کابل: خود کش حملے میں مرنے والوں کی تعداد 35 ہو گئی

حملے کا شکار بننے والی شیعہ ہزارہ خواتین نے افغانستان میں اپنی برادری کی ’نسل کشی‘ کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔

خواتین یکم اکتوبر، 2022 کو کابل میں حالیہ خود کش حملے کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں (اے ایف پی)

اقوام متحدہ نے ہفتے کو کہا کہ کابل کے ایک کلاس روم پر خودکش بم حملے میں مرنے والوں کی تعداد 35 ہو گئی ہے۔

حملے کا شکار بننے والی شیعہ ہزارہ خواتین نے افغانستان میں اپنی برادری کی ’نسل کشی‘ کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔

جمعے کو کابل کے سکول میں ایک حملہ آور نے خود کو اس وقت دھماکے سے اڑا لیا جب سینکڑوں طلبہ یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات کی تیاری کے لیے امتحان دے رہے تھے۔

کابل شہر کا علاقہ دشت برچی، جہاں یہ دھماکہ ہوا، ہزارہ شیعہ برادری کا گڑھ ہے، جسے حالیہ برسوں میں افغانستان کے کچھ انتہائی وحشیانہ حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا: ’حملے میں ہلاکتوں کی تازہ ترین تعداد کم از کم 35 ہو گئی جب کہ 82 زخمی ہوئے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے مشن کی بتائی گئی ہلاکتوں کی تعداد کابل پولیس کے اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔ طالبان کے مطابق کاج ہائر ایجوکیشنل سینٹر پر حملے میں 20 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہوئے۔

گذشتہ اگست میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان کے لیے سکیورٹی ایک حساس موضوع رہا ہے، جو اپنی حکومت کو چیلنج کرنے والے حملوں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس ہفتے کو درجنوں ہزارہ خواتین نے اپنی برادری کے خلاف تازہ ترین خوں ریزی کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی جو طالبان کی پابندی کی خلاف ورزی ہے۔

تقریباً 50 خواتین نے ’ہزارہ نسل کشی بند کرو‘ اور ’شیعہ ہونا کوئی جرم نہیں‘ جیسے نعرے لگائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاہ لباس اور سر پر سکارف میں ملبوس مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ’ہزارہ کو قتل کرنا بند کرو‘ جیسے نعرے درج تھے۔

عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ خودکش حملہ آور نے صنفی لحاظ سے الگ کیے گئے سٹڈی ہال کے خواتین کے حصے میں دھماکہ کیا۔

مظاہرین میں شامل 19 سالہ فرزانہ احمدی نے بتایا: ’کل کا حملہ ہزارہ اور ہزارہ لڑکیوں کے خلاف تھا۔‘

ان کے بقول: ’ہم اس نسل کشی کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے حقوق مانگنے کے لیے احتجاج کیا ہے۔‘

مظاہرین بعد میں ہسپتال کے سامنے جمع ہوئے اور نعرے لگائے جب کہ درجنوں بھاری ہتھیاروں سے لیس طالبان اہلکار وہاں موجود تھے۔

کسی بھی گروپ نے جمعے کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

حکومت میں واپسی کے بعد سے طالبان نے اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کا عہد کیا ہے۔

تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ جمعے کا حملہ ’افغانستان کے لوگوں کے تحفظ میں طالبان کی نااہلی اور مکمل طور پر ناکامی کی ایک شرم ناک مثال ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا