سعودی عرب اور امریکہ کا تعلق ’فرینڈز ناٹ ماسٹر‘ والا ہے؟

امریکی قیادت کے کئی فیصلے آج فاش سفارتی غلطیوں کے طور پر سعودی عرب سمیت واشنگٹن کے اتحادیوں کے گلے پڑے ہوئے ہیں۔

جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد کے درمیان 16 جولائی کو جدہ میں ملاقات (اے ایف پی)

امریکی صدر کوئی بھی ہو اس کی ہر بات اور ہر حرکت کی اہمیت غیر معمولی ہونے کے باعث خبر بن جاتی ہے۔

صدر امریکہ پرانے وقتوں کی روایتی خوفناک ریاستوں کے بادشاہوں کے انداز میں اپنے درباریوں کے ساتھ انسانوں کے قتل کیے جانے کا براہ راست تماشا دیکھنے کے لیے ’سفید گھر‘ میں بیٹھ کر امریکی ڈرونز کی قاتلانہ کاٹ کا مشاہدہ کر رہا ہو یا وائٹ ہاؤس کے کسی گوشے میں صدر کلنٹن کی صورت دنیا وما فیہا سے بےتعلق ہو رومان پروری کے شغل میں مصروف ہو، امریکی صدر کی ہر بات خبر مانی جاتی ہے۔

یہ تحریر آپ کالم نگار کی زبانی سن بھی سکتے ہیں۔

 حالیہ دنوں میں صدر جو بائیڈن کی خبریں ذرائع ابلاغ اور مختلف ملکوں کے دارالحکومتوں کے ’باکس آفس‘ پر خوب بزنس کر رہی ہیں۔ وہ سائیکل چلاتے ہوئے اپنا توازن کھو کر گر جائیں یا ’دو محوری سائیکل‘ میں خود کو سنبھالنے میں ناکام ہو کر گر جائیں، خبر بہرحال بن جاتی ہے۔

کبھی بات کرتے کرتے اچانک بھول جائیں تو بھی خبر ہوتی ہے۔  کبھی بیانات دیتے ہوئے اپنے دیرینہ اتحادیوں پر چڑھ دوڑیں تو اس سے بھی بڑی خبر بن جاتی ہے۔ یقیناً دوستوں کو (چٹکی) کاٹنا ہو یا دشمن کو کاٹ کھانا ہو، امریکی صدر سے جڑنے والے ہر واقعہ خبر بنتا ہے۔ اس لیے جو بائیڈن اپنے دو دیرینہ دوستوں یا اتحادیوں  پاکستان اور سعودی عرب پر چڑھائی کی مزید کوشش میں ہیں تو یہ بھی بعضوں کے لیے بری اور بہت سوں کے لیے بڑی خبروں کا ایک اہم موضوع ہے۔

اگرچہ امریکی دوستی اور دشمنی کے معنی عمومی نہیں ہیں۔ اس کی دوستی اور دشمنی سے محلے کے تھانیدار کی مثال یاد آتی ہے جس کے بارے میں یار لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ ’اس کی دوستی اچھی نہ اس کی دشمنی اچھی۔‘

بہر حال صدر جو بائیڈن آج کل خبروں میں خوب ’اِن‘ ہیں۔ مگر فی الوقت پاکستان پر صدر جو بائیڈن کی چڑھائی کے ذکر کو موخر رکھتے ہوئے سعودی عرب کا ذکر کرتے ہیں۔ سعودی عرب ایک جوہری ملک نہ ہونے کے باوجود بھی  Beggars, not Choosers والی سوچ کا رجحان نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے رجحان کو دیکھا جائے تو وہ Friends, not Masters کہہ رہے ہیں۔  

امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی نوعیت اگرچہ سطحی اور وقتی نہیں ہے۔ ان تعلقات کی جڑیں گہریں اور تاریخ پرانی ہے۔ مگر معاشی، سیاسی، سفارتی چیلنجوں میں گھری امریکی قیادت اسے وقتی ہی نہیں خالصتاً ابن الوقتی کے انداز سے دیکھنے پر مائل نظر آتی ہے۔

اس رجحان کو دیکھ کر کبھی کبھار مرغی سے ایک ہی بار سونے کے سارے انڈے لینے کی کوشش والے شخص کی کہانی رہ رہ کر یاد آتی ہے۔ جی ہاں، سونے کے سارے انڈے ایک ہی بار اور وہ بھی چھری کے زور پر یا قدرے تبدیلی کے ساتھ چھڑی کے زور پر لینے کی کوشش۔

امریکہ اور اس کی قیادت یا انتظامیہ کا یہ رویہ کسی ایسے ملک کے ساتھ نہیں ہے جس کے ساتھ امریکہ کا تعلق صرف انڈوں اور ڈنڈوں کی بنیاد پر ہو۔ بلکہ 1945 میں سعودی شاہ عبدالعزیز اور امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ نے دو طرفہ تعلقات گہری تزویراتی بنیادوں سے اوپر اٹھائے تھے۔

ان تعلقات کی بنیادوں کے مضبوط اور گہرا ہونے کی وجہ سے ہی تعلقات میں طویل عرصے تک کوئی بڑا مسئلہ یا رخنہ نہ آیا۔ تاہم تبدیلی کے نعروں کے زد پر آگے آنے والوں نے ان مضبوط دو طرفہ بنیادوں پر بھی تبدیلی کی کدال چلانے کی کوشش شروع کر دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاہ فام امریکی صدر اوباما کے دور میں ہی سعودی عرب کے ساتھ رویے میں دوستی سے ہٹی ہوئی ہوئی علامات نظر آنے لگی تھیں۔ یقیناً دوستی باہمی احترام اور کم از کم دو طرفہ مفادات کے لیے غیر معمولی کمٹمنٹ کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔

اگر یہ دوستی پہلے سے چلی آ رہی ہو تو بھی ان دونوں چیزوں ’باہمی احترام اور دو طرفہ مفادات کے لیے گہری کمٹمنٹ' کے باقی نہ رہنے کی صورت میں یہ اپنا وجود کھونے لگتی ہے۔ کبھی ہلکے سے ہلکے پیرائے میں بھی اتنی شکایت کا موقع ضرور بن جاتا ہے کہ ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ کبھی ’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘ والی صورت حال ضرور بن جاتی ہے۔                  

صدر اوباما نے نہ صرف امریکہ کے دیرینہ دوست سعودی عرب کے ساتھ تبدیلی کا اظہار شروع کر دیا بلکہ کئی اور ایسے فیصلے بھی کیے یا ان کی بنیاد رکھ دی جو بعد ازاں فاش سفارتی غلطیوں کے طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے گلے پڑ گئے۔ سعودیہ ان فیصلوں کی وجہ سے براہ راست آزمائش میں آ گیا ہے۔

ان میں کرائمیا اور شام کے حوالے سے روس کو رعایتیں دینے پر مبنی امریکی سفارتی پالیسی اور موقف بنیاد بنا۔ اس بارے میں امریکی موقف کے مضمرات بجائے خود سعودیہ کے لیے بھی نقصان دہ تھے مگر ریاض نے اپنے دیرینہ دوست واشنگٹن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ نتیجہ سعودی عرب تو درکنار خود امریکہ کے لیے بھی اچھا نہ نکلا۔ 

امریکہ کی یہ حکمت عملی روس اور اس کے اتحادیوں کی مشرق وسطیٰ میں مداخلت بڑھنے کا سبب بنتی گئی اور براہ راست سعودیہ کو بھی نشانے پر لیا جانے لگا۔ پھر بھی سعودی عرب اتحادی ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری اور دوستی و وفا شعاری کا پاس کرتا رہا اور آج تک کر رہا ہے۔

اگرچہ اس کی قیمت کے طور پر سعودی سرحدوں کے اندر اس کے تیل کے ذخائر اور تیل صاف کرنے کے کارخانے تک غیر ملکی میزائلوں کے نشانوں پر آ چکی ہیں۔

حد یہ ہے کہ اب مغربی میڈیا یوکرین کے خلاف ایرانی ڈرونز کے بروئے کار آنے کی اطلاعات بھی دے رہا ہے۔ اس تناظر میں سعودی تحفظات بہت شروع سے سامنے لائے جاتے رہے ہیں کہ 2015 میں جوہری معاہدہ کرنے اور اب اسے بحال کرنے کے لیے امریکی فراخ دلی کے نقصانات بہت زیادہ ہوں گے۔ لیکن سعودی عرب کی یہ صدا امریکی سماعتوں کے صحراؤں میں بے اثر ہی رہی۔

صدر اوباما کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا عہد صدارت آیا تو بھی مشرق وسطیٰ کے اہم ترین کھلاڑی سعودی عرب کو نشانے پر رکھنے کی حکمت عملی کے اشارے بڑے واضح رہے۔ صدر ٹرمپ سکیورٹی فیسں بڑھانے کی کھلی باتیں کرتے رہے۔ گویا ان کے لیے سب سے اہم چیز سکیورٹی فیس میں اضافہ ہی تھا۔ وہ 1945 سے چلے آ رہے سعودی امریکہ تعلقات کو ڈالروں کی اسی بڑھتی ہوئی ہوس کے ترازو پر تولتے رہے۔

اب صدر جو بائیڈن کا دور ہے۔ جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی سعودی عرب کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کرنا شروع کر دیے تھے۔ خود سیاسی ومعاشی اعتبار سے بھی نحیف نزار ہونے کے باوجود سارا نزلہ سعودی عرب پر گرانے کی کوشش میں ہیں۔

 باوجودیکہ سعودی عرب، امریکہ کا سٹریجٹک پارٹنر ہے، امریکہ میں چلنے والی مشینوں اور گاڑیوں سے لے کر مشرق وسطیٰ تک چلنے والی ہمہ نوع جنگی و دیگر مشینری میں ایک خاص حصہ سعودی تیل کی موجودگی کا ہوتا ہے۔ 

امریکی خود اس سبب سعودی عرب کو اپنے ’پیٹرول پمپ‘ کا نام دیتے ہیں۔ سعودی عرب کئی حوالوں سے امریکہ کی ’اے ٹی ایم‘ کا کردار بھی نبھاتا ہے۔ صرف حالیہ نو دس برسوں کا ہی احاطہ کیا جائے تو سعودی عرب کے لیے امریکی برآمدات کی مالیت 150 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ پچھلے سال میں بھی یہ رقم 14ارب ڈالر کے قریب رہی۔

عالمی سطح پر سفارتی، معاشی اور سیاسی ہی نہیں جنگی ضرورتوں میں بھی سعودی عرب نے ہمیشہ امریکہ سے تعاون کیا ہے اور سخنے، درہمے، قدمے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ بلکہ ان سب معاملات میں سعودی ’کنٹری بیوشن‘ ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ اس کے باوجود صدر جو بائیڈن نے منتخب ہونے سے پہلے اور منتخب ہونے کے بعد سعودیہ کے بارے میں جو بیانیہ اپنانے کی کوشش کی ہے وہ مملکت کے لیے خوشگوار نہیں رہا۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کامبارکباد کے لیے فون سننے سے جو بائیڈن کا گریزاں رہنا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں غیر محتاط انداز اور الفاظ کا استعمال کرنا۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نئے نئے بیانات دینے کے علاوہ جو بائیڈن کے اب تک گزرے دور صدارت کی کم از کم سعودی عرب کے حوالے سے ایسی شناخت نہیں بن سکی جسے کہا جا سکے کہ امریکہ، سعودی عرب کے ساتھ'فیئر ڈیل'کر رہا ہے۔

کووڈ 19 کے باعث معاشی حالات سے تنگ آ کر اور اگلے چند ہفتوں میں متوقع نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جیت کے لیے آرزو مندی سے مجبور ہو کر صدر جو بائیڈن کو ماہ جولائی کے دوران سعودی عرب آنا پڑا۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ بھی تین گھنٹوں پر محیط ملاقات کی۔ ہر طرح کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا اور یہ زوردار عرضداشت بھی پیش کر کے گئے کہ اوپیک پلس کا اہم حصہ ہونے کے ناطے سعودیہ تیل کی پیداوار میں کٹوتی نہ کرے، بلکہ اضافہ کرے۔ نتیجتاً امریکہ کو کم از کم وسط مدتی انتخابات تک تیل کی قیمتوں میں اضافے کے سبب مہنگائی کی نئی لہر کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تاکہ صدر جو بائیڈن کی موجودگی میں ڈیموکریٹس کی جیت کا امکان مزید کم نہ ہو جائے۔

کیونکہ امریکیوں کے نزدیک صدر جو بائیڈن کی کارکردگی ایسی نہیں رہی کہ وسط مدتی انتخاب ڈیموکریٹس آسانی سے جیت جائیں۔ کارکردگی کی کمزوری سے ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے گیا۔ 

صدر جو بائیڈن کی پیش کردہ عرضداشت کے پیش نظر تیل کی پیداوار میں کمی کے معاملے کو سعودی عرب جتنا لٹکا سکتا تھا اس نے لٹکایا۔ بالآخر اپنی اور اوپیک پلس کے رکن ممالک کے ساتھ ساتھ امریکی معیشت کے طویل المدتی مفادات کے پیش نظر تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ اعلان گویا امریکہ کے  دہن کے مزید بگڑنے کا سبب بن گیا۔

سعودی عرب کو اپنی تیل پیدا کرنے کی حکمت عملی بنانے کا خود اختیار ہے یا نہیں؟ اس بارے میں امریکی آمریت کی اہمیت کیا ہے اور کیا نہیں؟ ان سوالوں سے قطع نظر سعودیہ کے مختلف ذمہ داروں نے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنے کی ضرورت کے بارے میں کافی جواز پیش کیا مگر دوستی کے نام پر دوسرے ممالک کے ساتھ دھما چوکڑی کے عادی امریکہ نے ابھی تک اس پر کان نہیں دھرے ہیں۔

بلاشبہ جس طرح امریکہ کو جنگی جہازوں اور اسلحے سمیت اپنی ہر پراڈکٹ کی قیمت خود مقرر کرنے کا بلا شرکت غیرے حق ہے۔ حتی کہ امریکہ بہادر تو ایف سولہ دوسرے ملکوں سے وصول کرنے کے بعد بھی ان کی ترسیل وفراہمی کو کئی کئی سال تک لٹکا دینے کی روایت رکھتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان کے ساتھ ہو چکا ہے۔ تو دوسروں کو اتنا حق دینا تو اعلیٰ انسانی، تجارتی اور سفارتی و عالمی اقدار کے مطابق ماننا چاہیے کہ وہ بھی اپنی مصنوعات کی قیمت خود مقرر کریں اور جتنی چاہیں پیداوار لیں۔

اوپیک پلس کے فورم پر یقیناً سعودی عرب عزت و وقار کے ساتھ موجود ہے۔ مگر اس فورم کے ہر رکن ملک کے مفادات کی اپنی اہمیت ہے۔ فورم کے ارکان کی رائے اور مفادات فورم پر ہونے والے فیصلوں میں مقدم رکھے جانے سے یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلے کسی ایک ملک اور وہ بھی امریکہ کے خلاف سازش ہیں۔ اوپیک کا فیصلہ نہ ہو گیا ڈونلڈ لو کی گفتگو پر مبنی بدنام زمانہ سائفر ہو گیا۔

اس معاملے کا افسوسناک پہلو محض یہ نہیں ہے کہ ملکوں ملکوں جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکہ کے بارے میں یہ تصور مزید پختہ ہوا ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی آمریت کو قائم رکھنے کے لیے جمہوری نعروں اور انسانی اقدار کو استحصالی ہتھکنڈوں  کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بلکہ امریکی ہدایات، احکامات، ضروریات اور مفادات کے سامنے سجدہ ریز نہ ہونے والوں پر سلامتی کونسل کی قراردادوں سے لے کر دیگر بین الاقوامی فورمز کے فیصلوں کو کوڑوں کی شکل میں حرکت میں لاتا ہے۔ اسی چکر میں دوسرے ملکوں کے نظام ہائے حکومت تنقید کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ اسی ضرورت کے تحت دوسرے ملکوں کی قیادتوں کو برا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اسی مقصد کے لیے بین الاقوامی فورمز کے ساتھ ساتھ این جی اوز کے وابستگان کو اپنے پالتووں کے سے انداز میں اور اپنے سدھائے ہوئے ذرائع ابلاغ کو 'قیمت ادا کرنا ہو گی' کہہ کر دوسروں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

سعودی عرب نے خطے اور دنیا میں ابھرتی ہوئی نئی حقیقتوں کو دیکھ کر اپنے عوام اور ملک کے مفادات کے حوالے سے ایک 'ننھا' سا اقدام کیا ہے۔ بالکل ننھا منا سا اقدام۔ مگر امریکہ کو یہ بھی قبول نہیں ۔۔۔۔ نہ ہو! سعودی عرب کی حیثیت اس رائج عالمی نظام  میں بہرحال اس سیاہ فام 'جارج فلائیڈ' کی نہیں کہ 'سفید گھر '  کا کوئی مقیم جب چاہے اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر دبانا شروع کر دے۔

ذاتی سی رائے ہے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اپنے ملک اور عوام کے لیے جارج فلائیڈ کی طرح کا سلوک پسند نہیں ہے وجہ صاف ہے کہ وہ ایسے کسی بیانیے پر نہیں کھڑے ہیں کہ ’بیگرز ناٹ چوزرز‘ بلکہ ولی عہد  محمد بن سلمان ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ کے بیانیے کو پسند کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ