے سامنے ایک چیلنج فوج کی منصفانہ تقسیم بھی تھا، جس کے لیے الگ ڈیفنس کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں مسلمانوں کی نمائندگی لیاقت علی خان اور سردار عبد الرب نشتر جبکہ کانگریس کی سردار ولبھ بھائی پٹیل اور رجندر پرشاد نے کی تھی۔

23 جون کو قائداعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کہا کہ مسلمانوں کو جنرل آوچن لیک پر مزید اعتبار نہیں ہے اور ان کی جگہ کسی اور کو کمانڈر ان چیف لگایا جائے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر جناح کا مطالبہ رد کر دیا کہ ان سے زیادہ بہتر اور کوئی فوجی افسر موجود نہیں ہے۔

26 جون کو پارٹیشن کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں آوچن لیک نے شرکا کو بتایا کہ مسلح افواج کی تقسیم ہندوستان کی تقسیم سے پہلے عمل میں آجائے گی لیکن نیشنلائزیشن کے لیے انتظار کرنا ہو گا اور اس عمل کے دوران انگریز فوج کی بھی ضرورت پڑے گی۔

فوج کی تقسیم کا عمل مکمل ہونے تک دونوں حصوں کی فوج ایک ہی ہیڈ کوارٹر اور ایک ہی کمانڈر ان چیف کے تحت رہے گی۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مسلم اکثریت والے فوجی یونٹ پاکستان کو جبکہ باقی مذاہب کی اکثریت والے دستے بھارت کو ملیں گے۔ برطانوی فوجی ہیڈ کوارٹر سے بھی یہ تجویز دی گئی کہ دونوں ممالک کم از کم دو یا تین سال کے لیے انگریز دستے اپنے ملکوں میں رہنے دیں تاکہ کسی بھی بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لیے منظم ہو سکیں۔

قائداعظم بھی اس بات پر رضا مند ہو گئے کہ پاکستان کا کمانڈر ان چیف اور کئی سینیئر فوجی افسر انگریز ہی ہوں گے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب ’پاکستان، عسکری ریاست‘ میں بڑی تفصیل سے ان واقعات پر روشنی  ڈالی ہے جو اس دوران رونما ہو رہے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’10 جولائی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 15 اگست 1947 سے دونوں آزاد ملکوں کے فوجی ہیڈ کوارٹرز اپنے علاقوں میں فوج کی نقل و حمل یا آپریشنل کنٹرول کے ذمہ دار ہوں گے۔ موجودہ آرمڈ ہیڈ کوارٹر برقرار رہے گا اور اسے سپریم ہیڈ کوارٹر کا درجہ مل جائے گا۔‘

بعد میں یہی عمل آزادی ہند ایکٹ 18 جولائی 1947 کی  شقوں میں مزید واضح کر دیا گیا تھا کہ دو نئی ریاستوں کی تقسیم کا عمل مکمل ہونے تک کمانڈ اور گورننس ایک ہی رہے گی۔ لندن میں بھی یہ رائے موجود تھی کہ دونوں نئی ریاستوں کو دولت مشترکہ کے رکن کے طور پر برطانیہ کے ساتھ دفاعی اور سکیورٹی انتظامات سے منسلک رہنا چاہیے۔

24 جولائی کو برطانیہ کے وزیر برائے ہندوستان و برما ارل آف لیسٹو ویل وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی سے ملے اور انہیں آگاہ کیا کہ ’برطانوی فوجی کسی بھی بیرونی جارحیت کو ناکام بنانے کے لیے موجود رہیں گے اور برطانیہ کو جنگ کی صورت میں فوجی تعاون بھی فراہم کریں گے۔ البتہ باہمی تعاون کا فیصلہ کرنے میں دونوں ریاستیں آزاد ہوں گی۔‘

تاہم ارل آف لیسٹوویل نے یہ امکان نظر انداز کر دیا کہ کہ اگر پاکستان اور بھارت میں جنگ ہو گئی تو کیا ہو گا؟

جنرل آوچن لیک نے یہ واضح کر دیا تھا کہ دونوں آزاد ملکوں کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپوں میں تو انگریز فوجی افسران اپنا کردار ادا کریں گے لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ گئی تو وہ کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔

چیف آف جنرل سٹاف آرتھر سمتھ نے 29 جون کو ایک انتہائی خفیہ مراسلہ سینیئر انگریز افسران کو بھیجا کہ فرقہ وارانہ تصادم میں انگریزافسران استعمال نہیں ہوں گے بلکہ وہ صرف برطانوی شہریوں کی زندگی بچانے میں حصہ لیں گے۔

فوج کی تقسیم کا اصول کیا طے ہوا؟

اگرچہ برطانوی ہند کی فوج میں مسلمان فوجیوں کا تناسب ہندوؤں سے صرف پانچ فیصد کم تھا لیکن فوجوں کی تقسیم میں مذہبی تناسب کو مد نظر رکھا گیا تھا۔

بری فوج میں 30-70، نیوی میں 60-40 اور ایئر فورس میں 70-30 کا تناسب رکھا گیا۔ ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا کہ اس فیصلے سے بھی مسلح افواج کی تشکیل نو سے متعلق کمیٹی میں بھارت کے نمائندے خوش نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے پہلے انہوں نے وائسرائے کی یہ تجویز مسترد کر دی تھی کہ اگر پاکستان کے صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) کے قبائلی علاقوں میں کوئی شورش ہو تو بھارت اپنی فضائیہ کے طیارے وہاں بھجوائے گا۔

البتہ ان نمائندوں نے اتفاق کیا کہ اگر افغانستان یا کسی اور ملک کی طرف سے پاکستان کے خلاف جارحیت کی گئی تو بھارت اپنے سکواڈرن بھجوانے پر غور کرے گا، لیکن بعد میں بھارتی نمائندے اس سے بھی منکر ہو گئے کہ ایسا کرنے کا مطلب ہو گا کہ بھارت نے قبائلیوں کے خلاف لڑائی میں اپنی عسکری تنصیبات پاکستان کے حوالے کر دی ہیں۔

سردار پٹیل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی تجاویز دے کر جنرل آوچن لیک اور دیگر سینیئر کمانڈر پاکستان نواز بن رہے ہیں۔ یہ ڈیفنس کونسل کے ذمہ تھا کہ مارچ 1948 تک دونوں ممالک میں طے شدہ فارمولے کے تحت اثاثے تقسیم ہو جائیں مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس فارمولے پر عمل در آمد کروانے میں ناکام رہے اور بھارت نے پاکستان کو دیے جانے والے ساز و سامان کی ترسیل روک دی۔

اس پر انہوں نے ڈیفنس کمیٹی تحلیل کر دی۔ آوچن لیک نے سازو سامان کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ جاری رکھا جس پر بھارتی حکومت نے انہیں سپریم کمانڈر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔

آوچن لیک نے بھی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو آگاہ کر دیا کہ وہ 30 نومبر تک دہلی چھوڑ جائیں گے اور 31 دسمبر1947 تک سپریم ہیڈ کوارٹر بند کر دیا جائے گا۔

قائداعظم نے اس فیصلے پر شدید احتجاج کیا اور جب 16 اکتوبر کو جوائنٹ ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا تو جناح نے آوچن لیک کے فیصلے کی مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ چوں کہ اثاثوں کی تقسیم کی ذمہ داری ابھی پوری نہیں ہوئی، اس لیے یہ فیصلہ قابل قبول نہیں جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ جو تقسیم رہ گئی ہے اسے دونوں ملکوں کے کمانڈر ان چیف مل کر کرلیں گے۔

دونوں ملکوں کے کمانڈر انگریز تھے۔ پاکستان کی کمان جنرل سر فرینک والٹر میزوری جبکہ بھارت کی سر رابرٹ میک گریگر میکڈونلڈ لاک ہرٹ کے پاس تھی۔

جنرل فرینک والٹر میسروی پاک فوج کے پہلے سربراہ

پاکستان آرمی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق جنرل سرفرینک والٹر میسروی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے چیف بنے۔ وہ 15 اگست 1947 سے 10 فروری 1948 تک چیف رہے۔

پاکستان کے قیام سے پہلے وہ برٹش آرمی کی ناردرن کمانڈ کی سربراہی کر رہے تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں پاکستان فوج کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔

وہ 1893 میں پیدا ہوئے اور 1913 میں انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ انہوں نے پہلی اور دوسری دونوں عالمی جنگوں میں حصہ لیا۔ کشمیر کی پہلی جنگ میں انڈیا کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا کہ قبائلیوں کو ان کی منظوری کے بعد کشمیر بھیجا گیا تھا حالاں کہ جب قبائلیوں نے حملہ کیا تو میسروی اس وقت لندن میں تھے۔

جب وہ واپس آئے اور دہلی ایئرپورٹ پر اترے تو انڈین حکام نے انہیں روک لیا، جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یقین دہانی کروائی کہ کشمیر کی کارروائی ان کے علم میں نہیں تھی۔

12 نومبر1947 کو انہوں نے ایک خط جاری کیا اور اس الزام کی تردید کی کہ کشمیر آپریشن میں پاکستانی فوج کا کوئی حاضر سروس آفسر ملوث ہے۔ پاکستان نے یہ خط ثبوت کے طور پر سلامتی کونسل میں پیش کیا۔

جنرل میسروی کی ریٹائرمنٹ پر قائداعظم نے جنرل گریسی کو کمانڈر ان چیف کے عہدے پر ترقی دی، جو 11 فروری 1948 سے 16 جنوری 1951 تک فوج کے سربراہ رہے۔

انہوں نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں شرکت کی تھی۔ پاکستانی فوج کے سربراہ بننے سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں چیف آف سٹاف کے عہدے پر تھے۔

انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کا کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا بلکہ وہ یہ معاملہ سپریم کمانڈر جنرل کلاڈ آوچن لیک کے نوٹس میں لے آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں برطانوی فوجی غیر جانبدار رہیں گے، تاہم ڈاکٹر اشتیاق احمد نے  لکھا ہے کہ قائداعظم جنرل گریسی کو کشمیر پر حملے کے لیے تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اپریل 1948 کے نصف میں پاکستانی دستے کشمیر میں داخل ہو گئے تھے۔

اس کے بعد سے 75 سال گزر چکے ہیں، پاکستان کی سٹریٹیجک پالیسیاں کشمیر کے گرد ہی گھوم رہی ہیں اور پاکستان اپنے ایک حصے سے محروم بھی ہو چکا ہے۔

کشمیر ابھی تک حل طلب مسئلے کے طور پر موجود ہے۔ دنیا پاکستان کو ایک عسکری ریاست کے حوالے سے جانتی ہے، جہاں سیاست سمیت تمام شعبوں کا محور پاکستان فوج ہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ