اللہ نے زندہ بچانے کے لیے راستہ کھول دیا: پشاور دھماکے کے زخمی

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے کے کئی زخمی اس وقت ہسپتال میں زیر علاج اور ان لمحات کو یاد کر رہے ہیں جب یہ واقعہ پیش آیا۔

پشاور میں پیر (26 جنوری) کو پولیس لائنز کی پرہجوم مسجد میں ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں جبکہ کئی زخمی اس وقت ہسپتال میں زیر علاج اور ان لمحات کو یاد کر رہے ہیں جب یہ واقعہ پیش آیا۔

ہسپتال میں زیر علاج ایک زخمی عبد الرحمٰن نے واقعے کے بارے میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’جیسے ہی ہم نے ظہر کی نماز میں تکبیر کے لیے ہاتھ اٹھائے، اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ ایک بہت بڑا شعلہ میرے چہرے کی جانب لپکا جس نے مجھے دور دھکیل دیا۔ میں دو، تین منٹ کے لیے بے ہوش ہو گیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’میں نے وہاں سے نکلنے کے لیے ایک کھلی جگہ دیکھی جہاں سے روشنی آرہی ہے۔ میں نے ہمت جمع کی اور اللہ نے مجھے طاقت دی اور میں پولیس اہلکاروں کی لاشوں پر رینگتا ہوا اس سوراخ تک پہنچا اور اس طرح اللہ نے مجھے محفوظ رکھا۔‘

پولیس لائنز میں ہونے والا حملہ پاکستان میں ایک دہائی بعد سب سے مہلک حملہ تھا، جو ملک میں پولیس کے خلاف حملوں میں اضافے کا عکاس بھی ہے۔

اس دھماکے کے نتیجے میں مسجد کی بالائی منزل منہدم ہو گئی، جس کے نتیجے میں نماز ظہر ادا کرنے والے سینکڑوں افراد ملبے تلے دب گئے۔ اس واقعے میں کم از کم 170 افراد زخمی بھی ہوئے۔

ایک اور زخمی پولیس کانسٹیبل رب نواز نے بھی اپنی روداد سناتے ہوئے بتایا: ’میں دھماکے کے بعد بے ہوش ہو گیا تھا۔ دو تین منٹ کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو چھت میرے اوپر تھی۔ میں گویا زمین سے چپکا ہوا تھا۔ اللہ نے میرے لیے باہر نکلنے کے لیے ایک راستہ کھول دیا۔ میں نے اپنے سامنے لوگوں کو بہت بری حالت میں دیکھا۔‘

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے منگل کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ جان سے جانے والے 100 افراد میں سے 97 پولیس اہلکار تھے۔

حکام نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ حملہ آور پولیس لائنز کی طرف جانے والی فوجی اور پولیس چوکیوں کو پار کرنے میں کیسے کامیاب ہوا جو کہ شہر کے مرکز میں نوآبادیاتی دور کے ایک کیمپ میں واقع ہے۔

پشاور میں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر مسجد کو پولیس لائنز کے اندر ہی تعمیر کیا گیا تھا تاکہ اہلکاروں کو نماز کے لیے باہر نہ جانا پڑے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر دفاع خواجہ آصف نے واقعے کے بعد بتایا تھا کہ رپورٹ کے مطابق حملہ آور نماز کی پہلی صف میں موجود تھا۔

اب تک کسی گروپ نے باضابطہ طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن پشاور دھماکے کے بعد تمام تر شبہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر گیا، جس نے گذشتہ برس نومبر کے آخر میں حکومت کے ساتھ معاہدے کے خاتمے اور ملک بھر میں حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق گروپ کے ایک کمانڈر سربکف مہمند نے پیر کو ایک ٹوئٹر پوسٹ کے ذریعے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، لیکن 10 گھنٹے سے زیادہ کے بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مساجد یا دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا ان کی پالیسی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایسی کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کو ٹی ٹی پی کی پالیسی کے تحت تعزیری کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تاہم محمد خراسانی کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر نے  اس دھماکے کی ذمہ داری کیوں قبول کی تھی۔

دوسری جانب پشاور کے پولیس چیف نے اس حملے کو  ’سکیورٹی اہلکاروں سے انتقام‘ قرار دیا۔

سٹی پولیس چیف محمد اعجاز خان نے گذشتہ روز خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا: ’ہم عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں فرنٹ لائن پر ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں نشانہ بنایا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان