ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں مشکلات آ سکتی ہیں: سابق پاکستانی سفیر

کابل میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان کا کہنا ہے کہ عملی طور پر ٹی ٹی پی کی پرتشدد سرگرمیاں جاری ہیں اور انہیں روکنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے تعلقات کے لیے چیلنج ہو گا۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان اسلام آباد میں ایک سیمینار میں شریک ہیں (منصور احمد خان ٹوئٹر اکاؤنٹ)

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی برقرار ہے لیکن آگے چل کر مذاکرات میں مشکلات آ سکتی ہیں۔

منصور احمد خان 31 اگست 2022 کو افغانستان میں اپنی تعیناتی کی دو سالہ مدت اور وزارت خارجہ کے ساتھ 33 سالہ کیریئر کے خاتمے پر اسلام آباد لوٹے ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ’پاکستانی طالبان کے مطالبات آئین کے اندر رہتے ہوئے تسلیم نہیں کیے جا سکتے۔‘

بقول منصور احمد خان: ’چین اور ازبکستان نے افغانستان میں موجود شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پاکستان نے کابل میں حکومت کی تبدیلی اور افغان طالبان کے ان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کے اعلان کے بعد بات چیت کا آپشن اختیار کیا۔‘

اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سابق پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ افغان طالبان نے ثالثی کی جس سے پاکستان کو امید تھی کہ پاکستانی شدت پسندوں کے مطالبات میں نرمی آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ’پاکستان کسی صورت آئین سے ہٹ کر کچھ نہیں کر سکتا۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ آیا ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلیں گے؟ منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ ’عملی طور پر ٹی ٹی پی کی پرتشدد سرگرمیاں جاری ہیں، انہیں کیسے روکا جائے گا یہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے تعلقات کے لیے چیلنج ہو گا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک ایسے وقت میں کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی اپنے موقف پر قائم ہیں تو درمیانی راستہ کیسے نکلے گا؟ سابق سفیر نے کہا کہ پاک افغان سرحد خصوصاً پاکستان کی طرف اصل قبائلی رہنما اس میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

’وہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ شدت پسندی سے پہلے سے متاثر ہیں تو وہ یہ پیغام بھیج سکتے ہیں کہ انہیں دوبارہ تشدد قابل قبول نہیں ہو گا۔ پھر پاکستان کو افغان طالبان پر واضح کرنا ہو گا کہ وہ ان مذاکرات سے کیا چاہتا ہے۔ اس پر پاکستان کو مزید فوکس کرنا ہو گا۔‘

عام افغان

افغانستان سے پڑھے لکھے لوگوں کے گذشتہ ایک سال سے مسلسل جاری انخلا کو روکنے سے متعلق سوال پر منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ حکمراں جو بھی ہوں عام افغان انفرادی آزادیاں اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول چاہتے ہیں، لیکن ان کی سختیاں بڑھی ہیں۔

’یہ ہوا ہے کہ میڈیا اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں لگی ہیں اور عالمی پابندیوں کی وجہ سے بینکنگ اور کاروبار متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت سے افغان ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور مزید جانا چاہتے ہیں۔ میں مغربی ممالک کو بتاتا رہا ہوں کہ انخلا کا یہ سلسلہ پائیدار حل نہیں ہے، لیکن طالبان کو بھی اپنے ماڈل پر نظرثانی کرنی ہو گی۔‘

تبدیلیاں

طالبان اپنے انتظامی امور میں تو فل الحال تبدیلیاں لا رہے ہیں لیکن بعض معاملات پر انہوں نے کوئی لچک نہیں دکھائی ہے۔ طالبان کے سپریم لیڈر نے منگل کو ایک حکم نامے میں گروپ کے قائم مقام وزیر تعلیم کی تبدیلی سمیت بہت سے قومی اور صوبائی عہدوں میں ردوبدل کا اعلان کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تفصیل جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہیبت اللہ اخوند زادہ کے حکم سے ہیں۔ اس حکم کی بنیاد پر طالبان کے قائم مقام وزیر تعلیم نور اللہ منیر کی جگہ قندھار کی صوبائی کونسل کے سربراہ مولوی حبیب اللہ آغا کو لایا گیا ہے۔

طالبان نے اس تبدیلی کی وجہ واضح نہیں کی لیکن لڑکیوں کے لیے سیکنڈری تعلیم ایک سال سے بند ہے۔

ادھر نیوز چینل افغانستان انٹرنیشنل نے طالبان کے ایک سینیئر اہلکار کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ وزارت تعلیم کے لیے طالبان کے نئے مقرر کردہ وزیر مولوی حبیب اللہ آغا کے پاس نہ تو جدید اور نہ ہی مذہبی تعلیم ہے۔

چینل کے مطابق حبیب اللہ آغا کی تقرری کا مطلب لڑکیوں کے سکول کھولنے کی کوششوں کو ایک ’دھچکا‘ ہے۔

منصور احمد خان ڈپلومیٹک سٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انہوں نے 1992 میں فارن سروس میں شمولیت اختیار کی۔ وہ اس سے قبل بھی چار سال 2009 میں افغانستان میں گزار چکے ہیں۔

طالبان حکومت کا مستقبل

افغان طالبان کی حکومت کے تسلیم کیے جانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور مغربی دنیا طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور مختلف پہلوؤں پر بات چیت جاری ہے لیکن وہ جلد تسلیم کیے جانے کا امکان ابھی نہیں دیکھ رہے ہیں۔

’15 اگست 2021 کو طالبان نئی حکومت نہیں نیا نظام لے کر آئے تھے۔ عالمی طاقتیں اس کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس پر بات چیت جاری ہے کہ کس طرح وسیع البنیاد حکومت، حقوق انسانی اور انسداد دہشت گردی میں تعاون ہو۔ ان معاملات میں پیش رفت میں وقت لگے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ افغان طالبان کے ساتھ گذشتہ 12 سال سے رابطے میں ہے۔ ’اشو ٹو اشو کی بنیاد پر مذاکرات چل رہے ہیں۔‘

پاکستان موجودہ افغان حکومت کو تسلیم کیے جانے کے معاملے پر اب کہاں کھڑا ہے؟ اس حوالے سے منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ماضی کے برعکس اس مرتبہ بڑی واضح پوزیشن لی ہے۔ ’کوئی آؤٹ آف دا وے (out of the way) جا کر ایسا کچھ نہیں کرے گا۔‘

پنج شیر

وادی پنج شیر میں افغان حکومت کے لیے مزاحمتی چیلنج کے بارے میں منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ حالیہ چند ہفتوں میں تشدد بڑھا ہے لیکن پنج شیر اور ایک آدھ دوسرے مقام پر مزاحمت نے ابھی کوئی بڑی شکل اختیار نہیں کی ہے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہوسکتا ہے مزاحمت کو افغانستان سے باہر سے مدد مل رہی ہو۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یوناما) کے مطابق طالبان کی جانب سے شمالی افغانستان کے صوبے پنج شیر میں قیدیوں کو ہلاک کرنے کے الزامات ’قابل اعتبار‘ معلوم ہوتے ہیں۔

پیر 19 ستمبر کو یو این اے ایم اے نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں اشارہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ طالبان کی مخالفت کرنے والے گروپ نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) کی جائے پیدائش پنج شیر میں ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

یوناما نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات شفاف طریقے سے کریں اور مظالم کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور مجرموں کو نتائج کا سامنا کرنے کو یقینی بنائیں۔

منصور احمد خان کی واپسی کے بعد اب پاکستان سفارتی طور پر افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے نیا سفیر تعینات نہیں کرسکتا اور امکان ہے کہ کابل میں اب ناظم الامور بھیجا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان