آسام کے روایتی رقص بیہو کا ورلڈ ریکارڈ اور دولہ شاہ کے ’چوہے‘

بیہو کے رقص اور لوک موسیقی نے اس وقت پوری دنیا کی توجہ سمیٹی جب تقریباً 11 ہزار تین سو خواتین رقاص اور مرد سازندے گوہاٹی سٹیڈیم میں پرفارمنس کے لیے جمع ہوئے۔ 

روایتی بیہو رقص پورے آسام میں بےحد مقبول ہے (Diganta Talukdar - CC BY-SA 4.0)

بیہو کا میلہ انڈیا کی مشرقی ریاست آسام کے لوک کلچر کی جان ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈھول جیسے روایتی سازوں کی تھاپ پر رقص کرتے اور اپنا جیون ساتھی منتخب کرتے ہیں۔

گذشتہ جمعرات تقریباً 11 ہزار نوجوان روایتی رقص و موسیقی کے لیے اکٹھے ہوئے اور گینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ میں نئی تاریخ رقم کی۔ حکومت نے شرکت کرنے والے ہر فرد کو 25 ہزار روپے انعام دیے۔

کاش پاکستان میں بھی کبھی ایسا منظر دیکھنے کو ملتا، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں مقامی ثقافت کو اجاگر کرنے کی بجائے قومی بیانیہ تشکیل کرنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور زیادہ تر وسائل اسی پر صرف ہوتے ہیں۔

سرسبز پہاڑ، گھنے جنگل، خوش رنگ پرندے، چائے کے باغات اور رقص و موسیقی آسام کی پہچان ہے۔ جب خطے کے روایتی لوک کلچر کی بات ہو تو ذہن کے پردے پر سب سے پہلے بیہو کا نقش ابھرتا ہے، ایک روایتی فوک رقص جو پورے آسام میں مقبول ہے اور خاص طور پر بہار کے تہوار بوہگ بیہو یا رونگالی بیہو کے دوران پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تہوار اپریل کے وسط میں منایا جاتا ہے جو آسام کے روایتی کیلینڈر میں نئے سال کا آغاز ہے۔

 بیہو پیش کرنے کے لیے رقاص روایتی رنگین آسامی لباس پہنتے ہیں۔ خواتین بالعموم شوخ رنگ روایتی ساڑھی پہنتی ہیں جسے ’میخیلہ‘ کہا جاتا ہے۔ خواتین اس بات کا خاص اہتمام کرتی ہیں کہ ان کے بھاری بھرکم زیورات اور لباس کے رنگ میں مماثلت ہو۔

اس کے علاوہ بالوں کی چٹیا یا جوڑا بنانا اور اس میں ہلکے رنگ کا پھول ٹانکنا خواتین میں عام ہے جو ستارے کی طرح جگمگاتا ہے۔ آسام کے کسی بھی لوک میلہ میں خواتین ملبوسات کو خوبصورت اور بھاری زیورات کے ساتھ جوڑتی ہیں اور وہ اپنی چوٹیاں بھی خوبصورت پھولوں سے سجاتی ہیں جو ان کے پہننے والے لباس کے رنگ سے بالکل میل کھاتی ہیں۔ 

مرد روایتی شرٹ نما قمیض، نیچے سفید دھوتی اور ماتھے پر سلک کا پٹکا باندھتے ہیں جسے روایتی زبان میں گاموچا بولتے ہیں۔ کناروں پر کڑھائی اور بیل بوٹے دونوں کے لباس کا سانجھا پہلو ہے۔ 

جوانی کے جذبات سے بھرپور بیہو رقص میں نوجوانوں کے ہاتھ اور پاؤں کی تیز حرکت کے ساتھ جسم کی گردش اسے دو آتشہ کر دیتی ہے۔  بیہو میں گائے جانے والے گیت محبت کے موضوعات کے گرد گھومتے ہیں جن کے الفاظ عشقیہ جذبوں کی کھلم کھلا ترجمانی کرتے اور آتشیں احساسات کو ہوا دیتے ہیں۔ 

بیہو کی پرفارمنس کے لیے مرد و خواتین کا اکٹھا ہونا ایک نہیں دو عالمی ریکارڈز ہیں۔ پہلا اتنی بڑی تعداد میں روایتی رقص کی پیشکش اور دوسرا اتنی بڑی تعداد بجانے والے لوک موسیقی سے وابستہ سازندے۔

کسی بھی لوک رقص کا ایک اہم حصہ روایتی موسیقی ہے اور بیہو کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ بیہو کی پرفارمنس کے دوران بہت سے آلات استعمال کیے جاتے ہیں جیسے ڈھول، پیپا، تال، ٹوکا، زوتولی، گوگونا وغیرہ اور ان سب کے تال میل سے مجموعی سحر انگیز ماحول تشکیل پاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک ساز کو اندر سے نکال دیجئے تو ساری فضا دھندلی اور بے کیف ہو جائے گا۔

آسام میں یہ بات مشہور ہے کہ یہاں کے باشندوں کو بیہو میلہ اور اس میں بجنے والی لوک موسیقی پر تھرکنے سے زیادہ کوئی اور چیز خوش نہیں کر سکتی۔ صدیوں سے چلے آتے بیہو کے رقص اور لوک موسیقی نے گذشتہ ہفتے اس وقت پوری دنیا کی توجہ سمیٹی جب تقریباً 11 ہزار تین سو خواتین رقاص اور مرد سازندے گوہاٹی سٹیڈیم میں پرفارمنس کے لیے جمع ہوئے۔ 

اتنی بڑی تعداد میں ’ایک ہی مقام پر بیہو کی سب سے بڑی پرفارمنس‘ کے لیے آئے مرد اور خواتین کا اکٹھا ہونا ایک نہیں دو عالمی ریکارڈز ہیں۔ پہلا اتنی بڑی تعداد میں روایتی رقص کی پیشکش اور دوسرا اتنی بڑی تعداد بجانے والے لوک موسیقی سے وابستہ سازندے۔ 

یہ پرفارمنس تقریباً 15 منٹ جاری رہی جسے مقامی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ پرفارمنس 13 اپریل کو پیش کی گئی تھی جسے اگلے روز وزیراعظم نریندر مودی کے سامنے دہرایا گیا جنہوں نے گلے میں گاموچا ڈال رکھا تھا۔

گنیز ورلڈ ریکارڈ کے سرکاری سرٹیفکیٹ آسام حکومت کے حوالے کیے جائیں گے کیونکہ اس کا اہتمام مقامی حکومت نے کیا تھا۔ 

اس موقعے پر آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا کہنا تھا کہ ’یہ تمام آسامی لوگوں کے لیے ایک خوشی کا اور یادگار دن ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر خود کو ایک قابل فخر نسل کے طور پر پیش کرنا ہے۔‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سے آسام اور اس کے ثقافتی ورثے کو دنیا میں ایک نئی شناخت ملے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آسام کی لوک موسیقی اور رقص سے ہمارا پہلا تعارف بمل رائے کی فلم ’مدھومتی‘ تھی۔ سلل چودھری نے ’بچھوا‘ جیسا خوبصورت گیت کمپوز کیا جو آج آسام کے کلچر میں فوک گیت کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ 

بہت بعد میں گلزار کی فلم ’ردالی‘ کی موسیقی نے اپنے سحر میں لیا تو معلوم ہوا اس کے موسیقار بھوپن ہزاریکا ہیں جو آسام کا بہت بڑا نام ہیں۔

گلزار نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ ’بھوپن دا کے گیتوں میں وہاں کے عوام کی تصویر نظر آتی ہے۔ وہ تصویر اجتماعی بھی ہے انفرادی بھی۔ ایک پورا لینڈ سکیپ جس میں ایک نمائندہ مزدور، چاہے وہ ماہی گیر ہو، رمیا مچھیرا اور اس کی مچھلی ہو یا پالکی اٹھانے والا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈولا اٹھائے جا رہا ہو۔۔۔ کیا ایسا نہیں لگتا جیسے بھوپن ہزاریکا کویتا نہیں گا رہے آسام کا کلچر گنگنا رہے ہیں۔‘

آسام کے وزیر اعلیٰ نے بیہو رقص اور موسیقی میں شرکت کرنے والے ہر فرد کو 25 ہزار روپے دیے اور اپنے لوک کلچر پر فخر کا اظہار کیا۔ انڈیا کے وزیراعظم نے وہاں اپنی موجودگی، لباس اور گفتگو سے مقامی ثقافت کی حوصلہ افزائی کی۔ ممکن ہے اسے بھارتی قومیت پرستی کی حالیہ لہر سے جوڑا جائے مگر انڈیا نے ہمیشہ اپنے مقامی ورثے پر فخر کیا۔ یہ رویہ وہاں کے ہر خطے میں نظر آتا ہے۔ 

آسکر ایوارڈ جیتنے کے بعد اے آر رحمان نے تمل زبان میں ایک فقرہ بولا۔ بعد میں ایک انٹرویو کے دوران وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے تقریر تیار نہیں کی تھی، ذہن میں تھا کہ اگر آسکر جیت گیا تو بس ’شکریہ‘ بول کر منچ چھوڑ دوں گا۔ لیکن مجھ سے پہلے ایک سپینش آرٹسٹ نے ایوارڈ وصول کیا اور اپنی مقامی زبان میں چند لفظ بولے۔ مجھے اچھا لگا اور پھر میں نے بھی یہی کیا۔‘

یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ آسکر جیسے بڑے سٹیج سے اپنی زبان سن کر تمل بولنے والوں کو کیسا محسوس ہوا گا۔ ایک ہم ہیں کہ اپنے بچوں سے بھی مقامی زبان میں بات کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران بھی جب بیرونِ ملک جا کر بات کرتے ہیں تو انگریزی ہی کا انتخاب کرتے ہیں۔

ہماری قومی شناخت میں مقامی زبان، لوک ثقافت، رقص اور موسیقی کی گنجائش کبھی نہیں رکھی گئی بلکہ انہیں دبایا گیا۔ ریاست نے اپنی کمزور بنیادوں کو بھرنے کے لیے ایسی ہر پہچان کو زمین دوز کرنا ضروری سمجھا۔ تنوع کے بجائے یک رنگی، گہرائی کے بجائے سطحیت۔

فلم جیسا عام آدمی کا میڈیم ختم ہو کر رہ گیا۔ سینیما اگر ہے بھی تو ان لوگوں کا جو سنے پیکس میں جا سکیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم سب دولے شاہ کے چوہے بن گئے۔ سر سلامت رہے، دماغ پچک گئے۔ بھوپن ہزاریکا آسام کا کلچر گنگناتے تھے اور ہم ایک اجنبی زبان کے چند الفاظ مالا جپتے، منہ سے جھاگ بہاتے ارطغرل کے سپاہی بنے پھرتے ہیں۔ ہم ڈھول اور بانسری کے بجائے ڈنڈے لہراتے ہیں۔ رقص ہماری قومی شناخت کے لیے خطرہ ہے سو ہم رقص بسمل پر اکتفا کرتے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ