مجھے یاد ہے ہم کیسے قہقہے لگاتے تھے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے ہم کیسےاس بے ہودگی پر بےوقوفوں کی طرح کھلکھلا کر ہنستے تھے۔ ہم سب ایک نوجوان خاتون کو پہنچنے والی تکلیف میں برابر کے شریک تھے۔ اس بات کو یاد کرنا مجھے آج بھی شرمسارکرتا ہے۔
جب 1998 میں امریکی صدر بل کلنٹن اور 22 سالہ انٹرن مونیکا لیونسکی کے افئیر کی خبر سامنے آئی۔ وہ خبر جس کے بارے میں وہ جھوٹ بولتے رہے اور مونیکا کو ’وہ عورت‘ کہہ کر پکارتے رہےاور مزید جھوٹ بولتے رہے۔ دنیا نے اس بارے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی۔ خبروں کے لیے یہ مصالحہ لازم وملزوم ہو چکا تھا۔ سیکس، دھوکے اور سازش کی ایک کہانی اور ایک صاف لباس جو داغدار ہو چکا تھا۔ اس کہانی نے ایک صدارت کو تقریبا انجام تک پہنچا دیا تھا جو کہ ایک بہت بڑی بات تھی۔ لیکن ایک نوجوان لڑکی کی زندگی برباد ہونے کا احساس نہ ہونے کے برابر تھا۔ پریس نے مونیکا لیونسکی کو برا بھلا کہا، اس کے دوستوں نے اس سے تعلق ختم کر دیا، ایسا ہونا ہی تھا۔ 27 سالہ قید کی دھمکیاں اور ایف بی آئی کی اذیت ناک تفتیش۔ کیا یہ ایک شاندار کہانی نہیں ہے؟
آج بیس سال بعد ہم عمر میں تھوڑے بڑے، عاقل اور عوامی طور پر شرمندہ کرنے کے معاملے میں محتاط ہو چکے ہیں۔ می ٹو نے ہمیں تھوڑے توقف کا موقع دیا ہے۔ طاقتور مردوں کے ساتھ ہمیں ہمارے تلخ تجربات اور باقیوں کے بارے میں دوبارہ سے سوچنے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔ ہالی وڈ بھی اس بارے میں نظرثانی کر رہا ہے۔ صرف ہاروے وینسٹن کے معاملے کو نظر انداز کرنے پر نہیں بلکہ ان کہانیوں پر جو سامنے آرہی ہیں۔ اس ہفتے خبر آئی ہے کہ امریکن کرائم سٹوری جو ایک تنقیدی فکشن ڈرامہ ہے اورجس میں جیانی ورساشے کے قتل اور او جے سمپسن کے مقدمے کی کہانی بیان ہو چکی ہے، اب مونیکا لیونسکی کے معاملے اور اس کے بعد مواخذے کے عمل کو سامنے لائے گا۔ یہ سیریز ریان مرفی نے جیفری ٹوبن کی کتاب ’آ واسٹ کانسپریسی‘ میں درج کردہ حقائق پرمبنی ہے اور مونیکا لیونسکی اس سیریز میں ایگزیکٹو پروڈیوسر ہوں گی۔ مونیکا لیونسکی نے وینیٹی فئیر کو بتایا کہ وہ اس سیریز کا حصہ بننے سے ہچکچا رہی تھیں لیکن آخر انہیں قائل کر لیا گیا کہ یہ ان کی طرف کی کہانی سنانے کا اچھا موقع ہے۔
اس سے پہلے والی سیریز کے معیار کو دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی خبر ہے۔ یہ حقیقت بھی قابل تعریف ہے کہ مرفی نے اس کتاب کو 2017 میں منتخب کیا لیکن مونیکا کے اس سیریز کا حصہ بننے تک اس کو ٹی وی پر لانے سے انکار کر دیا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے گذشتہ سال ہالی وڈ رپورٹر کو بتایا کہ :’ میں نے مونیکا کو بتا دیا تھا کہ کوئی آپ کو آپ کی کہانی نہیں سنا سکتا اور یہ بہت احمقانہ بات ہے اگر کوئی ایسا کرتا ہے۔ آپ کو اسے پرڈیوس کرنا چاہیے اور آپ ہی کو منافع کمانا چاہیے۔‘ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیسے بیس سال بعد مونیکا کسی پر اس بات کا بھروسہ کر سکتی ہیں کہ انہیں باعزت طریقے سے دکھایا جائے گا اور بطور متاثرہ فریق کے روپ میں ہی دکھایا جائے گا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2015 میں مونیکا نے انٹرنیٹ پر پہلی بار ایک دل خراش لیکن پرجوش ٹیڈ ٹالک میں شرمساری کا شکار ہونے والی شخصیت کے طور پر اپنا تجربہ بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا :’ ایک ہی رات میں مجھے ایک عام انسان سے عوامی طور پر شرمندگی کا شکار ایک عالمگیر شخصیت بنا دیا گیا۔ مجھے ایک طوائف، جسم فروش، تیز طرار، قابل نفرت خاتون اور ’وہ عورت ‘ بنا دیا گیا۔ یہ بھلا دیا گیا کہ ’اس عورت‘ کی بھی کوئی عزت ہے، وہ بھی روح رکھتی ہے اور وہ بھی کسی وقت مضبوط ہوتی تھی۔‘
تب سے ہی طاقت اور سیکس کے متعلق کی جانے والی گفتگو بلند ہو چکی ہے۔ اس نے خواتین کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے تلخ تجربات بیان کر سکیں۔ می ٹو نے ان پدرشاہی روایات پر کاری ضرب لگائی ہے جو غلط کاریوں کے باوجود طاقت اور مقام رکھنے والے مردوں کو عورتوں کا استحصال کرنے کی اجازت دیتی تھی۔ سکرپٹ رائٹر اور ہدایات کار بھی ان موضوعات پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس موسم بہار دی نیو یارکر کی ایملی نسبم نے ان ٹی وی سیریز کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ: ’ایسا محسوس ہوتا ہے یہ سیریز می ٹو کی تحریک سے متاثر ہو کر بنائی جا رہی ہیں جو ایسے معاملات کو نہ صرف بے نقاب کر رہی ہیں بلکہ ان پر چوٹ بھی کر رہی ہیں۔‘ ایملی کے مطابق ایسی ہی سیریز میں سے ایک،’ دی بولڈ ٹائپ‘ تین نوجوان لڑکیوں کی کہانی ہے جو صحافت شروع کر رہی ہیں۔’ فوس ویغدوں‘ جس میں کورئیوگرافر باب فوس اور رقاصہ گون ویغدوں کے مشکل رشتے کو دکھایا گیا ہے۔ اور منسوخی کا شکار ہونے والی اینیمیٹڈ سیریز ’توکا اینڈ برٹی ‘شامل ہیں۔
یہ سننے میں بہت اچھا لگتا ہے لیکن جب آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقی جرائم پر مبنی سیریز اب سب سے زیادہ بنائے جا رہے ہیں جن کو ڈراموں یا تحقیقاتی رپورٹس کی شکل دی جاتی ہے۔ ان میں مردوں کو کرشماتی قاتلوں کے روپ میں دکھایا گیا ہے جبکہ خواتین کو ان کی خاموش متاثرین دکھایا جا رہا ہے۔ اس سال ہم ڈزنی کی سابقہ سٹار خوبصورت خاتون زیک ایفرون کو وقت سے پہلے منظر عام سے ہٹتے دیکھ چکے ہیں جب ٹیڈ بنڈی نے ایک سیریز کو شوخی بھرے ایکسٹریملی وکڈ، شاکنگ ایول اینڈ ویل کا نام دیا اور ایک اور دستاویزی فلم ’کنورسیشن ود آ کلر‘ منظر عام پر آئی۔ دی ٹیڈ بنڈی ٹیپس جن میں بنڈی اپنی معصومیت کا دعوی کر رہے ہیں۔ اس وقت سنیما میں کوئنٹن ٹرانٹینو کی ’ونس اپون آ ٹائم ان ہالی وڈ‘ جو چارلس مینسن کے بارے میں ہے۔ جس میں مارگٹ روبی مینسن کی شکار شیرون ٹیٹ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت خوبصورت دکھ رہی ہیں۔ گو کہ مرد ابھی فلمیں لکھنے اور ہدایات کاری کے معاملے میں مردوں کی تعداد خواتین سے کافی زیادہ ہے۔ اس سال کے کین فلم فیسٹول کو ہی دیکھ لیں۔ انیس منتخب فلموں میں سے صرف چار کی ہدایت کاری خواتین نے کی ہے۔
تبدیلی دھیرے دھیرے ہی آتی ہے۔ اچھی نیت اور لگاتار بیانات کے باوجود، مردوں کی کہانیوں اور مردوں کے گھورنے کے باوجود فلموں اور ٹی پر مردوں کی اکثریت ہے۔ یہ قطعی حیران کن نہیں کہ مونیکا لیونسکی اپنی کہانی سنانے سے ہچکچاتی رہی ہیں۔ زندگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ دنیا بھروسے کے قابل نہیں ہے اور اسے عزت نہیں ملے گی اور یہ بھی کہ ایک طاقتور مرد کچھ بھی کر کے کچھ بھی کہہ کر موجودہ سٹیٹس کو برقرار رکھے گا۔ یہ شرمندگی ہمارے لیے ہے، مونیکا کے لیے نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب اس معاملے کو سدھارا جائے۔
© The Independent