پشاور دھماکہ: وزیراعظم کی پی ٹی آئی حکومت پر فنڈز کے معاملے پر تنقید

وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں کہا کہ خیبر پختونخوا کو دہشت گردی سے لڑنے کے لیے این ایف سی ایوارڈ کی مد میں 2010 سے 417 ارب روپے دیے جاچکے ہیں، جس کی بنیاد پر فنڈز کی کمی کی شکایت کا جواز نہیں بنتا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے پشاور حملے کے بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کیا تھا (پی ٹی وی سکرین گریب)

پشاور میں رواں ہفتے ہونے والے حملے کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف نے بدھ کو کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کو دہشت گردی سے لڑنے کے لیے نیشنل فنانس ایوارڈ (این ایف سی) کی مد میں 2010 سے 417 ارب روپے دیے جاچکے ہیں جس کی بنیاد پر فنڈز کی کمی کی شکایت کا جواز نہیں بنتا۔

ملک دہشت گردی کی لہر کی زد میں ہے اور پیر (30 جنوری) کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے حملے کے نتیجے میں اب تک 100 سے زائد اموات ہوچکی ہیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے۔

بدھ کو وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ دی اور کہا کہ ان کے لیے آج کے اجلاس میں سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی کا ہے اور وہ عوام کے سامنے ’حقائق‘ رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے خیبرپختونخوا کی سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت جو کہ صوبے میں 10 سال سے برسرِ اقتدار تھی کی فنڈز کی کمی کی شکایت ’ناقابلِ یقین ہے۔‘

وزیر اعظم نے کہا کہ خیبرپختونخوا دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ رہی ہے اور تمام صوبوں نے اپنے حصے میں سے اس صوبے کے لیے فنڈز مختص کیے۔

’2010 سے پاکستانیوں کی تمام کمائی کا ایک فیصد خیبرپختونخوا کے لیے وقف کیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ فنڈز صوبے کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ان کی صلاحیت بڑھانے جیسے کہ اسلحے کی خریداری، بلٹ پروف گاڑیوں اور سامان، ٹریننگ، سی ٹی ڈی کے قیام اور دیگر سکیورٹی ضروریات کے لیے دیے گئے تھے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے پر سیاست نہیں کر رہے بلکہ وہ اعداد و شمار کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں، حتیٰ کہ ان 13 سالوں میں نیکٹا اور سی ٹی ڈی جیسے اداروں کا قیام بھی عمل میں آیا۔

شہباز شریف نے این ایف سی فنڈ سے متعلق کہا: ’10 سال سے پی ٹی آئی حکومت میں رہی مگر خدا جانے یہ رقم کہاں گئی؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ اتنے سالوں میں انہوں نے وفاق سے ایک روپیہ نہیں بھی نہیں لیا اور اپنے موجودہ وسائل کو عوام کے لیے صرف کیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں اور فوجی آپریشنز جیسے کہ رد الفساد اور ضربِ عضب میں دہشت گردوں کو کاری ضرب لگی ہے، لیکن اب پھر دہشت گردی کا ناسور پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔‘

انہوں نے کسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا: ’کس نے کہا کہ یہ (کالعدم تحریک طالبان پاکستان) مین سٹریم ہوں گے اور پر امن ہوجائیں گے مگر آج ایسا نہیں ہو رہا۔ اس کابینہ کے اجلاس میں دہشت گردی سے سارے مسئلے کم تر ہیں اور یہ سب سے اہم ہے۔‘

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت گذشتہ روز ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔

منگل کو قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’جس طرح کی دہشت گردی ہے اس کے خلاف ضرب عضب آپریشن جیسا اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اے پی ایس سانحے سے کم سانحہ نہیں، جو پشاور میں ہوا۔ اے پی ایس سانحے کے وقت بھی تمام سیاست دان اکٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت قوم کو تمام تر اختلافات کے باوجود اتفاق رائے اور مل بیٹھ کر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اس سے قبل پشاور میں ہونے والے حملے پر سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ یہ نہایت اہم ہے کہ ہمیں اپنی پولیس کو فورس کو بہتر سازوسامان سے لیس کرنا چاہیے اور انٹیلی جنس جمع کرنے کے عمل کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان