قائداعظم یونیورسٹی میں ’ہوجمالو‘ کی دھنوں پر رقص کی روایت

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں سندھ سے تعلق رکھنے والے طالب علم ہر جمعے کو سندھی لوگ گیت ’ہو جمالو‘ پر رقص کرتے ہیں۔

تالیوں کے شور پر ہوا میں ہاتھ لہراتے، سندھی لوگ گیت ہوجمالو گنگناتے اور رقص کرتے، یہ ہیں اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے سندھ سے تعلق رکھنے والے طالب علم، جو ہر ہفتے باقاعدگی سے اسی طرح رقص کرتے ہیں۔

’ہوجمالو‘ سندھ کا ایک قدیم لوک گیت ہے، جسے خوشی اور جشن کے موقع پر گایا جاتا ہے، جبکہ رقص اس گیت کا لازمی جز سمجھا جاتا ہے۔

ہوجمالو کی تاریخ کے حوالے سے بہت سارے حوالے دیے جاتے ہیں، تاہم تاریخ نویس اور محقق اس پر الگ الگ  موقف رکھتے ہیں۔

کچھ تاریخی کتابوں میں اس گیت کا آغاز برصغیر پر انگریزوں کے راج کے دوران روہڑی سکھر کے درمیان دریائے سندھ پر بنائے گئے لینسڈائوں پل پر ریل گاڑی کے چلانے کے تجربے کے وقت بتایا جاتا ہے۔

روایت ہے کے انگریز حکومت نے جب بغیر پلر کے تعمیر کردہ لینسڈائوں پل پر ریل گاڑی چلانے کا فیصلہ کیا تو کوئی بھی انجن ڈرائیور یہ رسک لینے کو تیار نہ ہو رہا تھا۔

تاہم سکھر جیل میں پھانسی کی سزا پانے والے قیدی جمالو شیدی سے کہا گیا کے اگر وہ ریلوے انجن کو چلانا سیکھ کر ٹرین کو پل سے گزارے تو اس کی سزا معاف کردی جائے گی۔

جمالو شیدی نے یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے پل پر سے ٹرین کو گزارنے میں کامیاب ہو گیا تھا، اور بعد میں اس کی سزا معاف کر دی گئی۔

کہتے ہیں کے جب جمالو باآسانی ٹرین کو پل پار کراکے آئے تو پہلی بار ان کی بیوی نے یہ گیت گایا:

ہو جمالو واہ واہ جمالو

منھنجو کھٹی آیو خیر سان ہو جمالو

(ترجمہ: ہو جمالو واہ واہ جمالو

میرا جیت کے آگیا خیر سے، ہو جمالو)

خوشی کا یہ گیت عام طور پر شادیوں میلوں، ملاکھڑوں اور تہواروں پر گایا جاتا ہے۔

کچھ تاریخ دان اس گیت کو عربوں اور سموں کے دور حکومت کا گیت بھی قرار دیتے ہیں۔

سندھی طلبہ ہر ہفتے ہو جمالو کیوں گاتے ہیں؟

قائد اعظم یونورسٹی کے سندھ سے تعلق رکھنے والے طلبہ ہر جمعے کو یونیورسٹی کے گیٹ پر اکھٹے ہوتے ہیں اور ایک مخصوص میدان میں ہو جمالو گیت گاتے اور رقص کرتے ہیں۔

یہ طلبہ ہر ہفتے باقاعدگی سے ہوجمالو کیوں گاتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انڈپنڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے طارق حفیظ نامی لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے تاریخ کے طالب علم کا کہنا تھا کہ ہو جمالو سندھی ثقافت کا ایک اہم جز ہے، اور قائد اعظم یونیورسٹی میں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات اپنی اپنی ثقافتوں کو اجاگر کرتے ہیں تو وہ اپنا یہ گیت گاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طارق حفیظ بتاتے ہیں قائد اعظم یونورسٹی میں پاکستان کی ہر ثقافتی اکائی کے طالب علموں کی الگ الگ کونسلز قائم ہیں جو اپنی اپنی ثقافتوں کے فروغ کے لیے کام کرتی ہیں۔

ان کونسلز میں پنجاب سٹوڈنس کونسل، پشتون کونسل، سرائیکی  کونسل، بلوچ کونسل، گلگت بلتستان کونسل، کشمیر کونسل شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے طالب علموں کی تنظیم مہران کونسل کہلاتی ہے، جس میں کشمور سے کراچی تک سے تعلق رکھنے والے بغیر مذہبی تفریق کے طلبہ و طالبات شامل ہیں۔  

سندھ سے تعلق رکھنے والے انہیں طلبہ نے ہو جمالو گیت میں کچھ ترامیم بھی کی ہیں، جن میں گانے میں سندھ سے تعلق رکھنے والے مرحوم سیاسی رہنماوں کے ناموں کی شمولیت شامل ہے۔

ہو جمالو میں بینظیر بھٹو، جی ایم سید، رسول بخش پلیجو، بشیر خان قریشی وغیرہ کے نام شامل کیے گئے ہیں، جبکہ ماضی کے سورماوں کے علاوہ سندھ میں پائے جانے والے قدرتی ذرائع اور اہم مقامات کا ذکر بھی اس گیت میں ڈالا گیا ہے۔ 

ہوجمالو میں ترامیم کیوں کی گئیں؟

ہو جمالو میں تبدیلیوں سے متعلق سوال کے جواب میں طارق حفیظ کہتے ہیں کہ ’ہوجمالو سندھ کی غیر مادی ثقافت کا حصہ ہے، اور اسی لیے مہران کونسل نے اس گیت میں معدنیات، اور سندھ دھرتی پر پائے جانے والے قدرتی وسائل اور شخصیات کا ذکر شامل کیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس