کشمیر: لشکر طیبہ کا کمانڈر بی جے پی کا رہنما نکلا

جموں و کشمیر پولیس کی جانب سے دیے گئے بیان کے مطابق ’ریاسی کے ٹکسن ڈھوک نامی گاؤں کے دیہاتیوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لشکر طیبہ کے دو مطلوب ترین عسکریت پسندوں کو دبوچ کر ہمارے حوالے کر دیا ہے۔‘

پولیس نے ملزمان کی شناخت طالب حسین ولد حیدر شاہ ساکن راجوری اور فیصل احمد ڈار ولد بشیر احمد ڈار ساکن پلوامہ کے طور پر کی (تصویر: جموں و کشمیر پولیس)
 

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع ریاسی میں گرفتار کیے جانے والے لشکر طیبہ کے دو مبینہ عسکریت پسندوں میں سے ایک ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا رہنما نکلا ہے۔

جموں و کشمیر پولیس نے اتوار کو مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے اطلاع دی کہ ریاسی کے ٹکسن ڈھوک نامی گاؤں کے دیہاتیوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لشکر طیبہ کے دو مطلوب ترین عسکریت پسندوں کو دبوچ کر ہمارے حوالے کر دیا ہے۔

پولیس نے ان کی شناخت طالب حسین ولد حیدر شاہ ساکن راجوری اور فیصل احمد ڈار ولد بشیر احمد ڈار ساکن پلوامہ کے طور پر کی۔

تاہم پولیس نے جوں ہی دیہاتیوں کے ہاتھوں دبوچے جانے والے عسکریت پسندوں کی تصویریں جاری کیں تو کانگریس اور حزب اختلاف کی دوسری سیاسی جماعتوں نے یہ کہہ کر بی جے پی پر شدید لفظی حملے شروع کر دیے کہ ان میں سے تو طالب حسین نامی عسکریت پسند بی جے پی کا رہنما ہے۔

طالب حسین رواں برس مئی میں مبینہ طور پر جموں میں بی جے پی کی اقلیتی ونگ یا مائنارٹی مورچہ کے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ سوشل میڈیا انچارج مقرر کیے گئے تھے۔

کانگریس نے سوشل میڈیا پر طالب حسین کی کئی تصویریں شیئر کی ہیں جن میں انہیں بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ، بی جے پی جموں و کشمیر کے صدر رویندر رینہ، رکن پارلیمان جگل کشور شرما اور دیگر سینیئر رہنماؤں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ طالب حسین کب سے بی جے پی میں تھے لیکن کانگریس کی طرف سے سامنے لائے جانے والے ایک تقرر نامے کے مطابق انہیں رواں سال نو مئی کو بی جے پی مائنارٹی مورچہ کی انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ سوشل میڈیا سیل کا سربراہ بنایا گیا تھا۔

کانگریس کی طرف سے کی جانے والی ایک ٹوئٹ میں کہا گیا: ’حقائق کی جانچ – کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالب حسین نے دو ماہ قبل بی جے پی سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن ان کی حالیہ تقرری کے خط پر درج تاریخ نو مئی 2022 ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹھیک ایک ماہ اور 24 دن پہلے انہیں جموں صوبے کا آئی ٹی اینڈ سوشل میڈیا انچارج مقرر کیا گیا تھا۔‘

پارٹی نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ طالب حسین ’فل ٹائم لشکر کمانڈر‘ اور پارٹ ٹائم ’بی جے پی آئی ٹی سیل کا انچارج‘ تھا۔

بی جے پی کو گذشتہ دنوں اودے پور میں نوپور شرما کے ’توہین آمیز بیان‘ کی مبینہ طور پر حمایت کرنے والے ہندو درزی کے قتل میں ملوث دو لوگوں میں سے ایک کی بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ تصاویر کی وجہ سے بھی تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا۔

طالب حسین کی گرفتاری

جموں کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس مکیش سنگھ کے مطابق پولیس کافی دنوں سے طالب حسین کی تلاش میں تھی۔

’یہ راجوری میں لشکر طیبہ کا بہت بڑا دہشت گرد تھا۔ کچھ ہی دن پہلے اس کے گھر سے پانچ گھریلو ساختہ بم برآمد ہوئے تھے اور اس کے دو ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ راجوری میں پولیس اور فوج کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے ریاسی آیا تھا۔

’اتوار کو ٹکسن ڈھوک کے نہتے دیہاتیوں نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالب حسین کو پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھی سمیت دبوچ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں کے پاس اے کے 47 رائفلیں، ہتھ گولے اور دیگر اسلحہ و گولہ بارود تھا۔‘

پولیس نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ طالب حسین پاکستان میں مقیم لشکر طیبہ کمانڈر قاسم کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا اور راجوری ضلع میں شہری ہلاکتوں اور گرینیڈ دھماکوں کے علاوہ کم از کم تین آئی ای ڈی دھماکوں میں ملوث تھا۔

’ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ دونوں دہشت گرد لشکر طیبہ کے ایک پاکستانی ہینڈلر سلمان سے بھی رابطے میں تھے۔‘

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے طالب حسین اور ان کے ساتھی کو پکڑنے والے دیہاتیوں کے لیے بالرتیب دو اور پانچ لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔

’بی جے پی دہشت گردوں کا استعمال کر رہی ہے‘

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ اودے پور قتل میں ملوث شخص کے بعد اب راجوری میں گرفتار لشکر طیبہ سے وابستہ عسکریت پسند کے بی جے پی سے سرگرم روابط رہے ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا: ’حکمران جماعت اپنے فرقہ وارانہ تقسیم اور نفرت کے ایجنڈے کو دوام بخشنے کے لیے مجرمانہ عناصر خواہ وہ گاؤ رکشک ہوں یا دہشت گرد کو استعمال کر رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ذرا سوچیے کہ اگر ان مجرموں میں سے کسی کا تعلق کسی بھی اپوزیشن لیڈر سے ہوتا۔ اب تک متعدد ایف آئی آر درج ہوئی ہوتیں اور گودی میڈیا نے اپوزیشن کو بدنام کرنے کے لیے اسے حد سے زیادہ پرائم ٹائم سپیس دی ہوتی۔‘

جموں و کشمیر میں تعینات کانگریس کے صدر رویندر شرما نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بی جے پی کی رینکس میں ’خونخوار دہشت گردوں‘ کا ہونا ایک سنگین اور تشویشناک بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ’مس کال پارٹی‘ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ملک و سماج کے لیے خطرہ ہیں۔

’میں ریاسی کے ٹکسن ڈھوک علاقے کے لوگوں کو بہت مبارک باد دینا چاہتا ہوں جنہوں نے خونخوار دہشت گرد طالب حسین کو ہتھیار اور ایک ساتھی سمیت پکڑا۔ اس کا جموں میں بی جے پی کے آئی ٹی اور سوشل میڈیا سیل کا سربراہ ہونا اور دو دھماکوں میں ملوث ہونا اس جماعت کی ملک کے تئیں وفاداری کو ثابت کرتا ہے۔

’اسی طرح راجستھان کے اندر جو بہت بڑا دردناک قتل عام ہوا اس میں بھی بی جے پی کا ایک عہدیدار ملوث تھا۔‘

’پارٹی میں دہشت گردوں کو پلانٹ کیا جا رہا ہے‘

کشمیر میں تعینات بی جے پی کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ قوم دشمن عناصر ہماری جماعت کی آن لائن ممبرشپ کا فائدہ اٹھا کر اس میں ’دہشت گردوں‘ کو پلانٹ کر رہے ہیں۔

’ہماری ممبرشپ آن لائن ہوتی ہے۔ اس میں ہم لوگوں کا بیک گراؤنڈ چیک نہیں کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد تنظیمیں اپنے لوگوں کو ہماری جماعت میں پلانٹ کر رہی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا مقصد بی جے پی رہنماؤں کو جانی نقصان پہچانا ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بے شک طالب حسین پارٹی کا عہدیدار تھا لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسے بھی پارٹی رہنماؤں کو نقصان پہچانے کے مقصد سے ہی پلانٹ کیا گیا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی اس کی پارٹی رکنیت منسوخ کر دی گئی تھی۔‘

الطاف ٹھاکر نے مزید کہا کہ پارٹی نے اس واقعے کے پیش نظر آن لائن رکنیت حاصل کرنے والوں کی فلٹریشن شروع کر دی ہے۔

’فلٹریشن یا ویریفیکیشن کے ذریعے پارٹی میں شامل کیے جانے والے سبھی قوم دشمن عناصر کو باہر کا راستہ دکھایا جائے گا۔‘

جموں و کشمیر میں بی جے پی کے جنرل سیکرٹری (آرگنائزیشنز) اشوک کول نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہم ہر طرح کی دہشت گردی کو کچلنا چاہتے ہیں اور جو ہمارے اندر بھی دہشت گردی ہے اسے بھی کچلنا چاہتے ہیں۔

’طالب نو مئی کو پارٹی کے مینارٹی مورچے میں عہدیدار بنائے گئے تھے لیکن 27 مئی کو اس نے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ جو الزامات لگ رہے ہیں اُن میں کوئی سچائی نہیں ہے۔

’ایسے لوگ ایک منصوبے کے تحت سیاست میں گھستے ہیں لیکن اگر ایسا کوئی آیا ہے تو پھر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنام کام کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا