پشاور دھماکہ ڈرون حملہ نہیں تھا، حملہ آور کو ٹریس کر لیا: آئی جی

آئی جی خیبر پختونخوا نے بتایا کہ پولیس کے جوانوں سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے پولیس کی وردی دیکھ کر حملہ آور کو جانے دیا۔

خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس معظم جاہ انصاری نے پشاور پولیس لائنز کی مسجد پر ڈرون حملے کی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خودکش دھماکہ تھا اور حملہ آور کو ٹریس کرلیا گیا ہے، جو پولیس کی وردی میں ملبوس تھا۔

30 جنوری کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 100 سے زائد اموات ہوچکی ہیں جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ جان سے جانے والوں میں زیادہ تعداد پولیس اہلکاروں کی تھی، جس کے بعد صوبائی پولیس کے سکیورٹی اقدامات پر بھی تنقید کی گئی۔

پشاور میں جمعرات کو پریس کانفرنس کے دوران معظم جاہ انصاری حملے کے بعد صوبائی پولیس پر ہونے والی تنقید پر سخت برہم نظر آئے۔

انہوں نے پشاور حملے کو ’اپنی کوتاہی‘ قرار دیتے ہوئے خیبرپختونخوا کے پولیس اہلکاروں پر ہونے والی تنقید کا جواب دیا اور کہا کہ ان کے جوانوں سے غلطی ہوئی۔ وہ ہر کسی کو ٹریس نہیں کر سکتے۔

معظم جاہ انصاری کے مطابق حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس اور موٹر سائیکل پر آیا تھا، جس نے ماسک پہن رکھا تھا، لیکن خیبر روڈ سے ملنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں اس کا چہرہ دیکھ لیا گیا ہے۔

آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ ان کے جوانوں سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے اپنی وردی دیکھ کر، اپنا بھائی سمجھ کر اسے جانے دیا۔

ساتھ ہی انہوں نے پشاور دھماکے کے بعد منظر عام پر آنے والی ’سازشی تھیوریوں‘ اور تنقید کے جواب میں کہا: ’میں آپ کو یہ بتاؤں کہ یہ افواہیں، یہ سازشی تھیوریاں، یہ فضول باتیں ہیں۔ میرے لوگوں کو، میرے بچوں کو احتجاج پر اکسانا میری تکلیف میں اضافہ کر رہا ہے۔‘

پولیس لائنز مسجد پر حملے کے بعد گذشتہ روز پشاور پریس کلب کے باہر خیبر پختونخوا پولیس کے جوان نعرہ بازی کرتے ہوئے دھماکے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مظاہرے میں 20 سے 30 پولیس اہلکار موجود تھے، جن میں سے بعض وردی میں تو بعض سول کپڑوں میں ملبوس تھے۔ پشاور کے علاوہ مردان اور صوابی میں بھی ایسے مظاہرے کیے گئے۔

صوبائی پولیس پر تنقید اور ان کے احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے آئی جی نے پولیس جوانوں کو ’اپنے بچے‘ قرار دیا اور کہا: ’میرے بچوں کو مجھے ڈیل کرنے دیں، مجھ سے بہتر انہیں کوئی نہیں جانتا۔‘

 

انہوں نے کہا کہ ’ہم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے نزدیک ہیں۔ جو اس انتشار کی وجہ بنا اور جس نے خیبرپختونخوا پولیس پر ظلم کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے ایک ایک شہید کا بدلہ لیں گے، قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔‘

واقعے کے حوالے سے گردش کرنے والی مختلف قیاس آرائیوں کا ذکر کرتے ہوئے آئی جی پولیس نے کہا کہ ڈرون حملے کی بات کی جا رہی ہے۔ ’میڈیا نے پہلے دن دیکھا کہ چھت زمین پر گری ہوئی ہے، اس کی ایک اینٹ نظر آرہی ہے۔ ڈون کوئی سوئی تھا کہ اندر چلا گیا، اس سے چھت میں سوراخ ہونا چاہیے تھا۔۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’پھر کوئی کہتا ہے کہ بہت بڑا مواد یا دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا۔۔ جب دھماکہ زمین پر پڑے کسی مواد کا ہوتا ہے، آئی ای ڈی پھٹتا ہے تو زمین میں گڑھا پڑتا ہے، مجھے کوئی گڑھا دکھا دیں، بالکل فضول بات ہے۔‘

معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ دھماکے کے نتیجے میں شاید پانچ دس لوگوں کی اموات ہوئی ہوں گی، لیکن مسجد کی 50 سال پرانی چھت کے گرنے سے زیادہ اموات ہوئیں، جس کے نیچے کوئی ستون نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب دھماکہ ہوا تو شاک ویو کی وجہ سے دیواریں گریں اور پھر چھت گری، جس کے نتیجے میں اتنی زیادہ اموات ہوئیں۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ حملے کے بعد ’ابھی ہم جنازوں کی تدفین سے فارغ نہں ہوئے تھے، انویسٹی گیشن ٹمیں اپنا کام کر رہی تھیں کہ ایک نیا طوفان شروع ہو گیا کہ آپ کے پاس یہ نہیں ہے، وہ نہیں ہے، سازش کے تانے بانے شروع ہو گئے۔‘

بقول آئی جی: ’میرے بچے اپنا قاتل، اپنا دشمن خود ڈھونڈ سکتے ہیں، وہ اپنا تحفظ بھی خود کریں گے، ملک کا بھی کریں گے اور عوام کا بھی کریں گے، اللہ نے ان کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان