چین و عرب ہمارا

چینی صدر کے حالیہ دورۂ سعودی عرب میں عربوں کے ’روڈ اور بیلٹ انیشی ایٹیو‘ میں دلچسپی دکھانا، دونوں ملکوں کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔

چینی صدر شی جنگ پنگ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو
غیث ریاض میں (ایس پی اے/ایف ایف پی) 

دیکھا جائے تو چین کے صدر شی کا دورہ سعودی عرب 80 گھنٹے سے بھی بہت کم دورانیے کے لیے تھا، جبکہ امریکہ کے ساتھ سعودی تعلقات کی تاریخ 80 برسوں پر پھیلی ہوئی ہے۔

لیکن جس طرح چینی صدر کے دورے پر امریکہ و یورپ کی طرف سے نظریں گاڑی گئیں، ایسا لگا کہ کہیں سعودی لوگ مل کر اقبال کا ترانہ ملی لہک لہک کر گا رہے ہوں، ’چین و عرب ہمارا‘ اور اس ترانہ ملی کی آواز اور زیر وبم  سے ہر کوئی چونک گیا ہو۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

اس معاملے کو کسی نے بھونچال، کسی نے تبدیلی اور کسی نے ایک نئے موڑ کے طور پر لیا۔ کسی نے ایک بڑی خبر کی صورت دیکھا۔ اگر اسے محض میڈیا کی سطح پر جا کر دیکھا جائے تو یقینا ایک بڑی خبر ہے۔ مگر دنیا جان رہی ہے کہ میڈیا کو جب سے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے پر لگے ہیں، وہ عجلت اور جلد بازی میں ایسا غرق ہوا ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ چیزوں کو دیکھنا اور ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا پہلو کافی کمزور ہو گیا ہے۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہوا ہے کہ میڈیا کی اس تیز رفتاری اور تیز کاری کے ساتھ اندھی طرف داری اور لمبی بغض کاری بھی میڈیا ہی کی طرح فراٹے بھرنے لگی ہے۔ صدر شی کے تین روزہ سعودی دورے میں ان عوامل کا دخل بھی اہم رہا۔  کسی کو چین عزیز تر تھا تو کسی کے رگ و پے میں امریکہ دوڑ رہا تھا۔ یوں دورے کو سعودی تناظر میں کم دیکھا جا سکا۔

جو بات سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کی طرف سے کہی گئی ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کمزور ہوں گے۔ چینی صدر کے دورہ سعودی عرب کے فوری بعد یہ بیان کافی اہم ہے جو بہت سارے ’اندیشوں‘ اور غلط فہمیوں کو آسانی سے دور کر سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی اپنے اندیشوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے پر آمادہ ہو۔ یہ فطری سی بات ہے کہ تین دنوں پر محیط ایک صدر کا دورہ سعودی امریکہ تعلقات کی 80 سالہ تاریخ اور تعاون کی جہتوں کو ملیا میٹ نہیں کر سکتا۔

تاہم امریکی ترجمان دفتر خارجہ کا صدر شی کا دورہ شروع ہوتے ہی بیان داغ دینا اور یہ کہہ دینا کہ امریکہ اوپیک پلس کی پیداوار میں کٹوتی کے فیصلے کے بعد سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے، ایک ایسا نقطۂ آغاز بنا جس نے چینی صدر کے دورے کو ایک رنگ دینے کی کوششوں کو بنیاد فراہم کر دی۔

سعودی وزیر سرمایہ کاری نے اس بارے میں مزید وضاحت سے کہہ دیا ہے کہ سعودی عرب اور چین کے درمیان 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدات پر دستخط کیے گئے ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ چین کے صدر کا استقبال بھی غیر معمولی رہا۔ ان کی سعودی فرمانروا اور ولی عہد کے ساتھ سربراہی ملاقات کے علاوہ خلیجی ممالک کے سربراہان کے ساتھ کانفرنس کا انعقاد اور اس کے علاوہ کئی اہم عرب ملکوں کے سربراہان کے ساتھ سربراہی کانفرنس میں شرکت ایسے ’جیسچر‘ تھے جس نے خطے میں چین کے اثرات کے بڑھنے کا اشارہ دیا۔

خود چینی صدر نے بھی اپنے اس دورے کو عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات سے تعبیر کیا۔ مگر یہ شک کرنا کہ یہ ضرور امریکہ سے جان چھڑانے کی کوشش کا حصہ تھا، یہ کسی اندرونی خوف کا شاخسانہ تو ہو سکتا ہے فی الحال حقیقت نہیں ہے۔

اس خالص کاروباری اور مفاد پرستی کے قالب میں ڈھلی دنیا میں اگر یہ ملک اپنے تعلقات میں مذکورہ بالا عنوانات کو ہی بنیاد بناتا ہے۔ اس میں کوئی شرم یا عار محسوس نہیں کرتا ہے تو کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے ملک یا علاقے کو  تعلقات کاری  کے اس اسلوب سے روکا جا سکے یا اس ملک کی نیت پر شبہ کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک سے زائد بار سعودی عرب اوپیک پلس کے حالیہ فیصلے کو ایک خالص تجارتی حکمت عملی پر مبنی فیصلہ قرار دے چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کی اس تجارتی نیت، حکمت عملی اور اقدام کو منفی انداز کے ساتھ لینا اور شک کی نگاہ سے دیکھنا معیاری طرز فکر اور بالغ نظر سفارتکاری سے لگا نہیں کھاتا۔

ہاں کچھ پہلو خود امریکہ اور یورپ کے لیے قابل غور ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے امریکہ اور یورپ کی تشویش میں دنیا کے دوسرے ملک اس سطح پر قطعاً شریک نہیں دکھائی دیتے۔ حتیٰ کہ اسرائیل بھی اس بارے میں وہ کچھ کہنے اور کرنے کو تیار نہیں ہے جو امریکہ اور یورپ کی خواہش ہو سکتی ہے۔

اسی طرح امریکی صدر کے لیے قدرے نیا لاڈلا ملک بننے والا انڈیا بھی اس لائن کو اختیار کرتا نظر نہیں آیا جو امریکہ و یورپ چاہتے تھے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ امریکہ کی اثر پذیری میں کمی آ رہی ہے؟

کیا اس میں امریکہ کی اپنے مفادات کے سانچے میں ڈھلی ہوئی سوچ اور تحکمانہ بالادستی کے علاوہ دوسرے ملکوں میں تعلیمی نصاب اور ثقافت و سیاست کے ہر شعبے میں مداخلت کے ایک خاص ذوق کا عادت ثانیہ بن جانا تو نہیں ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ کے ساتھ جڑے ملک یہ محسوس کرنے لگے ہوں کہ امریکی ہاتھی گھروں کے دالانوں تک گھس رہا ہے؟

یہ بھی اہم ہے کہ امریکہ  کے بارے میں یہ تاثر پختہ ہو رہا ہو کہ امریکہ دوسرے ملکوں کی سلامتی و خود مختاری میں دخیل ہونے اور حکمت عملی کے علاوہ زمینی حقائق تک رسائی پا لینے کے بعد انسانی سلامتی سے متعلق قبول کردہ ذمہ داریوں یا وعدوں اور معاہدوں سے بوقت ضرور اِدھر اُدھر کھسک جاتا ہے۔ اس لیے اس پر بھروسہ کم کر لینا چاہیے۔

یقیناً کسی ایک دکاندار کی اجارہ داری کا ماحول ایک عرصے تک ضرور قائم رہ سکتا ہے مگر جب بازار میں نئی دکانیں کھلنے کی شروعات ہوجائے تو پہلے والے دکاندار کا اپنی اجارہ داری قائم رکھنے پر اصرار اور حقائق شناسی سے انکار اس کی گاہگی میں ضرور  کمی کرتا ہے۔

دنیا اگر واقعی ایک ’گلوبل ویلج‘ ہے تو اس میں اپنے آس پاس والوں اور ہنس بول کر ملنے والوں سے میل ملاقات میں حرج کیا ہے۔ جبکہ ان کا طریقہ بھی دو طرفہ فائدے، تجارت اور عدم مداخلت کے اصولوں پر مبنی ہو۔

اس میں کلام نہیں ہے کہ امریکہ اور یورپ جنگی ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہیں۔ اس ناطے جہاں کہیں جنگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے متعلقہ فریقوں کو ان کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ اس پر انحصار بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے جہاں کہیں جنگی تباہی کا میدان سجتا ہے امریکہ و یورپ کے اسلحہ کا وہاں بروئے کار ہونا مسلمہ ہے۔

لیکن اس کے علاوہ کی زندگی میں طویل معاشی استحکام کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ عرب دنیا نے اپنی معاشی مضبوطی و ترقی کو استحکام میں بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

چینی صدر کا دورہ اور عربوں کا ’روڈ اور بیلٹ انیشی ایٹیو‘ کی طرح دلچسپی دکھانا، دو طرفہ سرمایہ کاری کے لیے گرمجوشی دکھانا اور اپنے تیل کی دولت کو سنبھال کر استعمال کرنا ، ان کی ضرورت بھی ہے، مجبوری بھی اور ہدف بھی۔ انہیں اس طرف جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ