پائی پائی جوڑ کر بنایا گھر لمحوں میں تباہ: پشاور دھماکہ متاثرین

شمعون طارق پولیس لائنز میں کلاس فور کے ملازم ہیں، ان کے گھر کی دیوار مسجد کی دیوار سے متصل تھی۔

پشاور پولیس لائنز میں گذشتہ ہفتے ہونے والے دھماکے سے مسجد کے عقب میں واقع ایک گھر کی چھت بھی گر گئی اور ایک رہائشی خاتون کی جان چلی گئی۔

’میں نہیں جانتا تھا کہ دھماکے کے نتیجے میں میرے گھر کا کیا حال ہوا۔ جب مجھے لوگوں نے بتایا تو میں گھر کو بھاگا، پولیس کسی کو بھی نہیں چھوڑ رہی تھی۔ میں نے رو رو کر فریاد کی کہ میرا گھر ہے وہاں، مجھے جانے دو۔ جب ادھر پہنچا تو سب کو ہسپتال پہنچایا جا چکا تھا۔ اور گھر گھر نہیں رہا تھا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شمعون طارق نے بتایا کہ وہ پولیس لائنز میں کلاس فور کے ملازم ہیں۔ ان کے گھر کے دو کمروں کی دیوار مسجد کی ایک دیوار سے ملتی ہے۔ دھماکے کے وقت پورا محلہ لرز اٹھا مگر شمعون طارق کا گھر بری طرح متاثر ہوا اور مسجد میں ہونے والے دھماکے نے اسے ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ 

جب گھر کی چھت گری تو اس وقت وہاں شمعون طارق کی نانی، بہن، بھابھی اور بھتیجا موجود تھے جو اس وقت ایک ہی کمرے میں تھے۔ شمعون طارق کی نانی تو موقع پر ہی چل بسیں، جبکہ ان کی بہن کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور بھابھی زخمی ہوئیں۔ شمعون کا کم عمر بھتیجا ماں کے نیچے آ گیا اورہلکی سی خراش سے بھی بچ گیا۔

شمعون طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنا گھر دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ گھر انہوں نے ایک ایک پائی جوڑ کر آباد کیا تھا لیکن اب اس میں ایک جانور رکھنے کی گنجائش بھی نہیں رہی۔ شمعون کی والدہ کترینہ بھی پولیس میں ملازمت کرتی ہیں، وہ ڈیوٹی پر ہونے کی وجہ سے محفوظ رہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شمعون طارق کے مطابق گھر تباہ ہونے کی وجہ سے اب ان کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کا سامان اور مرغیاں بھی ملبے تلے دب گئیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کے توسط سے حکومت سے مدد کی درخواست کی ہے۔

مرنے والوں کی تعداد

اس خودکش دھماکے میں مرنے والے پانچ نامعلوم افراد کی شناخت ہونے کے بعد ایک خاتون سمیت اموات کی کل تعداد 84 ہے۔

ایس ایس پی کوآرڈینیشن ظہور آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس لائنز کی جانب سے مرتب کردہ پہلی فہرست بھی 84 افراد پر مشتمل تھی تاہم متعلقہ تعداد کے علاوہ پانچ نامعلوم افراد بھی تھے، جن کی شناخت اب ہو چکی ہے اور وہ ان 84 افراد میں شامل ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی