حق واپسی کے لیے فلسطینی ’رسک بوٹ‘ پر سوار

11 برس قبل شام سے نکلنے کا فیصلہ کرنے والے ’فلسطینیوں‘ کو بشار الاسد کے ساتھ ایک بار پھر ملاقات کے حاصل کے طور پر اگر واپس شام میں ’ٹرانزٹ‘ لینا پڑ رہا ہے تو یہ ان کی حکمت عملی کا تقاضا بھی ہو سکتا ہے، اور حالات کا جبر بھی۔

2 دسمبر 2013 کو غزہ شہر میں اسرائیلی محاصرے کے خلاف احتجاج کے طور پر غزہ کی بحری ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے ’انتفاضہ یوتھ کولیشن‘ (آئی وائی سی) کی پہل پر ایک فلسطینی غزہ کی بندرگاہ سے نکلنے والی کشتیوں کے قافلے کو دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی /محمود ہمس)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے


دنیا تبدیلیوں کے دروازے پر ہے۔ عالمی حقیقتوں میں ہر طرف تبدیلی کے مناظر بکھرے ہیں۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ انسانوں کو اور انسانی معاشرے کو طویل عرصے تک ایک مٹھی میں بند رکھا جا سکتا ہے نہ ایک کھونٹے سے باندھے رکھنے کی انسانی تدبیر کارگر ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہر طرف تبدیلی کے نعرے، دعوے اور اشارے ہیں۔

اور تو اور مشرق وسطیٰ بھی اب انگڑائی لے رہا ہے۔ ماضی اور حال کی جگہ مستقبل کی آواز سنی جا رہی ہے۔

ان جلی حقیقتوں کو خود امریکہ میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ بدلتی دنیا اور تبدیل ہوتے حقائق آج کسی کو قبول ہیں یا نہیں۔ مگر آنے والے کل کا عنوان یہی ہیں۔ سعودی عرب اس مشرق وسطیٰ کا سرخیل ملک ہے۔ اس نے بھی تبدیلی کی آواز پورے آہنگ سے بلند نہیں کی تو کم از کم اس کی تیاری شروع کر دی ہے۔ یہ شعور گہرا ہو رہا ہے کہ اس کے بغیر مستقبل میں ایک باوقار شناخت کے ساتھ زندہ رہنا ممکن نہیں رہے گا۔

فلسطینی عوام اگرچہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی اعتبار سے اس مقام پر فائز نہیں مانے جا رہے جو دوسرے ملکوں اور قومی شناختوں کو پورا یا ادھورا میسر ہے۔ لیکن فلسطینیوں کی مشرق وسطیٰ میں موجودگی اور وجود صدیوں پرانی ایک انمٹ حقیقت ہے۔ جی ہاں حقیقت ثابتہ۔

فلسطینی آج اپنے حقوق سے محروم ہو کر بھی اور ظلم وجبر کا مسلسل شکار رہ کر بھی اتنی بڑی اور مضبوط حقیقت ہیں کہ انہیں آنکھوں سے اوجھل کرنے والے بہت سے اس خواہش اور کوشش میں اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے موند کر دنیا سے چلے گئے، لیکن فلسطینی ایک حقیقت کے طور پر آج بھی موجود ہیں۔ ایک ابدی نشان کے ساتھ ایک مضبوط چٹان کی طرح۔

یہ فلسطینی دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں اور 30 مارچ کو اپنے ’حق واپسی‘ کا دن مناتے ہیں۔ ان کے اس حق کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 13 میں بالکل اسی طرح تسلیم کیا گیا ہے، جس طرح یو این چارٹر کا یہ آرٹیکل مجھے اور آپ کو حق دیتا ہے۔

اس آرٹیکل 13 کے پہلے جزو میں ہر شخص کو ریاستی حدود کے اندر نقل وحرکت کا حق دیا گیا ہے۔ صرف نقل وحرکت کا نہیں، رہنے بسنے کا بھی۔ ہر فرد اپنی زمین، علاقے، خطے اور ملک میں بود و باش اختیار کر سکتا ہے۔ یو این چارٹر کے مطابق کسی کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل اور اس کے عالمی سرپرستوں کے لیے یو این چارٹر کا یہ آرٹیکل کسی بھی وقت تازیانہ بن سکتا ہے۔

آرٹیکل 13 کے دوسرے جزو میں اس دنیا میں رہنے والے ہر انسان کو اپنے ملک کو چھوڑنے کا حق بھی ہے حاصل اور واپس اپنے ملک آنے اور جانے کا۔ گویا یہ ایک دائمی حق ہے جو ایک فرد کو دے دیا گیا ہے۔ وہ اسے استعمال کرے یا نہیں یہ دوسری بات ہے۔

فلسطینیوں کا معاملہ بعض پہلوؤں سے اس سے بھی اہم ہے کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت دیتے ہوئے اس کی رکنیت کو فلسطینیوں کے حق واپسی کے ساتھ مشروط کیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں فلسطینی قوم کے ارکان جنہیں 1948 اور 1967 میں ان کے گھروں سے صہیونی جبر اور دہشت گردی کے نتیجے میں بے گھر ہونا پڑا تھا ان کے لیے اقوام متحدہ نے الگ ادارہ UNRWA قائم کر رکھا ہے۔

اس ادارے کا کام فلسطینیوں کو ان کے واپس اپنے گھروں میں بسانے کے لیے اور اس سے پہلے پناہ گزین کیمپوں میں عزت وآسانی کے ساتھ رکھنے کا اہتمام کرنا ہے۔

جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے، دنیا تبدیلی کے دروازے پر ہے۔ بڑی بڑی حقیقتیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ دوستیوں اور دشمنیوں کے نئے رجحانات سامنے آ رہے ہیں۔ تعلقات کے معیار بدل رہے ہیں اور صبر کے پیمانے بھر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں نئے نئے معاہدات اور تعلقات تشکیل پا رہے ہیں۔ تجارتی وجنگی ضرورتیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ مفادات کے لیے نئے امکانات جنم لے رہے ہیں اور گمانات کی پرانی بستیاں بتدریج ڈھے رہی ہیں۔

ملکوں اور اقوام کے پرانے تعلقات مائل بہ بوسیدگی ہیں۔ ایک ایک بات پر ’برسوں کے یارانے‘ آبگینوں کی طرح کمزور ثابت ہونے لگے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ اطلاعات بھی امریکہ کو کھل رہی ہیں کہ سعودی عرب روس کی طرف مائل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین اور سعودی عرب کے درمیان توانائی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون اور سرمایہ کاری پر بات چیت کی بازگشت تو ابھی سماعتوں میں موجود ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سامنے بھی نئے افق کھل رہے ہیں۔ قطر، اومان، ترکی، شام اور عراق ہر جگہ تبدیلی کی ہوائیں ایک نئی صبح کی خبر دے رہی ہیں۔ کہیں یہ صبح امید بن کر اور کہیں ضرورت اور نصیب بن کر آ رہی ہے۔

بلاشبہ ان سب تبدیلیوں کی بنیاد فطری بھی ہے اور منطقی بھی۔ اس لیے اس سے کوئی خوش ہو یا ناراض، فطری اور منطقی لہروں کو روکا نہیں جا سکتا۔ اپنے فطری اور منطقی لہریں آگے بڑھنے کا ایک اپنا انداز رکھتی ہیں، اپنی رفتار رکھتی ہیں۔

 انہی حالات میں فلسطینی بھی اپنی عارضی بود وباش کے لیے جگہیں تبدیل کرنے کا سوچنے لگے ہیں۔ اسرائیل کی فلسطین، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو ’یہودیانے‘ کی رفتار تیز تر ہے۔ بیرون میں اسرائیل کی خاموش اور ’بغیر جنگ فتوحات‘ چیخ چیخ کر بول رہی ہیں کہ فلسطینی قوم کو اسرائیل کمزور کرنے کے لیے فلسطین کے اندر رنگ برنگی چالیں چل رہا ہے تو فلسطین سے باہر اپنے اڑوس پڑوس میں ہم رنگ زمیں جال بچھا رہا ہے۔

تجارت کے معاملات، سلامتی کے امور اور سائنس وٹیکنالوجی کی ترویج وترقی کے نت نئے خواب، اس کے ہتھیار ہیں۔ جن کے سامنے ہر چیز ڈھیر ہے۔

ترکی جس نے حالیہ مہینوں میں اپنا نام تبدیل کر ترکیہ کر دیا ہے، اپنے رجحان اور کام بھی تبدیل کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے قطر میں مشکلات بڑھ چکی تھیں، اب ترکیہ میں بھی امکانات گھٹ رہے ہیں۔

لامحالہ فلسطینیوں کی ان حالات میں اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مندی میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی کے نتیجے میں فلسطینی قیادت نے حالیہ عرصے میں مختلف ممالک کی مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا خلاصہ سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہے کہ تبدیلی کے اس ماحول میں فلسطین اور فلسطینیوں کا مستقبل کیا ہو گا، کیسا ہو گا اور کہاں ہو گا؟ 

کیا تبدیلی کی ان ہمہ گیر اور ہمہ نوع لہروں کے سامنے فلسطینی خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں یا مقدور بھر کوشش کے طور پر ہاتھ پاؤں مار کر اپنے بچاؤ کی تدبیر کریں۔ ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے طور پر جو بھی سہارا ہے اسے قبول کریں، رسک لیں اور آگے بڑھیں؟ یا چپ چاپ مٹی کے مادھو بن کر بیٹھے رہیں۔

’رسک‘ اس لیے کہ مشکلات میں گھرا ہوا وہ کوئی بھی فرد ہو یا قوم اور ملک اس کے ہر فیصلے اور اقدام میں کبھی الجھاؤ ہوتا ہے اور کبھی پچھتاوا۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ بھنور میں الجھا ہوا شخص فوری درست فیصلہ کرے اور ساحل مراد کو بغیر ’رسک‘ یا تاخیر کے پا لے۔

ڈوبنے والے کو ساحل پر کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے والے اکثر وہ مشورے نہیں دے رہے ہوتے ہیں جو ڈوبنے سے بچنے کے کیے ہاتھ پاؤں مارنے والے کے اپنے ذہن میں آ رہے ہوتے ہیں۔

بیچ منجدھار کے پھنسے شخص اور ساحل پر کھڑے تماشائیوں کی سوچ میں فرق کا ہونا فطری ہے۔ دونوں اطراف کے سامنے کے منظر اور آنکھوں سے اوجھل مناظر الگ الگ ہوتے ہیں۔ دونوں کے مستقبل کے امکانات اور خطرات کی دنیا بھی فرق ہوتی ہے۔ اس لیے اختلاف وتضاد فطری رہتا ہے۔ ایک دوسرے کی عقل ناقص، عمل ادھورا اور یقین کمزور دکھتا ہے۔

اس لیے 2011 کے بعد شام سے نکلنے کا فیصلہ کرنے والے فلسطینیوں کو بشار الاسد کے ساتھ ایک بار پھر ملاقات کے حاصل کے طور پر اگر واپس شام میں 'ٹرانزٹ' لینا پڑ رہا ہے تو یہ ان کی حکمت عملی کا تقاضا بھی ہو سکتا ہے۔ اور حالات کا جبر بھی۔

وگرنہ شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں فلسطینی مہاجرین کے یرموک کیمپ پر آنے والی قیامت کس کو بھولی ہو سکتی ہے، نہ فلسطینی پناہ گزینوں کے کسمپرسی کے صبح و شام آنکھوں سے محو ہونے والے ہیں۔ اسی شام سے نکل کر ایک نئی صبح کے لیے کر یورپ جانے کی کوشش میں 11 اکتوبر 2013 کو 200 فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے کہ وہ ’ڈیتھ بوٹ‘ کے سوار تھے۔ ایسی ہی ایک اور ’ڈیتھ بوٹ‘ پر سوار 400 فلسطینیوں میں سے صرف 11 زندہ بچ سکے تھے۔

اس وقت فلسطینی حالات کے جبر کے تحت ’ڈیتھ بوٹ‘ پر سوار ہوئے تھے۔ اب وہ ’رسک بوٹ‘ پر سوار ہو کر واپس ایک مرتبہ پھر شام کی طرف لوٹ رہے ہیں کہ یہ ہجرت معکوس ان کے حق میں واپسی کا دیباچہ بن سکتی ہے۔ ایک کوشش ہے، سعی ہے، جہد ہے۔ کامیاب بھی قرار پا سکتی ہے اور خدا نخواستہ ’رسک‘ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ آج کل ہر ایک پر بولنے والا امریکہ فلسطینیوں کی بشار الاسد سے ملاقات اور اس میں طے پانے والے امور کے بارے میں سب سے پہلے بولا ہے۔ امریکہ کا موقف دلچسپ ہے۔ ایک طرف فرمانا ہے کہ یہ ’فلسطینی کاز‘ کے لیے اچھا نہیں، دوسری جانب حماس کو نامزد دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کے شام کے ساتھ رابطے کو بشار الاسد کی مزید کی تنہائی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔

اسی امریکہ کی کانگریس میں ڈوگ لامبرون نے 2018 میں ایک بل پیش کیا تھا کہ 1948 میں فلسطین سے نقل مکانی کرنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کی دوسری اور تیسری نسل کو پناہ گزین تسلیم نہ کیا جائے۔ گویا فلسطینیوں کے حق واپسی پر ضرب کاری لگائی جائے اور اسرائیل کو فلسطینیوں کی واپسی کے خوف سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دی جائے۔

فلسطینی اپنے گھر فلسطین میں واپس آنے کی تو فی الحال پوزیشن میں نہیں ہیں۔ البتہ فلسطین کے اڑوس پڑوس میں اپنے لیے مقامات آہ وفغاں کی تلاش میں ہیں۔ ان کے اس حق کو تو سمجھنے کے لیے نیوٹن ایسے دماغ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سادہ سی بات ہے۔ گھر کی کشش زمین سے کم نہیں ہوتی۔ اس کو لوٹنا ہر ایک کو اچھا لگتا ہے۔

سعودی عرب نے بھی فلسطینی حماس کے سیاسی شعبے کے بزرگ رہنما ڈاکٹر محمد الخضری کو طویل ترین اسیری کے بعد رہا کر دیا ہے۔ بدلتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں کے لیے یہ ایک اچھا اشارہ ہے۔

بلا شبہ شام سے بہتر جگہیں فلسطینیوں کے لیے مصر و اردن کی ہو سکتی تھیں مگر ان دونوں نے تو عرصہ ہوا فلسطینیوں پر اپنی سرحدیں بند اور صرف اپنی جیلوں کے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے فلسطینی اگر ’رسک بوٹ‘ پر سوار ہو کر اپنے 'حق واپسی' کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ان کا یہ حق ہے۔

جی ہاں۔۔۔ یو این چارٹر کے آرٹیکل 13 کی شق دو کے تحت۔ تبدیلی کے اس ماحول میں فلسطینی اتنا حق تو رکھتے ہیں کہ انہیں بھی جہاں چاہ نظر آ جائے وہاں کی راہ لے لیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ