’ہسپانوی رقص فلیمنکو کی گائیکی قوالی سے متاثر ‘

کراچی میں آرٹس کونسل اور سپینش قونصلیٹ کی جانب سے فلیمنکو ڈانس کا انعقاد کیا گیا جو تماشائیوں کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اپنی نسشتوں پر کھڑے ہو کر داد پیش کی۔

سپین کے شہر سویل سے تعلق رکھنے والا چار فنکاروں پر مشتمل ثقافتی طائفہ پچھلے چند ہفتوں سے پاکستان کے مختلف شہروں میں سپین کے مقامی اور 18 ویں صدی سے چلتے آرہے ڈانس فارم فلیمنکو کے پروگرام کر رہے ہیں۔ اس تسلسل کا آخری پروگرام گزشتہ رات کراچی کے آرٹس کونسل میں ہوا۔

فلیمنکو ڈانس کرنے والی رقاصہ کمپانیہ چونی اور وکٹر براوو نے چار الگ الگ لباسوں میں فلیمنکو ڈانس کے مختلف پہلو دکھائے اور اپنے رقص کے ذریعے دو پیار کرنے والوں کی دکھ بھری داستان بیان کی۔ اس گروپ میں دو رقاصہ، ایک گلوکار اور ایک گٹارسٹ شامل ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پرفارمنس کے دوران گلوکار نے مکمل کہانی ہسپانوی زبان میں بیان کی جس کی عکاسی دونوں ڈانسرز نے اپنے ڈانس کے ذریعے کی مگر حاظرین کو سپینش زبان کا ایک لفظ سمجھ نہ آیا۔

اس کے باوجود رقص ختم ہونے سے قبل ہی تمام حاضرین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر داد دی جو کہ ایک بار پھر رقص ختم ہونے بعد بھی دی گئی۔

اس شو کی ڈانسر کمپانیا چونی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے دنیا بھر میں فلیمنکو ڈانس کیا ہے لیکن پاکستانیوں کی ستائش ناقابل یقین تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے جیسے ہی سٹیج پر قدم رکھا تو ہمارا انتہائی محبت اور جوش و جذبے سے استقبال کیا گیا۔ یہ دیکھ کر ہمیں محسوس ہوا کہ یہ پبلک بہت اچھی ہے اور ان کے لیے ہم پریشر میں نہیں بلکہ دل سے ڈانس کریں گے۔‘

کمپانیا چونی نے بتایا کہ ’ہم نے اس سے قبل اسلام آباد، فیصل آباد اور لاہور میں بھی اپنے شوز کیے لیکن ہمیں کراچی میں جو ریسپانس ملا وہ بہت بہترین تھا۔‘

چونی نے مزید کہا کہ ’یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ ہے لیکن میں امید کرتی ہوں کہ یہ میرا آخری دورہ نہ ہو۔ مجھے پاکستانی عوام کا محبت بھرا استقبال اور جذبہ سخاوت بہت اچھا لگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فلیمنکو ڈانس زندگی میں ہونے والے تمام معاملات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں محبت، دکھ، موت کا لمحہ، محبوب سے بچھڑنے کا درد اور دیگر زندگی کے اہم معاملات کو بیان کیا جاتا ہے۔

کمپانیا نے رقص کا خاص پہلو بتاتے ہوئے کہا کہ ’سپینش زبان نہ سمجھنے کے باوجود بھی آپ اس فلیمنکو کے ذریعے کو بیان کی گئی کہانی کو سمجھ سکتے ہیں کیوں کہ ڈانسرز کے تاثرات اور ان کے ایکشنز اور گلوکار کے الفاظ ہو بہو ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دونوں میں ذبردست ربط ہوتا ہے۔‘

کراچی آرٹس کونسل میں فلیمنکو ڈانس پرفارمنس کے موقعے پر موجود سپینش کونسلیٹ کے کونسل جنرل مینوئل ڈوران گیمنیز ریکو نے کہا کہ ’مجھے بہت خوشی ہے کہ آج ہم نے سپین کے مشہور فلیمنکو ڈانس کا پاکستان میں شو کیا۔ یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستانی سپین کو اس کے آرٹ اور کلچر کے لیے سمجھیں نہ کہ گوگل اور یوٹیوبس ے حاصل کی گئی معلومات سے۔‘

ریکو نے مزید بتایا کہ ’فلیمنکو کی گائیکی صوفی کلام اور قوالی سے متاثر ہے۔ جس طرح سے یہ سپینش گلوکار گا رہا تھا مجھے وہ قوالی کے جیسا ہی لگتا ہے۔ اس لیے میں قوالی بھی بہت شوق سے سنتا ہوں۔‘

ریکو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’آج کے شو میں ہم نے یہ دیکھا کہ فلیمنکو ڈانس کتنا متاثر کن ہے۔ یہ ایک یونیورسل ڈانس فارم ہے جو کہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ پاکستانیوں سے بہتر اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس کی مثال ہم نے آج دیکھی جب مداہوں نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکے آرٹسٹس کو داد دی، جو کہ ان کے لیے ناقبل یقین تھا۔‘

فلیمنکو ڈانس کیا ہے؟

فلیمینکو ایک ڈانس ہے جو کہ جنوبی سپین کے مختلف لوک موسیقی روایات پر مبنی ہے۔

وسیع تر معنوں میں، فلیمنکو ایک پورٹ مینٹیو اصطلاح ہے جو جنوبی سپین کی مخصوص عصری اور روایتی موسیقی کے مختلف انداز کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

فلیمینکو میوزک کا قدیم ترین ریکارڈ 1774 میں شائع ہونے والی کتاب لاس کارٹاس ماریوکاس میں موجود ہے جو حوزے کیڈالسو کی کتاب ہے۔ حوزے رائل ہسپانوی فوج کے کرنل، مصنف، شاعر، ڈرامہ نگار اور مضمون نگار، ہسپانوی روشن خیال ادیب تھے۔

16 نومبر 2010 کو، یونیسکو نے فلیمینکو کو انسانیت کا ورثہ قرار دیا۔

فلیمینکو پرفارمنس میں، عام طور پر گانا، گٹار، تالیاں بجانا اور رقص ہوتا ہے۔

  فلیمنکو کی پرفارمنس موسیقی کے مختلف فارمز میں تقسیم ہوتی ہے جسے ’پالوس‘ کہا جاتا ہے۔ ہر پالو میں تال، موڈ اور دھن کے لحاظ سے موسیقی کی خصوصیات کا ایک الگ مجموعہ ہوتا ہے۔

کسی بھی کنسرٹ کی طرح ایک فلیمینکو پرفارمنس گانوں کی ترتیب پر مشتمل ہوتی ہے۔

ہر گانا مختلف پالو استعمال کرے گا اور ہر پالو موسیقی اور رقص کا لہجہ، تال اور موڈ سیٹ کرتا ہے۔ کچھ گانے/پالوس مدھم ہوتے ہیں، کچھ خوش مزاج، کچھ تیز ہوتے ہیں جبکہ کچھ دھیمے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان