کابل: خود کش حملے میں مارے گئے ’عالم دین‘ کا پاکستان سے کیا تعلق؟

شیخ رحیم اللہ حقانی داعش کے بارے میں سخت موقف رکھتے تھے۔ وہ افغان طالبان کے بہت قریب سمجھتے جاتے تھے تاہم افغانسان کی موجودہ حکومت میں ان کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔

طالبان حکومت کے نائب ترجمان نے ٹویٹ کی کہ شیخ رحیم اللہ حقانی ’دشمن کے ظالمانہ حملے‘ میں مارے گئے (فوٹو شیخ رحیم اللہ فیس بک)

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مبینہ خودکش حملے میں معروف ’عالم دین‘  شیخ رحیم اللہ حقانی کی موت واقع ہو گئی ہے۔ وہ افغان طالبان کے قریب تھے اور شدت پسند تنظیم داعش کے بارے میں سخت موقف رکھتے تھے۔

رحیم الله حقانی کی موت کی تصدیق افغان طالبان کے نائب ترجمان بلال کریمی نے ٹوئٹر پر کی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’افغانستان کی عظیم ہستی اور عالم دین شیخ رحیم اللہ حقانی بے رحم دشمن کے ظالمانہ حملے میں شہادت کے بلند ترین مقام پر پہنچ گئے ہیں۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق شیخ رحیم اللہ حقانی پر مقامی مدرسے میں خودکش حملہ ہوا۔

کابل کے جس علاقے میں حملہ ہوا وہاں پر انٹیلیجنس کے ضلعی سربراہ عبدالرحمٰن نے روئٹرز کو شیخ رحیم اللہ حقانی موت کی تصدیق کی ہے۔

روئٹرز کے مطابق چار طالبان ذرائع سے پتہ چلا کہ ’ایک معذور شخص نے مدرسے میں داخل ہو کر خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا جو اس نے مصنوعی ٹانگ میں بھرا ہوا تھا۔‘

حملے کے چند گھنٹے بعد، آئی ایس نے اپنے ٹیلیگرام چینلز پر حملے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ بمبار نے اپنی دھماکہ خیز جیکٹ عالم دین کے دفتر کے اندر اڑا دی تھی۔

تاہم، روئٹرز نے حکام اور طالبان ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد کو ’پلاسٹک کی مصنوعی ٹانگ میں چھپایا ہوا تھا۔‘

چار طالبان ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ حملہ آور وہ شخص تھا جس نے پہلے اپنی ٹانگ کھو دی تھی اور اس نے دھماکہ خیز مواد کو پلاسٹک کی مصنوعی ٹانگ میں چھپایا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور ان کے ساتھ بیٹھا اور پلاسٹک کی بارود سے بھری ہوئی مصنوعی ٹانگ کو شیخ کے قریب کرتے ہوئے دھماکہ کر دیا۔

ایک سینیر طالبان عہدیدار نے بتایا کہ ’ہم تحقیقات کر رہے ہیں کہ یہ... شخص کون تھا اور اسے شیخ رحیم اللہ حقانی کے ذاتی دفتر میں داخل ہونے کے لیے اس اہم مقام پر کون لایا تھا۔ یہ امارت اسلامیہ افغانستان کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔‘

شیخ رحیم اللہ حقانی کون تھے؟

شیخ رحیم الله حقانی کا تعلق افغانستان سے تھا۔ وہ افغان طالبان کے بہت قریب سمجھتے جاتے تھے تاہم افغانستان کی موجودہ حکومت میں ان کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ گذشتہ سال افغانستان پر طالبان کے قبضے کے وقت ان کی کچھ ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئی تھیں جن میں وہ طالبان قیادت کے ساتھ دیکھے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نومبر 2020 میں رحیم اللہ حقانی پاکستان میں پشاور کی دیر کالونی کے مدرسہ زبیریہ میں بطور مہتمم کام کرتے تھے۔ انہی دنوں مدرسے میں رحیم اللہ حقانی کے درس کے دوران بم دھماکہ ہوا تھا جس میں وہ محفوظ رہے۔ مدرسے کے نو طلبہ کی جانیں گئیں جن میں سے بعض کا تعلق افغانستان سے تھا۔

اس سے قبل رحیم اللہ حقانی پر پشاور کے علاقے رنگ روڈ پر 2013 میں ناکام حملہ ہوا تھا۔

پشاور دھماکے کے بعد رحیم اللہ حقانی نے حملے کا الزام ’خوارج‘ پر لگایا تھا۔ افغان طالبان داعش سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کے لیے خوارج کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

عبدالسيد سویڈن میں مقیم ہیں اور پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔ ان کے ایک تحقیقی آرٹیکل کے مطابق رحیم اللہ حقانی نے ننگرہار صوبے میں افغان طالبان کی ایک بریگیڈ کی قیادت بھی کی ہے۔

تحقیقی جرنل جیمسٹون میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں عبدالسيد نے لکھا کہ یہ علاقہ افغان طالبان اور مقامی داعش  کے مابین سخت چھڑپوں کے لیے جانا جاتا تھا۔

جھڑپوں کی وجہ دونوں گروہوں کے فرقہ وارانہ نظریات تھے۔ افغانستان کے طالبان اسلام کے حنفی نظریے کے سخت حامی اور سلفی نظریے کے مخالف ہیں جس کی داعش پیروی کرتی ہے۔

شیخ رحیم اللہ حقانی داعش کے بارے میں سخت موقف رکھتے تھے۔ وہ افغان طالبان کے بہت قریب سمجھتے جاتے تھے تاہم افغانسان کی موجودہ حکومت میں ان کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا