کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور پاکستانی حکومت کے گذشتہ تقریباً ایک سال سے جاری ’امن مذاکرات‘ کے دوران فائر بندی کی شرط بظاہر ختم ہوگئی ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت نے اپنے تمام کمانڈروں کو پاکستان میں دوبارہ حملے شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی ’وزارت دفاع‘ کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ حال ہی میں ضلع بنوں اور لکی مروت سمیت مختلف علاقوں میں عسکری اداروں کی طرف سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف مسلسل کارروائیاں ہو رہی ہیں اور ان حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
بیان میں کہا گیا: ’تمام تحصیل اور اضلاع کے لیڈرز کو حکم ہے کہ ملک بھر میں جہاں بھی آپ کی رسائی ہوسکتی ہے، حملے کریں۔‘
ٹی ٹی پی کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان میں سیاسی بحران جاری ہے جبکہ پاکستانی فوج کی کمان بھی آج سے نئے سربراہ جنرل عاصم منیر نے سنبھال لی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید بھی ریٹائر ہوگئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے ماضی میں ایک ویڈیو پیغام میں بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ حالیہ مذاکراتی دور جنرل فیض حمید نے شروع کیا تھا اور وہ کالعدم تنظیم کے ساتھ اس ضمن میں ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔
تاہم پاکستانی فوج کی جانب سے ان ملاقاتوں کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا تھا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہو اور نہ ہی فوج کی جانب سے ماضی میں یہ کہا گیا کہ مذاکراتی عمل کی نگرانی جنرل فیض حمید کر رہے تھے۔
مذاکراتی دور: کب، کیا ہوا؟
صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ بیرسٹر محمد علی سیف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات گذشتہ برس اگست میں افغان طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد شروع ہوئے تھے اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔
اس کے بعد رواں سال جون میں قبائلی مشران اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے کچھ اراکین اسمبلی پر مشتمل جرگہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے لیے کابل گیا تھا، جس کی تصدیق ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نے بھی کی تھی۔
اس کے بعد بیرسٹر محمد علی سیف کی سربراہی میں بھی ایک نمائندہ وفد ٹی ٹی پی سے ملاقات کے لیے کابل گیا جس کے حوالے سے ترجمان خیبرپختونخوا حکومت نے اس وقت انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’بات چیت بہت اچھے ماحول میں ہوئی۔‘
اس کے بعد مذاکرات کا یہ عمل اس وقت تعطل کا شکار ہوگیا جب افغانستان میں ٹی ٹی پی کے مرکزی رہنما اور ٹی ٹی پی مذاکراتی کمیٹی کے رکن عمر خالد خراسانی کو نا معلوم افراد کی جانب سے بم حملے میں ہلاک کردیا گیا۔
ٹی ٹی پی کے حمایت یافتہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا، تاہم بیرسٹر محمد علی سیف نے اس وقت واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی نے اگر یہ الزام پاکستان پر لگایا تو مذاکرات تعطل کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اس کے بعد ضلع سوات میں طالبان کی دوبارہ واپسی اور طالبان کی جانب سے ایک پولیس اہلکار اور دو سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو یرغمال بنانے پر بھی شدید تنقید کی گئی تھی جس کے خلاف سوات سمیت صوبے بھر میں عوامی مظاہرے کیے گئے تھے۔
بیرسٹر سیف نے سوات میں طالبان کی واپسی کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’سوات میں طالبان کمانڈر شدت پسندی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بیمار بہن کی عیادت کے لیے آئے تھے۔‘
ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے مابین مذاکراتی دور کے شروع ہوتے ہی فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم حالیہ ہفتوں میں ٹی ٹی پی نے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں سکیورٹی فورسز کے جوانوں، پولیس اور سابق امن کمیٹی کے کچھ اراکین کو نشانہ بنایا ہے اور ٹی ٹی پی کی جانب سے یہی کہا گیا کہ وہ یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کر رہے ہیں۔
تاہم اب باضابطہ طور پر ٹی ٹی پی نے دوبارہ حملوں کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ماضی میں ہونے والے ناکام مذاکرات
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوئے ہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات ہوئے ہیں لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
ماضی میں باجوڑ میں ٹی ٹی پی کے سرکردہ رہنما مولوی فقیر کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع ہوا تھا لیکن اسی دوران باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولہ میں امریکی ڈرون حملہ ہوا جس کی وجہ سے مذاکراتی عمل ختم ہوگیا۔
وزیرستان میں 2004 میں شگئی میں ٹی ٹی پی کے کمانڈر نیک محمد کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اور اسی دوران امریکی ڈرون حملہ ہوا اور مذاکرات ناکام ہوگئے۔
اسی طرح 2014 میں بھی ایک معاہدہ ہوا تھا لیکن اس وقت امریکہ نے حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا اور وہ مذاکرات بھی ناکام ہوگئے تھے۔
حکومت کا کیا موقف ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ٹی پی کی جانب سے فائر بندی کے خاتمے کے اعلان پر خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ بیرسٹر محمد علی سیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے فائربندی ختم کرنے کا اعلان قابل افسوس ہے۔
انہوں نے بتایا: ’یہ اعلان ٹی ٹی پی کی جانب سے ایک جذباتی اعلان ہے اور انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن اب انہوں نے کر دیا ہے تو اس میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ حکومت اب بھی چاہتی ہے کہ مذاکرات ہوں۔‘
بیرسٹر سیف سے جب پوچھا گیا کہ فائر بندی کے خاتمے کا اعلان اور ٹی ٹی پی سے نمٹنا نئے آرمی چیف کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’نئے آرمی چیف ہوں یا سابقہ، ٹی ٹی پی سے فوج نمٹ رہی ہے اور یہ جاری رہے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’فوج اپنی ذمہ داریاں پہلے کی طرح نبھائے گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں اور یہ مسئلہ مذاکرات ہی سے حل ہو سکتا ہے۔‘
بیرسٹر سیف سے جب پوچھا گیا کہ آیا فائربندی کے خاتمے کے اعلان کا لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کی خبروں سے تو کوئی تعلق نہیں؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔
’تعلق تو کیا اس بات کا تو کوئی سینس ہی نہیں بنتا کہ فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے ٹی ٹی پی نے فائربندی ختم کی۔‘
مبصرین کیا کہتے ہیں؟
رفعت اللہ اورکزئی پشاور کے صحافی ہیں اور گذشتہ دو دہائیوں سے شدت پسندی پر رپورٹنگ کرتے آرہے ہیں۔
رفعت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب تو ٹی ٹی پی نے باضابطہ اعلان کیا لیکن پچھلے تین مہینوں سے ٹی ٹی پی نے حملے شروع کر رکھے تھے، حالانہ حکومت کے ساتھ ان کی فائربندی تھی۔
انہوں نے کہا: ’یہ وقت بہت اہم ہے، جس وقت پر انہوں نے فائر بندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک تو ملک میں سیاسی چپقلش جاری ہے جبکہ دوسری جانب ٹی ٹی پی کے حملے بھی جاری ہیں۔ پچھلے تین مہینوں میں ٹی ٹی پی نے تقریباً 136 کارروائیاں کی ہیں۔‘
رفعت اورکزئی نے مزید کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی والے ہفتے میں ٹی ٹی پی نے 16 مختلف کارروائیاں کی ہیں تو یہ ٹی ٹی پی کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا میں ساری کارروائیاں جاری ہیں اور اس میں مزید شدت بھی آئے گی لیکن یہ حملے ذرائع ابلاغ کی نظروں سے اوجھل ہیں اور اس پر بات نہیں کی جاتی کہ اس کا حل کیسے نکالیں۔‘
حکومت کے لیے چیلنج کے حوالے سے رفعت نے بتایا کہ اب اس کے بعد یہ حکومت کے لیے بھی بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ دوبارہ اس قسم کے مذاکرات کا آغاز کریں گے کیوں کہ اب عوام کی جانب سے بہت شدت سے ردعمل سامنے آئے گا۔
انہوں نے کہا: ’اب شدت پسندی کا اگر چھوٹا سا واقعہ بھی ہوتا ہے تو عوام گھروں سے باہر نکل کر مظاہرے کرتے ہیں اور کھلے عام حکومت سے امن اور شدت پسندی کے خلاف اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘