قرآن و حدیث میں حضرت آدم و حوا کے زمین پر اتارے جانے کا تو ذکر ہے لیکن کہاں اتارے گئے اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔
البتہ تفسیر کی کتابوں میں آتا ہے کہ یہ مقام سراندیپ یا موجودہ نام سری لنکا ہے اور اسی ملک کے ایک پہاڑ پر حضرتِ آدم کو اور حضرت حوا کو جدہ میں اتارا گیا۔ چوں کہ جدہ کے معنی دادی کے ہیں اس لیے جدہ کو حضرت حوا سے منسوب کیا جاتا ہے۔
چار مذاہب کے لیے متبرک
سری لنکا میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر انسانی قدموں سے مشابہ ایک نشان ہے جس کی لمبائی 67 انچ اور چوڑائی 18انچ ہے۔ اسے سنہالی زبان میں ’سری پادا‘ یعنی ’مقدس قدم کا نشان‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پہاڑ سات ہزار 559 فٹ بلند ہے جس کی چوٹی بھی کوہِ آدم سے ہی موسوم ہو گئی ہے۔
تاہم یہ چوٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہندوؤں، بدھ مت اور عیسائیوں کے لیے بھی یکساں متبرک مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ سری لنکا کے تین دریاؤں کا منبع بھی یہی پہاڑ ہے جہاں پر یاقوت اور نیلم کے پتھروں کی فراوانی ہے۔
سید سلیمان ندوی کے شاگرد مولانا خواجہ بہاالدین اکرمی کی تصنیف ’عرب و دیار ہند‘ بیسویں صدی کے اوائل میں چھپی تھی۔ اس میں لکھا ہے کہ ’سری لنکا کے پہاڑ کی چوٹی پر موجود یہ نشان مسلمانوں، ہندوؤں اور بدھوں کے لیے متبرک ہے۔ مسلمان اس کو حضرت آدم کے قدموں کا نشان سمجھتے ہیں۔ ہندوؤں کے نزدیک یہ نشان ان کےخدا شیوا کے قدموں کا ہے جبکہ بدھوں کا یہ ایمان ہے کہ یہ نشان بدھا کے قدموں کا ہے جو سری لنکا تین بار آئے تھے۔‘
انڈیا کے معروف تاریخ دان سنت پائے رائکر لکھتے ہیں کہ ’سولہویں صدی میں سری لنکا آنے والے پرتگالی اور مسیحی سیاحوں کا خیال ہے کہ یہ قدم سینٹ تھامس کے ہیں۔ یہ دنیا کی واحد جگہ ہے جو دنیا کے چار بڑے مذاہب کے ماننے والوں کے نزدیک مقدس ہے۔‘
ابن بطوطہ کوہِ آدم پر
چودہویں صدی کے مشہورِ زمانہ سیاح ابنِ بطوطہ اس پہاڑ پر اپنی سیاحت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’ہم سفر کرتے ہوئے سیلون کے جزیرے پر جا نکلے جہاں سے اس پہاڑ کی چوٹی نظر آتی تھی۔ جب ہم بندرگاہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ ڈاکوؤں کا پر خطر علاقہ ہے جو سمندر میں جہازوں کو لوٹتے ہیں۔ یہاں کا راجہ ڈاکوؤں کا سردار ہے۔
’ہم یہاں اترنا نہیں چاہتے تھے لیکن سمندر کے خراب موسم کی وجہ سے چارہ نہ تھا، اس لیے میں کنارے پرا ترا تو کچھ لوگ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ تم کون ہو؟
’میں نے کہا کہ میں مصر کے بادشاہ کا ہم زلف ہوں اور بادشاہ کے لیے کچھ تحائف لے کر آیا ہوں۔
’انہوں نے راجہ کو خبر کی۔ راجہ نے مجھے بلا بھیجا۔ راجہ نے میری آمد کی وجہ تو پوچھی تو میں نے کہا کہ میں یہاں مقدس قدم کی زیارت کرنے آیا ہوں۔ سیلون میں حضرت آدم کو ’باوا‘ اور اماں حوا کو ’ماما‘ کہتے ہیں۔
’راجہ نے غلام میرے ہمراہ کیے جو مجھے ایک جھولے میں اٹھا کر پہاڑ پر لے گئے۔ چار جوگی، تین برہمن، 10 اہلکار اور 15 لوگ میرا سامان اٹھانے والے بھی ساتھ بھیجے۔ ہم منڈالی پہنچے جہاں کے راجہ نے ہماری دعوت کی۔ اس شہر میں سوائے ایک خراسانی کے کوئی مسلمان نہیں تھا جو پہاڑ پر ہی جا رہا تھا۔‘
ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ ’پہاڑ کی چوٹی پر جانے کا اولین راستہ شیخ عبد اللہ بن حتیف نے دریافت کیا تھا۔ یہاں ایسے درخت ہیں جن کے پتے نہیں جھڑتے اور رنگ رنگ کے نکلتے ہیں۔ یہاں ہتھیلی کے برابر سرخ گلاب کا پھول ہوتا ہے، لوگوں کا گمان ہے کہ ان میں اللہ محمد کا نام قلم قدرت سے لکھا ہوا ہے۔ یہاں سے قدم تک جانے کے دو راستے ہیں ایک کو ’باوا کا راستہ‘ کہتے ہیں اور دوسرے کو ماما کا، یعنی آدم و حوا کے راستے۔
’ماما کا راستہ آسان ہے اور باوا کا دشوار گزار۔ پہاڑ میں سیڑھیاں کھدوائی گئی ہیں جن کے ساتھ لوہے کی زنجیریں لگائی گئی ہیں جنہیں پکڑ کر اوپر کی طرف چڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ دس زنجیریں ہیں، دسویں زنجیر سے غار ِ خضر تک سات میل کا فاصلہ ہے۔ یہاں سے زائرین قدم کی طرف چڑھتے ہیں۔
’یہ قدم باوا آدم کے قدم کا نشان ہے جو ایک سخت سیاہ پتھر میں ہے جو سطح سے اونچا ہے اور میدان میں ہے۔ قدمِ مبارک پتھر میں گھسا ہوا تھا اور اس کا نشان بن گیا۔ یہاں اہلِ چین آتے تھے وہ انگوٹھے کی جگہ کو پتھر میں سے توڑ کر لے گئے تھے اور جا کر شہر زیتون کے ایک مندر میں رکھ دیا تھا۔
’ہندو زائرین یہاں پتھر میں سونا اور چاندی رکھ جاتے ہیں۔ اس لیے فقیر جب غار خضر میں پہنچتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے پہنچ کر جو سونا چاندی موجود ہو اسے لے لیں۔ ہم جب وہاں پہنچے تو اس میں تھوڑا سا سونا اور جواہرات موجود تھے۔ دستور یہ ہے کہ زائر لوگ تین دن غار خضر میں قیام کر کے یہاں حاضری دیتے ہیں۔‘
تاریخ کیا کہتی ہے؟
تاریخ میں کوہِ آدم کا پہلا تذکرہ ہمیں وہاں کے ایک بادشاہ وجے بھاو اوّل کے ہاں ملتا ہے جس کا دور 1055 سے 1110 قبل مسیح کا ہے۔ وہاں ایک پتھر پر کندہ ہے کہ بادشاہ نے گلمالے گاؤں کے لوگوں کو تاکید کی کہ وہ یہاں آنے والے زائرین کا خیال رکھیں۔ اسی دور میں یہاں پہاڑ پر چڑھنے کے لیے راستے بنائے گئے۔
بادشاہ نسان کمالا، جس کا عہد 1187-96 کا ہے، کے دور میں یہاں قدم کے اردگرد مضبوط حد بندی کی گئی۔ بادشاہ پارا کرما دوم جس کا عہد 1225-69 کا ہے اس کے وزیر دیوا پرتھی راجہ نے پہاڑ پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بنائیں اور ان کے ساتھ لوہے کی زنجیریں لگائیں تاکہ زائرین انہیں پکڑ کر اوپر چڑھ سکیں۔
کوہِ آدم کا ذکر چھٹی صدی عیسوی میں لکھی گئی تمل زبان کی رزمیہ نظم ’مانیمکالی‘ میں بھی آیا ہے جس میں اسے جواہرات کا جزیرہ کہا گیا ہے۔ چینی سیاح فاہین بھی یہاں پانچویں صدی کے اوائل میں آیا تھا۔ انیسویں صدی میں کئی یورپی سیاحوں نے بھی اپنے سفرناموں میں اس کا ذکر تسلسل کے ساتھ کیا ہے۔
یونیسکو کے مطابق یہاں سالانہ 20 لاکھ لوگ آتے ہیں۔ سری لنکا کی اساطیری روایات پر مشتمل کتاب ’مہاومسا‘ کے مطابق بدھا 550 قبل مسیح میں سری لنکا آئے تھے جنہوں نے ایک قدم انورادھا پورہ میں دوسرا سر پادا (کوہِ آدم) پر رکھا تھا۔