پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پشاور حملے کے تناظر میں کہا ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ساری قوم کو متحدہ ہونا ہوگا۔
قومی اسمبلی میں منگل کی شام اپنے خطاب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے بیج ہم نے خود بوئے ہیں۔‘
وزیر دفاع نے کہا کہ ’انڈیا اور اسرائیل کی مساجد میں نمازیوں کے ساتھ وہ نہیں ہوتا ہے جو پاکستان میں ہوتا ہے۔‘
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’جنرل ضیا کے دور میں افغانستان میں روس کی مداخلت میں ہم نے اپنی خدمات امریکہ کو کرائے پر دے دیں۔‘
’اس کے بعد دس سال تک ہم اس سے نمٹتے رہے اور پھر 911 آ گیا، اور ایک دھمکی آئی جو نہ جانے اصلی تھی یا جعلی ہم ڈھیر ہو گئے۔ اس سے جنگ ہماری دہلیز تک آ گئی۔‘
دوسری جانب پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت جی ایچ کیو میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں پشاور پولیس لائنز دھماکے میں مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
کور کمانڈر کانفرنس کے شرکا کو ملک بھر میں دہشت گردوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنے اور ان کے سپورٹ میکنزم کے لیے فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جاری انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پیر کو پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں اب تک 100 اموات کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے کیا جانے والا سرچ اور ریسکیو آپریشن مکمل کر لیا گیا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق پشاور پولیس لائنز دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 100 ہو گئی ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ اس وقت 53 زخمی لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
مزید تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں سے سات کی حالت تشویش ناک ہے جو اس وقت آئی سی یو میں داخل ہیں۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں سے زیادہ تر کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
اس سے قبل ایس ایس پی آپریشنز کاشف آفتاب عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس دھماکے میں 95 افراد کے جان سے جانے کی تصدیق کی تھی۔
ادھر آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ ’خودکش حملہ آور مہمانوں کے روپ میں داخل ہوا تھا تاہم وہ مسلح نہیں تھا۔‘
ان کے مطابق حملے میں 12 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
پولیس لائنز مسجد دھماکے کی ابتدائی پولیس رپورٹ (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں لکھا گیا ہے کہ دھماکے میں بارودی مواد کے استعمال کی تصدیق ہوگئی ہے جبکہ ملبے سے ایک تن سے جدا سر بھی ملا ہے۔
پشاور حملے کے بعد وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے سیاسی مخالفین کو پاکستان مخالف عناصر کے خلاف اتفاق سے مقابلہ کرنے کا پیغام دیا ہے۔ اپنی ٹویٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنی سیاسی لڑائی بعد میں لڑ سکتے ہیں۔
Through their despicable actions, terrorists want to spread fear & paranoia among the masses & reverse our hard-earned gains against terrorism & militancy. My message to all political forces is one of unity against anti-Pakistan elements. We can fight our political fights later.
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) January 31, 2023
دوسری جانب ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی کے مطابق ریسکیو اور سرچ آپریشن میں 146 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ جن میں 94 زخمی اور چل بسنے والے 54 افراد شامل تھے۔
ترجمان کے مطابق ریسکیور کو پہلی کال ایک بجکر 18 منٹ پر موصول ہوئی اور چار منٹ میں ایمبولینسز موقعے پر پہنچ گئیں۔
ان کے مطابق ریسکیور کی کارروائی میں 37 گاڑیوں اور 168 اہلکاروں نے حصہ لیا۔
بلال سے جب پوچھا گیا کہ کئی گھنٹوں سے جاری آپریشن کے باوجود ملبہ ہٹانے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’دراصل مسجد کی بیرونی حصے کی چھت گر گئی تھی، جہاں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ملبے کے نیچے مزید لاشیں موجود ہیں اور جلد بازی میں ملبہ ہٹانے سے لاشیں خراب نہ ہو جائیں۔‘
بلال فیضی کے مطابق: ’کل بھی ہم نے بہت احتیاط سے چھت کے ایک حصے میں راستہ بنا کر ملبے تلے دبے کچھ افراد کو بچا لیا تھا، جو زندہ تھے اور انہیں ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی تھی۔‘
پیر کی شب دھماکے میں جان سے جانے والے افراد کی نماز جنازہ پولیس لائنز میں ادا کر دی گئی۔
پولیس لائنز پشاور کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جس کے ایک طرف سینٹرل جیل ہے اور دوسری جانب سروسز ہسپتال ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی اور سول سیکرٹریٹ بھی اسی علاقے میں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دھماکے کے بعد تمام تر شبہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر گیا، جس نے گذشتہ برس نومبر کے آخر میں حکومت کے ساتھ معاہدے کے خاتمے اور ملک بھر میں حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق گروپ کے ایک کمانڈر سربکف مہمند نے پیر کو ایک ٹوئٹر پوسٹ کے ذریعے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، لیکن 10 گھنٹے سے زیادہ کے بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مساجد یا دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا ان کی پالیسی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کو ٹی ٹی پی کی پالیسی کے تحت تعزیری کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم محمد خراسانی کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر نے اس دھماکے کی ذمہ داری کیوں قبول کی تھی۔