خیبر پختونخوا پولیس کا مظاہرہ کتنا تشویشناک؟

پولیس مظاہرے میں شریک ایک مسلح اہلکار نے بتایا کہ ’میں نے خود 30 لاشوں کو کاندھا دیا ہے اور اس کے بعد مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ میں مزید لاشیں اٹھا سکوں۔‘‘

پولیس اہلکار یکم فروری 2023 کو پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش حملے کے ایک دن بعد مظاہرہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پشاور پریس کلب کے باہر گذشتہ روز خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکاروں کا احتجاج ماضی قریب میں ہونے والا شاید پہلا مظاہرہ تھا جس میں باوردی اہلکار شریک ہوئے تھے۔

گذشتہ روز ہونے والا یہ مظاہرہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ اس میں خیبر پختونخوا پولیس کے اہلکار وردی میں نعرہ بازی کر کے پشاور پولیس لائن میں ہونے والے خودکش دھماکے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اس مظاہرے میں 20 سے 30 اہلکار موجود تھے جن میں کچھ وردی میں، تو بعض سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔ پشاور کے علاوہ کے پی کے دیگر شہروں مردان اور صوابی میں بھی ایسے مظاہرے کیے گئے۔

پولیس مظاہرے میں شریک ایک مسلح اہلکار نے بتایا جو تقریباً 10 کلو وزنی بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے تھے کہ ’میں نے خود 30 لاشوں کو کاندھا دیا ہے اور اس کے بعد مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ میں مزید لاشیں اٹھا سکوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جب میں گھر چلا گیا تو میری چھوٹی بیٹی میری آنکھیں چوم رہی تھی اور میرے چہرے کو چھو رہی تھی۔ انہیں تو نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے لیکن شاید ان کو والد کے کھونے کا احساس ہوگیا تھا۔ ہم اس ریاستی نظام سے تھک چکے ہیں اور ہم مزید لاشیں نہیں اٹھا سکتے۔‘

خیبرپختونخوا پولیس کے انسپیکٹر جنرل معظم جاہ انصاری کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ روز ہونے والے اس احتجاج میں شرکت کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جی جائے گی تاہم ان کو تنبیہ ضرور کی جائے گی۔

پولیس کی جانب سے صوبے کے مختلف اضلاع میں احتجاج کے حوالے سے گذشتہ روز خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس معظم جا انصاری کی دفتر سے جاری پولیس کے اعلیٰ افسران کو ایک اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ احتجاج کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے، تاہم ان کو تنبیہ ضرور دی جائے۔

مراسلے میں تمام اعلیٰ افسران کو بتایا گیا ہے کہ ’چند مقامات پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے مظاہرے ان کے اضطراب کی عکاس ہے، اگر چہ یہ عمل پولیس نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے تاہم ان کی جذباتی کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو ساتھ بٹھا کر اعتماد میں لے کر مطمئن کریں۔‘

ان ہی مظاہروں کے حوالے سے آج (بدھ کو) پولیس لائن پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ میرے بچوں (پولیس جوانوں) کو احتجاج پر اکسایا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ ان کو تحفط فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’پولیس کو کسی کے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ وہ خود اپنا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ احتجاج سے میرے لیے ایک نیا کام ڈھونڈ لیا گیا ہے کہ اب میں کبھی جوانوں کے پیچھے مردان تو کبھی صوابی تو کبھی کسی دوسرے ضلعے جاتا ہوں۔‘

پولیس اہلکاروں کے احتجاج پر پولیس فورس کے اندر بھی ایک تشویش ضرور ہے کیوں کہ اس صوبے نے ہزاروں دھماکے اور حملے دیکھے ہیں، جس میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہلکار جان سے گئے ہیں لیکن ایسے مظاہرے پہلے نہیں دیکھے گئے۔

مظاہروں کی وجہ کیا ہے؟

اس معاملے میں انڈپینڈنٹ اردو نے خیبر پختونخوا کے اعلیٰ پولیس افسر سے بات کی تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دو بنیادی باتیں جس سے پولیس کے جوان پریشان ہیں، جن میں ایک بلا امیتاز سکیورٹی چیکنگ ہے۔

انہوں نے بتایا: ’سکیورٹی چیک پوسٹ پر کھڑے پولیس اہلکار بلا امتیاز چیکنگ نہ کرنے کا گلہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بعض اوقات پولیس کے اعلیٰ افسران کی گاڑیاں چیک کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کیوں کہ وہ ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو ان کو معطل کیا جائے۔‘

پولیس افسر نے بتایا کہ ’اسی کے ساتھ پولیس ٹرانسفر پوسٹنگ میں سیاسی مداخلت کا عنصر بھی شامل ہے کہ بعض دفعہ کسی سیاسی بندے کو چیک پوسٹ پر چیک کرنے کے بعد، اسی اہلکار کے خلاف شکایت لگائی جاتی ہے جس سے وہ اہلکار معطل کیا جاتا ہے یا اس جگہ سے ٹرنسفر کر دیا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری بڑی وجہ پولیس افسر کے مطابق مختلف شدت پسند کارروائیاں ہیں جس میں پولیس کو مکمل اختیار نہیں دیا جاتا۔

انہوں نے بتایا، ’بعض دفعہ کسی مشکوک شخص کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیا جاتا ہے لیکن باقاعدہ تفتیش نہ ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جاتا ہے تو جوان یہی کہتے ہیں کہ ہم اتنی مشکل سے کسی کو گرفتار کرتے ہیں اور ان کو دوبارہ آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘

تاہم پولیس افسر کے مطابق ایسا بھی نہیں ہے کہ سارے پولیس اہلکار ایک جیسے ہوں بلکہ پولیس کے اعلیٰ افسران کی جانب سے ان کو واضح احکامات دیے گئے ہیں کہ وہ جس طرح چاہے پولیس چیک پوسٹوں کے وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق چیکنگ کریں۔

انہوں نے بتایا: ’ہم نے ان کو واضح طور کہہ دیا ہے کہ اگر کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہ رکھی جائے بلکہ وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق بلا امتیاز چیکنگ کی جائے۔‘

یہ مظاہرے پولیس فورس کے لیے کتنے تشویشناک ہیں؟

اس حوالے سے سابق قائم مقام آئی جی خیبر پختونخو اور دفاعی امور کے ماہر ڈاکٹر سید اختر علی شاہ نے بتایا کہ صرف پولیس کے لیے نہیں بلکہ یہ حکومت اور اس ریاست کے لیے بھی تشویشناک بات ہے۔

تاہم اختر علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے مظاہرے کرنا ایک فطری رد عمل ہے کیوں کہ جان سے جانے والے ان کے اپنے تھے اور انہوں نے خود ان کے جنازوں کو کاندھے دیے ہیں۔

انہوں نےبتایا: ’اس حالت میں اس طرح کا رد عمل بہت فطری ہے کیوں کہ جان سے جانے والے ان کے دوست، اپنے کمیونٹی کے لوگ تھے۔‘

اختر علی شاہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا ماضی میں ایسے مظاہرے کیے گئے ہیں، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی دور میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کے پولیس کی یونیئں بن گئی تھیں جو اپنے مطالبات کے حق میں مہم چلا رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد پولیس کی از سر نو تنظیم سازی کی گئی اور ان کو کچھ مراعات بھی دی گئیں لیکن اس کے بعد ایسے مظاہرے نہیں کیے گئے لیکن مجھے ایک واقعہ یاد ہے کہ 1988 میں فرنٹیئر کانسٹبلری کے ایک افسر کے خلاف جوانوں نے مظاہرے کیے تھے۔‘

اخترعلی شاہ نے بتایا کہ عوام کی جان و مال کی تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اور تحفظ دینے کے لیے پولیس فورس بنائی گئی ہے لیکن جب پولیس کے گلے شکوے پیدا ہو جائیں تو یہ تشویشناک صورت حال ہے۔

انہوں بتایا: ’مظاہروں میں ایک دوسری فورس کے خلاف بھی نام نہ لے کر نعرے لگائے گئے جو تشویشناک ہے کیوں کہ یہ ادارے دہشت گردی کی روک تھام کے لے بنائے گئے ہیں اور جب ان کا آپس میں تعلق خراب ہو جائے تو یہ تشویشناک ہے۔‘

اختر علی شاہ نے بتایا کہ یہ اب حکومت اور ریاست کہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ جس سے پولیس کے اندر تحفظات کو دور کیا جا سکے اور پولیس کا مورال بلند ہو سکے۔

مشتاق یوسفزئی گذشتہ تقریباً دو دہائیوں سے پشاور میں صحافت کر رہے ہیں اور شدت پسندی کے امور کے ماہر ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں پولیس کی جانب سے ایسے مظاہرے نہیں دیکھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے مظاہرہ بجا ہے لیکن عوام کی ذہنوں میں بھی یہ سوال آتا ہے کہ سکیورٹی خود پولیس کی ہاتھوں میں ہے اور پولیس ہی لوگوں کو روکتی ہے تو یہ عجیب لگتا ہے کہ کنٹرول پولیس کے ہاتھوں میں تھا، لیکن اب وہ شکایت بھی کر رہے ہیں کہ ان کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا: ’شاید پولیس اہلکاروں نے اپنے افسران پر غصے کا اظہار کیا ہے اور کچھ عرصے سے پولیس کے اندر تحفظات موجود تھے اور انہوں نے وہ سارا غصہ اب نکال دیا ہے۔ ایسے نعرے لگائے گئے جو پہلے مختلف سیاسی اور سماجی تنظیمیں لگاتی تھیں لیکن اب پولیس نے لگائے ہیں۔‘

مشتاق یوسفزئی نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے یہ مظاہرے ارباب اختیار اور ریاست کے لیے ایک ’ویک اپ کال‘ ہیں کہ وہ اس مسئلے کو حل کرے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان