ہوش آیا تو بیوی جل کر راکھ ہوچکی تھی: زخمی کوئٹہ دھماکہ

کوئٹہ چمن شاہراہ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ایک ٹرک کے قریب دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے بلیلی میں کوئٹہ چمن شاہراہ پر بدھ کو پولیو ٹیم کی سکیورٹی کے لیے جانے والے بلوچستان کانسٹیبلری کے ایک ٹرک کے قریب خودکش حملے میں ایک پولیس اہلکار سمیت چار افراد ہلاک جبکہ 24 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ترجمان سول ہسپتال کا کہنا ہے کہ ایک مزید شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں جان کی بازی ہار گئے ہیں جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔ مرنے والوں میں ایک بچہ اور ایک خاتون شامل ہیں۔

ظفر علی نامی شہری اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’میں لاہور جا رہا تھا کہ راستے میں پولیس کی بڑی گاڑی کو کراس کر رپہ تھے کہ اسی وقت دھماکہ ہوا اور میجھے کچھ یاد نہیں رہا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جب مجھے تھوڑا ہوش آیا تو گاڑی روڈ سے نیچے پڑی ہوئی تھی اور اس میں آگ لگی ہوئی اور میری بیوی بھی اسی میں جل کر راکھ ہوگئی۔‘

اسی دھماکے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکار شہباز کا کہنا ہے کہ ’جیسے ہی دھماکہ ہوا تو ہمیں پتہ ہی نہیں چلا، جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے پولیس والے بھائی زخمی حالت میں پڑے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ دو گاڑیاں ان کی گاڑی سے آگے بھی تھیں۔ ’جب مجھے ہوش آیا تو دیکھا کہ ان گاڑیوں کے پولیس اہلکار آس پاس کھڑے ہیں۔‘

دوسری جانب ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کوئٹہ غلام اظفر مہیسر نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ’ایک رکشے نے پولیس کے ٹرک کو ٹکر ماری اور ابھی تک یہ بات طے ہوئی ہے کہ یا تو رکشے میں دھماکہ خیز مواد تھا یا اس میں ایک خودکش حملہ آور تھا کیونکہ ایک خودکش حملہ آور کی لاش یہاں سے تھوڑی دور پڑی ہوئی ہے۔‘

ڈی آئی جی کے مطابق: ’پولیس کا ایک ٹرک، ایک مہران اور ایک کرولا کار دھماکے کی زد میں آئی ہیں۔ ٹرک کے نیچے آکر پولیس کا ایک اہلکار شہید ہوا۔‘

ڈی آئی جی نے بتایا کہ پولیس کے 20 کے لگ بھگ اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے دو کی حالت نازک ہے جبکہ چار عام شہری چار زخمی ہیں، جن کا علاج جاری ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جائے وقوعہ کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دھماکے میں 20 سے 25 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔‘

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ’یہ ٹرک پولیو ڈیوٹی کے لیے جا رہا تھا۔ ماضی میں بھی پولیو ٹیم پر حملے ہوئے ہیں۔ یہ نفری بھی پولیو ٹیم کی حفاظت کے لیے جا رہی تھی جبکہ پولیو ٹیم کی گاڑیاں جائے حادثہ کے آس پاس موجود نہیں تھیں۔‘

ایدھی حکام کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیوز میں دھماکے کی شدت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب پیر کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ فائر بندی ختم کرتے ہوئے دوبارہ حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ٹی ٹی پی کی ’وزارت دفاع‘ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ حال ہی میں ضلع بنوں اور لکی مروت سمیت مختلف علاقوں میں عسکری اداروں کی طرف سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف مسلسل کارروائیاں ہو رہی ہیں اور ان حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

بیان میں کہا گیا: ’تمام تحصیل اور اضلاع کے لیڈرز کو حکم ہے کہ ملک بھر میں جہاں بھی آپ کی رسائی ہوسکتی ہے، حملے کریں۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے نواحی علاقے بلیلی میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’پولیو اہلکار ملک سے اس موذی مرض کے خاتمے کے لیے اپنی جان کی پروا نہ کیے بغیر یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں، جس پر میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہباز شریف نے کہا کہ ’شرپسند عناصر ملک سے پولیو کے خاتمے کی اس مہم کو روکنے میں ہمیشہ ناکام رہیں گے۔ پاکستانی قوم، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیو اہلکار شرپسند عناصر کی ان مذموم کوششوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘

اس سے قبل وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بھی کوئٹہ میں بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک کے قریب دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں نے سکیورٹی فورس پر بزدلانہ حملہ کیا، لیکن دہشت گردی کی کارروائیوں سے امن کے قیام کے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان