اسرائیل: 2022 کی کوکھ سے خطرناک سال اور حکومت کا جنم!

سوال یہ ہے کیا اسرائیل خود اس اندھی نسل پرستی کے مضمرات سہار سکے گا؟

20 مئی، 2022 کو مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک لڑکا فلسطین کا پرچم اپنے چہرے پر باندھے ہوئے اسرائیلی قبضے کے خلاف احتجاج میں شریک ہے (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:

2022 فلسطینیوں کے لیے بدترین قتل وغارت گری جبکہ ان کی املاک اور گھروں کے لیے خوف ناک مسماری کا سال ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق سات نومبر، 2022 تک فلسطینی کم از کم 200 کی تعداد میں شہید ہو چکے تھے۔

ان میں معصوم و نوعمر بچے اور گھریلو خواتین بھی شامل تھیں۔ انہی میں ایک امریکی شہری اور خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ تھیں۔ وہ اسرائیلی فوجی کی فائرنگ سے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جان سے گئیں۔

مقبوضہ فلسطین میں کوئی دن ایسا نہ گزرا جب کسی گھر میں اسرائیلی قابض فورسز نے دھاوا نہ بولا ہو، کسی فلسطینی کا گھر مسمار کرنے کی تیاری نہ کی ہو یا مسمار نہ کیا ہو۔ کوئی فلسطینی زخمی، شہید یا گرفتار نہ کیا گیا ہو۔

مغربی کنارہ اس ناطے بدترین اسرائیلی مظالم کا نشانہ رہا۔ 2022 میں مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ یروشلم یہودیانے کے اسرائیلی ایجنڈے کا خاص ہدف رہے۔

مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے لیے یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی قابض فورسز کا غیر معمولی اشتراک سامنے آتا رہا۔  حتیٰ کہ نیم عریاں لباس پہنے یہودی خواتین کو مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور اگلے ایجنڈے کے لیے لایا جاتا رہا۔        

اسی سال یہودی آباد کاروں کو کرائے کے بلوائیوں کے طور پر استعمال کرنے کی اسرائیلی حکمت پر کھل کر بات ہونے لگی اور لکھا جانے لگا۔

ایک یہودی آباد کار کو اس طرح کی سرگرمی کے لیے یومیہ 142 امریکی ڈالر تک ادا کیے گئے تاکہ وہ فلسطینی آبادیوں کے گھیراؤ، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور فلسطینی مظاہرین پر تشدد کے لیے اسرائیلی فورسز کے ساتھ شریک ہوں۔

ان مقاصد کے لیے 48 صہیونی تنظیمیں امریکہ اور اسرائیل سے یہودی انتہا پسندوں اور ربیوں کی خدمت کے لیے کروڑوں ڈالر فراہم کرتی رہیں۔

مگر اہم بات یہ ہے کہ یہ 2022 میں ہوتا رہا، جب اسرائیل میں ایک ایسی مخلوط حکومت بروئے کار تھی جو 'لبرل ٹچ' کی حامل مانی جاتی تھی۔

کیونکہ یہ رنگ برنگی اور مقابلتاً لبرل کہلانے والی حکومت اسرائیل کے ان اہداف کی طرف پیش رفت میں زیادہ مفید اور کارآمد ہو سکتی تھی جن کے لیے 2023 میں زیادہ وسیع، زیادہ منظم اور زیادہ کھلے انداز سے اقدامات کیے جانے کے مراحل طے کرنے کی تیاری تھی۔

بلاشبہ نارملائزیشن کے بپتسمہ کے بعد اسرائیل اور اس کی کسی بھی حکومت کے لیے امریکہ نے یہ آسان تر بنا دیا کہ وہ  اپنے آس پاس سے اطمینان محسوس کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں اپنی کامل تھانے داری اور دھما چوکڑی کے لیے پیش قدمی کرتی رہے۔

اس کے گرد وپیش کے حوالے سے راوی ہر طرف چین ہی چین لکھنے کی ضمانت دے چکا تھا۔ بہرحال 'لبرل ٹچ' کی حامل اسرائیلی حکومت کا ایجنڈا اور دن دونوں پورے ہو چکے۔

اگلے مرحلے اور 2023 کے سال کے لیے نتن یاہو کے زیر قیادت نئی اسرائیلی حکومت کی یلغار کا موقع ہے۔ غفیر بن گویر اور سموتریش نیتن یاہو کے یمین و یسار میں پورے جارحانہ جوش کے ساتھ کھڑے ہیں اور حکومت 'ٹیک آف' کے لیے تیار ہے۔

اس ناطے یہ ایک رنگ برنگی اسرائیلی ریاست کی یک رنگ اور یکجہت حکومت ہوگی۔ نئی اسرائیلی حکومت اپنے زیادہ جارحانہ 'ٹیک آف' سے پہلے دوسری تیاریوں کے علاوہ قانونی میدان کی تیاری کو بھی خاص فوقیت دیے ہوئے ہے۔

یہ تیاری قوانین میں ترمیم کے حوالے سے اور نئی قانون سازی کے حوالے سے بھی ہے۔ ہم اہل پاکستان کسی درجے میں اس عمل کو قانونی و اداراتی اصلاحات کے تناظر میں سنتے یا دیکھتے آئے ہیں۔

اب تک اس میدان میں ہمارے سامنے کئی اہداف حاصل ہو چکے ہیں اور کئی محاذوں پر ابھی 'قوم کے وسیع تر مفاد میں' کاوشیں جاری ہیں۔

اسی سبب کوئی قوم وملک پر اور کوئی سب پر بھاری نظر آتا ہے۔ لیکن بات اسرائیل کی ہو رہی ہے، جہاں فلسطینی عربوں کی پہلے سے بھی زیادہ تباہی کی تیاری ہے۔     

نتن یاہو کی قیادت میں 'ٹیک آف' کرنے کو تیار حکومت کے خیال میں اس کے لیے چیلنج کم اور اہداف زیادہ ہیں۔ چلینج کم ہونے کی وجوہات یہ ہیں کہ اس حکومت میں اسرائیل کی تقریباً تمام نسل پرست اور دہشت گردی کی سرحدوں کو چھو چکی صہیونی جماعتوں کی اکثریت شامل ہے۔

اس لیے اندرونی چیلنج کا خدشہ تقریباً ختم ہے۔ اڑوس پڑوس سے کوئی بڑا مسئلہ باقی نہیں، بہت کچھ 'نارمل' ہو چکا بتایا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی برادری اور عالمی طاقتیں پہلے ہی اسرائیل سے زیادہ اسرائیل کی طرف دار بلکہ وفادار ہیں۔ رہی فلسطینی اتھارٹی تو وہ اسرائیلی گھڑے کی مچھلی سے زیادہ حیثیت نہیں بنا پائی۔

اس لیے چلینج کم اور اہداف زیادہ ہیں۔ ان ہداف میں مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل کے ساتھ جبری الحاق، نئی ناجائز یہودی بستیوں کی وسیع بنیادوں پر تعمیر کا ایجنڈا اہم ہے۔

اسی طرح  'آؤٹ پوسٹس' کو باقاعدہ بستیوں کی شکل دینا اور یہودی بستیوں کی توسیعات کو آگے بڑھانے کے علاوہ مسجد اقصیٰ اور یروشلم کو یہودیانے کے لیے اقدامات، فلسطینی اراضی پر قبضوں میں اضافہ کرنا اور استحکام لانا اہداف کا لازمی حصہ ہے۔

دو ریاستی حل کے معاملے کو قصہ پارینہ بنا دینے کے لیے نارملائزیشن کا زینہ بروئے کار لانا فلسطینیوں کے حق واپسی کو تحلیل کرنے کے لیے فلسطینی پناہ گزینوں کی پناہ گزین ہونے کی شناخت سے نمٹنا شامل ہے۔

اہم ہداف میں قانونی ترامیم، نئی قانون سازی کر کے پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ، فوج اور وزارت داخلہ کے سلسلے میں نسل پرست صہیونیوں کو 'اکاموڈیٹ' کرنا شامل ہے۔

پارلیمنٹ کے حوالے سے اہم ترین ترمیم اس میں موجود صہیونی نسل پرستوں کو ہر طرح سے تحفظ دینا ہے۔ کبھی کوئی نسل پرستوں کی رکنیت کو چلینج نہ کر سکے۔ حتیٰ کہ الیکشن کمیشن اور عدالت بھی ان کی رکنیت ختم کرنے کا حکم جاری نہ کر سکے۔

نیز کسی نسل پرست صہیونی جماعت، اس کے قائد یا اس کے افراد پر پارلیمنٹ کی رکنیت لینے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ جو نسل پرست جماعتیں یا رہنما پارلیمنٹ کے رکن ہو جائیں ان کے سزا یافتہ ہونے کے باوجود ان کے لیے حکومت میں آنے کی راہ ہمیشہ ہموار رہے۔

ایک کامل نسل پرستی کی اٹھان پر ابھاری گئی ریاست کے لیے یہ بہت اہم ترمیم ہے۔ نسل پرست اسرائیل کی بنیاد ہے یہ ختم ہوئی تو اسرائیل کا کھیل ہی ختم ہو سکتا ہے۔                 

فوری طور پر اس سلسلے میں شاس پارٹی کے سربراہ آری دیری کے لیے ضرورت پڑ رہی ہے کہ وہ ایک سکہ بند نسل پرست اور انتہا پسند مذہبی صہیونی ہیں۔

اس لیے انہیں حکومت کا لازماً حصہ بننا ہے لیکن ان کا سزا یافتہ ہونا رکاوٹ بن رہا ہے۔ عدالتی حکم کو کیسے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے ختم کرنا ہے اس سلسلے میں فوری ترمیم کیا جانا اہم ہدف ہے۔

یقیناً اسرائیل کی مثال دنیا بھر کے سزا یافتہ رہنماوں کے لیے ایک 'مشعل راہ' بن سکے گی۔ ایک اور اہم ترمیم سموتریش کو دی جانے والی وزارت کا دائرہ اختیار وسیع کرنے سے متعلق ہے۔

سموتریش کے معاملے میں دہشت گردی کے کیس کا کوئی فیصلہ تو نہیں آ سکا تھا کہ انہیں حکومت سے باہر رکھا جا سکتا یا سزا یافتہ ہونے کے باعث ان کے لیے کوئی ترمیم کی جاتی۔

بس یہ ہے کہ ان کی وزارت سے متعلق امور کو فوجی کمان کے دائرے سے نکالنا مقصود ہے۔ تاکہ سموتریش اپنی جماعت کے بیان کردہ ایجنڈے کو انتہائی درجے تک پورا کر سکیں۔

مغربی کنارے سے متعلق سموتریش کے کسی پروگرام اور حکمت عملی میں رخنہ نہ آئے۔ یہودی بستیوں کی تعمیر کے سب ناجائز منصوبے پوری یکسوئی کے ساتھ چلیں۔

اسی طرح مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ یروشلم کو یہودیانے کے صہیونی ایجنڈے کی تکمیل سموتریش سمیت ہر نسل پرست اور مذہبی صہیونی کے تصورات کے مطابق ممکن ہو جائے۔ یہ ترمیم فوج کے دائرہ کار کو محدود کرنے سے متعلق ہو گی۔       

اسرائیلی فوج کے سربراہ پر 30 اکتوبر کو بن گویر کو اس وقت غصہ آیا تھا جب اس نے ایک مذہبی صہیونی فوجی کو بائیں بازو کے کارکنوں کے خلاف تضحیک آمیز تبصرے پر 10 دن کے لیے سزا سنائی تھی۔

فوجی سربراہ اور اس کے ماتحتوں میں فوجی نظم کی ضرورتوں کے تحت صہیونی انتہا پسندی کو فوج میں فوجیوں کے باہمی تصادم کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے کیے گئے اقدام کا برا ماننے والی نسل پرست صہیونی جماعتوں نے بر سرا قتدار آنے کے آغاز میں ہی فوج کے چیف ربی کو آرمی چیف کی ماتحتی سے نکالنے کے لیے ترمیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اب چیف ربی نہ صرف مکمل خود مختاری کے ساتھ صہیونی تربیت کا کام کر سکیں گے بلکہ ان کا ایک گریڈ بڑھا کر اسرائیلی آرمی کے اعلی ترین فورمز میں بیٹھنا بھی ممکن بنایا جا رہا ہے۔

گویا وہ محض تبلیغی انداز میں کام نہیں کریں گے بلکہ پورے اختیار کے ساتھ فوجی حکمت عملی، فیصلوں اور کارروائیوں میں دخیل ہو سکیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یوں نسل پرستانہ ایجنڈے اور صہیونی اہداف میں مذہبی صہیونی جماعتیں، ان کی قیادت، پارلیمنٹ، حکومت اور فوج  پہلے سے بھی زیادہ ایک صفحے پر ہو گی۔          

اسرائیلی عدلیہ اگرچہ پہلے بھی خالصتاً اسرائیلی قابض اتھارٹی کی تمناؤں اور آشاؤں کے مطابق فلسطینیوں کے خلاف بروئے کار رہتی ہے۔

مگر بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ نسل پرست اور صہیونی مذہبی جماعتوں کے افراد اور رہنماؤں کے بارے میں اپنی مرضی اور قانون کو بالاتر بنانے کے بخار میں مبتلا ہونے کی کوشش کرتی ہے۔

ایک صہیونی ریاست میں صہیونیوں کے ساتھ یہ عدالتی انداز ختم کرنے کے لیے بھی ترمیم لائی جا رہی ہے۔ اس ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ سمجھنے کے لیے لیکوڈ پارٹی کے اٹارنی جنرل کا فرمان ملاحظہ فرمائیے 'عدالتی نگرانی اور آزادانہ قانونی مشورے کے اختیار کے بغیر حکومت محض اکثریت رکھنے والی اصولی سی حکومت رہ جائے گی۔'

اس لیے اسرائیلی عدلیہ کی بچی کھچی قانونی بالا دستی کی سوچ بھی مسماری کی زد میں لائی جا رہی ہے۔

یقیناً 'توشہ خوانی' اور کرپشن کے مقدمات کی تاریخیں بھگتنے والے نتن یاہو بھی بطور وزیر اعظم ایسی ہی ترمیم کے نتیجے میں فرد جرم یا سزا سے بچنا چاہیں گے۔

اس لیے نئی اسرائیلی حکومت کے لیے اہم چیز اہداف ہیں اور قانونی رکاوٹیں دور کر کے آگے بڑھنا ہے۔

اکا دکا چیلنجوں میں امریکہ اور یورپ میں اسرائیل کی پالیسیوں کے باعث یہودیوں سے بڑھنے والی نفرت کے علاوہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم 'بی ڈی ایس' کی سرکوبی کرنے کے علاوہ سرمایہ کاروں اور اسرائیلی نوجوانوں کو امن وسکون کی خاطر اسرائیل سے نکل جانے کی سوچ سے نکالنا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کیا اسرائیل خود بھی اس اندھی نسل پرستی کے مضمرات سہار سکے گا؟ اصل چیلنج امریکہ اور اسرائیل کے ان سرپرستوں یا دوستوں کے لیے اپنے ہاں اسرائیلی نسل پرستی کے خلاف فطری ردعمل کو روکنے کے حوالے سے ہو گا، نیز یہ کہ وہ عالمی سطح پر اسرائیل کی صفائیاں کیسے پیش کریں گے کیونکہ وہ تو اسرائیل کو ایک نارمل ریاست کی شناخت اور حیثیت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ