ملبے کے نیچے سے مدد کے لیے آوازیں آ رہی ہیں: ریسکیو اہلکار

ریسکیو اہلکار کے مطابق پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں خودکش حملے کے بعد مرکزی ہال کے ملبے تلے کئی افراد اب بھی دبے ہیں جنہیں نکالنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔

ریسکیو اہلکار ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں (ریسکیو 1122)

پشاور میں پولیس لائنز کے علاقے میں ظہر کی نماز کے وقت ہونے والے خودکش بم دھماکے میں مسجد کا مرکزی ہال زمیں بوس ہو گیا، جس میں متعدد افراد کی اموات اور زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال فیضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اب بھی کچھ افراد مسجد کے ہال کے نیچے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ان کو نکالنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’مسجد کی چھت منہدم ہونے کی وجہ سے ملبہ نمازیوں پر جا گرا ہے اور ملبے تلے کچھ افراد موجود ہیں جو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔‘

بلال فیضی نے بتایا، ’ہم نے چھت کے اوپر سے راستہ بنا کر نیچے چھ افراد جو ابھی زندہ ہیں، انہیں طبی امداد دی ہے، جس میں ڈرپ، کینولا اور آکسیجن شامل ہیں، اور ملبے کو بھاری مشینری کے ذریعے ہٹایا جا رہا ہے۔‘

انہوں بتایا کہ ابھی تک وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ملبے کے نیچے کتنے افراد پھنسے ہوئے ہیں، لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جتنی جلدی ہو سکے، ملبے کو ہٹایا سکے۔

دھماکے سے زخمی ہونے والے افراد کو قریب ہی واقع لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کینٹ محمد اظہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاحال اموات اور زخمیوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پولیس لائنز مسجد میں خود کش دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’اللہ کے گھر کو نشانہ بنانا ثبوت ہے کہ حملہ آوروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘

پولیس لائنز پشاور کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جس کے بالکل قریب ہی ڈپٹی کمشنر کا دفتر واقع ہے، جب کہ پشاور کی سینٹرل جیل اور سروسز ہسپتال بھی اس سے بہت قریب ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی اور سول سیکرٹریٹ بھی اسی علاقے میں واقع ہیں۔

گذشتہ برس چار مارچ کو پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کے وسط میں واقع کوچہ رسالدار کی جامعہ مسجد میں بھی ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم 63 اموات ہوئی تھیں۔

ابھی تک کسی گروہ یا تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم گذشتہ برس نومبر کے آخر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومت کے ساتھ معاہدے کے خاتمے اور ملک بھر میں حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی نے ملک کے مختلف علاقوں میں حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان