افغان طالبان کا ’ظالم‘ سمجھا جانے والا کمانڈر غزنی میں ہلاک

طالبان کے مطابق ‘قندھار سے تعلق رکھنے والے ملا پیر آغا ’خدا داد جنگی صلاحیتوں کے مالک اور پیچیدہ گوریلا حملوں کے ماہر تھے۔‘

غزنی میں حادثے میں تباہ ہونے والی پیر آغا کی گاڑی (تصویر طالبان میڈیا)

افغانستان میں طالبان نے کہا ہے کہ ان کے ایک معروف کمانڈر ملا پیر آغا حج سے واپسی پر کابل سے قندھار جاتے ہوئے غزنی میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کرگئے ۔

طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان کی ہلاکت اور ٹریفک حادثے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پیر آغا ابھی حج سے واپس آئے تھے اور اپنے گھر جا رہے تھے۔

اس ٹریفک حادثے میں دیگر افراد کی ہلاکت اور واقعے کی نوعیت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

افغان صحافی عبدالحق عمری نے اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا کہ پیر آغا قندھار کے سابق پولیس چیف جنرل عبدالرزاق کی گاڑی میں سفر کر رہے تھے کہ ٹریفک حادثے کا شکار ہوگئے۔

قومی سلامتی کے سابق ڈائریکٹر رحمت اللہ نبیل نے، جن کے جنرل رازق کے ساتھ گہرے تعلقات تھے، اس ٹویٹ کو لائیک کیا ہے۔

افغان طالبان کے مختصر بیان میں بتایا گیا کہ قندھار سے تعلق رکھنے والے ملا پیر آغا ’خدا داد جنگی صلاحیتوں کے مالک اور پیچیدہ گوریلا حملوں کے ماہر تھے۔ امارت اسلامیہ کے فتح کابل سے قبل ننگرہار اور کنڑ سمیت کئی صوبوں سے داعش کا صفایا ان کے اہم جنگی کارناموں میں سے ہیں۔‘

تاہم بعض لوگ اور صحافی پیر آغا کو اسلامی تحریک کے مبینہ طور پر ’ظالم ترین کمانڈروں‘ میں سے ایک بھی قرار دیتے ہیں۔ بعض صحافی انہیں طالبان تحریک میں ملا داد اللہ کے جانشین بھی مانتے ہیں۔

1990 کی دہائی میں ملا داد اللہ پر پورے کے پورے دیہات جلانے اور نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا جرم تھا جس کی وجہ سے طالبان کے سپریم لیڈر ملا محمد عمر نے 1997 میں داد اللہ کو برطرف کر دیا تھا۔

القاعدہ کی جانب سے 11/9 حملوں کے بعد امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد داد اللہ کی واپسی ہوئی۔

2006 میں عراق میں ابو مصعب الزرقاوی کے وحشیانہ طریقوں کی طرز پر انہوں نے دشمنوں کے سر کاٹنا شروع کر دیے۔

ملا داد اللہ 2007 میں افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قریب صوبہ ہلمند میں سی آئی اے کی قیادت میں کی گئی کارروائی میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔

امریکی نیوز ویب سائٹ ڈیلی بیسٹ کے مطابق ملا داد اللہ کے جانشین افغان طالبان کے نسبتاً نچلے درجے کے کمانڈر پیر آغا بنے۔

وہ بعد میں تیزی سے دہشت اور ظلم کی علامت بن گئے۔ وہ اس تنظیم کو چیلنج کرنے یا تنقید کرنے کی جرات کرنے والے ہر کسی کو نشانہ بناتے۔

ویب سائٹ کے 2016 کے اس مضمون کے مطابق پیر آغا طالبان کی ایکشن فورس کے سربراہ تھے جو جنوبی افغانستان میں عراق اور شام میں خود ساختہ اسلامی ریاست کے نام نہاد خلیفہ ابو بکر البغدادی کے وفادار جنگجوؤں کی تنظیم داعش پر قابو پانے کے لیے تعینات کیے گئے تھے۔ ان کو یہ ذمہ داری طالبان کے سابق امیر ملا منصور اختر نے دی تھی۔

پیر آغا کو پہلی مرتبہ اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے ملا داد اللہ کے پورے خاندان کو بشمول ان کے چھوٹے بھائی زابل میں ہلاک کر دیا۔

دی بیسٹ نے پیر آغا سے اپنے بھائی کی رہائی کے لیے ملنے والے محمد خان کاکڑ کے حوالے سے بتایا کہ ’ان کی لمبی داڑھی تھی، موٹا جسم اور خطرناک آنکھیں تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد خان کاکڑ نے مزید حلیہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اپنی پوری 60 سالہ زندگی میں ایسا خوف ناک کردار نہیں دیکھا۔ اس کے باہر ایک انسان کی جلد ہے، لیکن اندر سے وہ ایک خطرناک جانور ہے۔ وہ قیدیوں کو مارتا تھا اور شکاری پرندے کی طرح ان پر جھپٹتا تھا۔‘

کابل کے شمال میں سالانگ کے ایک گاؤں کے ایک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ’ہمارے پورے گاؤں کو پیر آغا نے اس لیے گرفتار کر لیا تھا کیونکہ ملا داد اللہ کے بھائی نے وہاں ایک رات گزاری تھی۔ ہماری بےعزتی کی گئی، مارا پیٹا گیا اور آدھی رات کو سخت سردی میں باہر نکال دیا گیا۔‘

پیر آغا کے نام کو بعض افغانوں کا کہنا تھا کہ وہ رات کو بچوں کو ڈرانے کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔

افغان طالبان کے ایک سینیئر رہنما کا کہنا ہے کہ پیر آغا کے زیر کمان زابل، اروزگان، لوگر، میدان اور غزنی صوبوں میں تقریباً 1200 طالبان جنگجو تھے۔

تاہم طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور انہیں تحریک کے ایک مفید اور موثر کمانڈر کے طور پر جانتے ہیں۔ تحریک نے ان کی ہلاکت پر ان کی مسجد الحرام میں ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا