’راج‘ جو زمیں کا بوجھ اٹھاتی تھی

راولپنڈی کے گھروں میں کوڑے اٹھانے والی ایک خاکروب کی کہانی، جو تمام علاقے کی غلاظت اپنے ٹوکرے میں جذب کر لیتی تھی مگر معاشرے نے اس کا حق کبھی تسلیم نہیں کیا۔

 دو جون 2000 کی اس تصویر میں ملتان کے ایک علاقے میں خاکروب جھاڑو تھامے کھڑی ہیں (اے ایف پی)

زندگی کی دوڑ میں بھاگتے ہوئے پیچھے مڑ کر جب میں اپنی نانی اماں کو یاد کرتا ہوں تو کہانیاں تو یاد نہیں آ تی مگر روزمرہ کی زندگی کے کچھ کردار ضرور یاد میں ابھرتے ہیں جو معاشرے کے عمومی رویوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

شیخ رشید کا حلقہ، گوال منڈی، لیاقت باغ، نالہ لئی، مریڑ چوک، ورکشاپس، نانی ماں کا گھر، سب مقامات جیسے ایک دوسرے کے ساتھ آئے پروئے ہوئے ہوں۔

ایسے ہی ایک کردار سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی ساری زندگی زمین اور زمین پر بسنے والوں کا بوجھ اٹھاتے گزری۔

کنٹونمنٹ بورڈ کے دفتر کی نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعد راولپنڈی میں گوالمنڈی کے گھر اور گلیاں۔

اس قدیم اور کثیر آبادی والے محلے کے سب باسی ایک دوسرے سے شاید شناسا نہ ہوں اور ایک دوسرے کے گھر کبھی نہ گئے ہوں مگر یہ خاتون بلاناغہ تین سے چار دہائیاں بلا تفریق ہر گھر جاتی رہی، ہر گلی گھومتی رہی اور اس محلے میں بسنے والوں کی اجتماعی اور انفرادی غلاظت کا بوجھ ڈھوتی رہی۔

’راج،‘ ایک ایسا نام جس سے 80، 90 اور 2000 کی دہائی میں گوالمنڈی میں بسنے والا ہر شخص واقف ہوگا۔

سارے گھر کا کوڑا ڈسٹ بن میں اور ہر گھر کا ڈسٹ بن راج کی ٹوکری میں۔

نہ جانے وہ ٹوکری کہاں خالی ہوتی تھی، ورک شاپس کے ساتھ چھوٹے نالے میں یا نالہ لئی میں یا پھر وہ ٹوکری کوئی جادوئی زنبیل تھی جو سارا کوڑا اور غلاظت اپنے اندر جذب کر لیتی تھی۔

گوالمنڈی کوڑے کا ڈھیر اور ایک پر تعفن جوہڑ ہوتی، اگر راج اور اس کی ٹوکری نہ ہوتے اور اس کے انتہائی ضعف کے بعد اس کی اولاد اس کارخیر کو آگے نہ بڑھاتی۔

کچرے اور انسانی فضلے کو ٹھکانے لگانے کی تاریخ انسان جتنی ہی پرانی ہے۔

انسانی جسم ہی جب بوجھ ، فضلہ یا لاش بن جائے تو اس کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ قدرت نے ہی قابیل کو بتایا تھا اور فوری اور موثر طریقے سے بتایا تھا کہ اس کام میں دیر بالکل مناسب نہیں تھی۔

قبل مسیح کے زمانے سے مٹی کے پائپوں کا سیوریج سسٹم کھنڈرات کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔

ہاں انسان اور ایک خاص کیٹگری کے انسان کب اس شعبے سے منسلک ہوئے بلکہ لازم و ملزوم ٹھرا دیے گئے، اس کی تاریخ بہت واضح نہیں۔

ہندوؤں کے ہاں شودر اور دلت اس کام پر معمور ٹھہرا دیے گئے۔

مقامی عیسائی جو جانے کب اس خطے میں آئے اور بس گئے یا وہ نچلی ذات کے ہندو تھے جنہوں نے عارضی فلاح کے لیے خدا کا تصور بدل ڈالا، مگر کتاب اور خدا بدلنے سے بھی ان کی اور ان کی نسلوں کی تقدیر نہیں بدلی۔

چُوڑے، مسلی کے لاحقے لگا کر اس طبقے کے لیے ایک پیشہ مخصوص کر دیا گیا جو جتنا ضروری تھا اتنا ہی معتوب بھی۔

راج زندہ ہے، یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ میں نے تو ہمیشہ ایک بوڑھی عورت کو ہی کوڑا اٹھاتے دیکھا تھا۔ اصولی طور پر جو میرے اوائل بچپن میں بوڑھا تھا، اسے اب تک زمین کے نیچے ہونا چاہیے تھا۔

گلیوں میں چلتے پھرتے دیکھنے اور گھر سے کوڑا اٹھانے کی مشق کو یاد کر کے تو صفحہ قرطاس کا پیٹ نہیں بھرا جا سکتا تھا، لہٰذا طے یہ ہوا کہ ملنا چاہیے۔

راج کے بیٹے کو گوالمنڈی بلا کر گاڑی میں بٹھایا اور ڈھوک چراغ دین کی راہ لی۔ مریڑ حسن کے باہر گاڑی کھڑی کی۔

بطور ایک کمزور ڈرائیور، ہمت نہ ہوئی کہ گلیوں کے پرپیج جال میں گاڑی ڈالی جائے، سو پیدل چل دیے۔

ڈھوک چراغ دین اور مریڑ حسن کے درمیانی پل پر سے نالہ لئی میں بھینسوں کو نہاتے دیکھ کر سوچا کہ ان کے آگے بین بجانے کا محاورہ درست ہی بنا ہے۔ نالہ لئی کے کنارے شاپروں کا ڈھیر شہریوں کی جمالیاتی حسن کا نمائندہ ہے۔

پل کے بعد گلیوں کا ایک اور جال شروع ہوا۔ تنگ گلیاں، جہاں ایک وقت میں ایک شخص ہی گزر سکتا تھا۔ میزبان آگے آگے تھا۔

ایک گلی میں لوہے کا چھوٹا سا دروازہ کھول کر میزبان نے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ پہلی منزل پر ایک طرف واشنگ مشین چل رہی تھی تو دوسری طرف دو کمرے تھے۔

راج کے بچپن میں کوئی ہجرت، کوئی تبدیلئی مذہب یا کوئی اور دلچسپ کہانی نہیں۔ سرکاری ملازم (سینٹری ورکر) کے ہاں 30 کی دہائی کے آخر میں جنم لیا۔

پیدائش گوالمنڈی کے مندر کے احاطے میں ہوئی جہاں اب قصائی محلہ مندر کے کھنڈرات کو بھی نگل چکا ہے۔

بہن بھائیوں کی فراوانی تھی۔ ایک سخت گیر دادی بھی گھر میں موجود تھی۔ بچپن اور جوانی کا یہ احوال کچھ راج اور کچھ اس کے بڑے فرزند کی زبانی معلوم ہوا۔

راج کے دماغ پر پیرانہ سالی کا غلبہ ہے۔ وہ جھریوں بھرا چہرہ اور ہاتھ کوڑے کا ٹوکرا شاید اب بھی اٹھا سکتے ہوں مگر دماغ یادوں اور باتوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔

یہ بات جب ملاقات کے شروع میں محسوس کی تو یک گونہ مسرت ہوئی کہ شاید ایک مصالحہ دار داستان سننے کو ملے گی۔

 وہ داستان جس میں مذہب کے نام پر تفریق کی کہانی بھی ہو گی، پیشے کی وجہ سے تذلیل کے قصے بھی ہوں گے اور ہم آپ جن کا بوجھ راج نے دہائیوں تک ڈھویا ان سے بےشمار شکایتیں بھی ہوں گی۔

مگر راج تو زمین کا بوجھ اٹھانے والی ہے، ہمارے گھروں کی آلائشوں کا بوجھ سمیٹنے والی ہے۔ اس کی ٹوکری میں چاہے ہر چیز گندی اور بدبودار ہو مگر ذہن صاف، مثبت اور خوشبودار ہے۔

’اس وقت کے لوگ بہت اچھے ہوتے تھے‘، ’عیسائی اور مسلمان سب اکٹھے کھیلتے تھے،‘ ’سب بڑے چھوٹے کا خیال کرتے تھے،‘ ’مسلمان بہت اچھے لوگ ہیں،‘ ’میں نے اپنا کام بہت اچھا کیا،‘ ’اب بیٹے کرنے نہیں دیتے۔ ‘

اتنی غربت، افلاس اور بدنام شعبے سے منسلک رہ کر بھی کوئی منفی جملہ منہ سے نہ نکلا۔

 بچپن کی یادوں کو کھنگالنے کا کہا تو والد کی فوج سے منسلک نوکری اور رزق کی فراوانی کا ذکر کیا۔

’ہمارا باپ کھانے کی بہت سی چیزیں لاتا تھا، سب بہن بھائیوں اور دادی کے کھانے کے بعد بھی بچ جاتی تھیں تو ماں دوسروں میں بانٹ دیتی تھی، جمع نہیں کرتی تھی کہ خراب ہو جائیں گی۔ ‘

’والد سخت تھے اور چاہتے تھے کہ بچے پڑھ جائیں اور جھاڑو کا کام نہ کرنا پڑے۔ والدین کی چاہت سے بڑا شاید اولاد کا نصیب ہوتا ہے۔

والد کٹر مسیحی تھے مگر مسلمانوں سے میل جول کو برا نہیں سمجھتے تھے۔ البتہ ہندوؤں سے تعلقات میں کافی تنگ نظر تھے۔ ‘

راج کی دادی البتہ نہ صرف ہندو لوگوں سے میل ملاپ رکھتی تھی بلکہ ان کو اپنے برتنوں میں کھانا بھی کھلا دیتی تھی۔ برتنوں سے انسانوں کی تقسیم کا سلسلہ بھی بہت پرانا ہے۔

مذہب، ذات پات، رنگ و نسل کی تفریق کھانے سے زیادہ برتن سے ہوتی ہے۔ گتے کے برتنوں کی ایجاد سے بھی معاملات میں بہتری نہیں آئی۔

نانی ماں کے گھر میں راج کے لیے مختص پیالہ آج بھی مجھے یاد ہے۔

 گھریلو ملازمین، گو اس زمرے میں نہیں آتے۔ طبقاتی تقسیم میں جھاڑو کا کام کرنے والوں سے کافی اوپر شمار ہوتے ہیں مگر اس ضمن میں ہماری اجتماعی نفسیات کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

اسد محمد خان کا باسودے کی مریم ہو، یا گردش رنگ چمن میں قرۃ العین حیدر کے ضمنی کردار ہوں، خاندان ملازمیں کے ساتھ امرا کا رویہ عجیب ہی رہا۔

کہیں تو ان میں اور گھر کے عام لوگوں میں صرف بال برابر فرق نظر آتا ہے اور کہیں یہ بالکل دو مختلف دنیاؤں کے باسی لگتے ہیں۔

’جھاڑو کا کام‘ کرنے والے ناولوں اور افسانوں کے کردار کم ہی بن کر ابھر پائے۔ نہ جانے اس دنیا کا کوڑا کون اٹھاتا تھا۔

راج کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی تھی کہ اس کا کوئی بچہ یہ کام نہ کرے کہ یہ کام گندا ہے، زیادہ اچھا نہیں۔

راج کے والد گو جھاڑو کے کام کو پسند نہیں کرتے تھے مگر سرکاری نوکری چاہے نچلے درجے کی ہو ہماری سکیورٹی سٹیٹ کی ان سکیور قوم کی ہمیشہ سے ترجیح رہی ہے۔

 راج کو بھی سرکاری نوکری پر کنٹونمنٹ بورڈ میں سینٹری ورکر کے طور پر بھرتی کرا دیا گیا۔ ’وہ زمانے اچھے تھے، لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔‘

گورنمنٹ سے منسلک ادارے میں جھاڑو کا کام راج کا مقدر بن گیا۔ گریڈ کم تھا لہٰذا عمر جھاڑو دیتے ہی گزری، جھاڑو پھیرنےکی نوبت نہ آٰئی کہ وہ کام ازل سے اعلیٰ گریڈ والوں کے سپرد رہا ہے۔

نوکری لگ گئی تو باری آئی شادی کی۔ مردان کے ایک پنجابی نے شادی کا پیغام بھیجا اور یہاں سے آغاز ہوا راج کی سرکاری کمائی پر پلنے والے نفوس کا، جو تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی رہی۔

شوہر دمے کا مریض تھا اور جھاڑو کا کام اس کی طبیعت اور فطرت شاید دونوں پر گراں گزرتا تھا۔

کوئی اور کام کرنا بھی اس نے ساری زندگی مناسب نہ سمجھا۔ آج بھی میرے سوال پر کہ وہ کام میں آپ کا ہاتھ کیوں نہیں بٹاتا تھا، پر رآج نے تنک کر جواب دیا کہ ’ساڈے مرد جھاڑو کا کام نہیں کرتے، اگر عورت کر رہی ہو۔‘

’اگرعورت کر رہی ہو، اگرعورت کر رہی ہو۔‘ منٹو نے معاشرے کے مردوں کی نفسیات کی غلاظت اٹھانے والی عورتوں پر اور ان کی معصومیت اور مظلومیت پر تو بہت لکھا مگر جھاڑو کا کام کرنے والی عورتوں اور کوڑے کے ڈھیر کو روزگار بنا کر اپنے شوہر اور بچوں کو پالنے والیوں کی نفسیات نہ کھنگال سکا۔

میں نے بھی شاید دیر کر دی کیونکہ رآج کے دماغ میں تو ماضی کی چھاپ مٹتی جا رہی ہے۔

چار بچے، غربت، افلاس اور بھوک راج کے حصے میں چھوڑ کر کے شوہر صاحب اگلے جہان چل دیے۔

دنیا میں جھاڑو والی کی کمائی پر گزارا کیا اور اسے حق زوجیت بخش کر احسان عظیم کیا۔

گورنمنٹ کی نوکری یہاں کام آئی اور کمہاروں کے محلے میں المشہور ’گولڈن سموسہ‘ کے پاس ایک چھت بچوں کا آسرا بن گئی۔

قریبی رشتے داروں میں کوئی مرد نہ تھا۔ باپ اور شوہر راہی عدم، بھائی اپنے دھندوں میں مگن۔ چار بچوں کا ساتھ ، مدد صرف مال روڈ کے ملکہ کے بت والے چرچ سے۔

ملکہ کو تو برطانیہ میں معلوم ہی نہ ہو گا کہ اس کے بت کے نام سے منسوب اس چرچ سے کئی خاندانوں کی آس جڑی ہے۔

اسی چرچ کے احاطے میں موجود نرسری سے پودے خریدنا برسوں میرے والد صاحب کی روٹین کا حصہ رہا۔

مذہبی عقیدہ اسی احاطے سے راج کو شاید جنت کے پھلوں اور پھولوں کی سپلائی کرتا تھا اور میرے والد کو اپنے لان کی خوبصورتی کا سامان دیتا تھا۔

اسی ملکہ کے بت والے چرچ کی برکتوں سے سرکاری تنخواہ اور کوارٹر کی نعمتوں کو استعمال کرکے راج نے بچوں کو کھلایا، پلایا اور کسی حد تک پڑھایا۔

بڑا بیٹا چپڑاسی اور منجھلا بیٹا ویلڈر کی نوکری، وہ بھی سرکاری حاصل کرنے میں کامیاب۔

راج کی ریٹائرمنٹ اور 2001 کا سیلاب اس خاندان کی چھت اپنے ساتھ لے گئے۔ بچوں کی نوکری اور رآج کی پنشن میں کرایہ نکالنا سخت مشکل تھا مگر ملکہ کے بت والے چرچ کی برکت سے سروائول ہو ہی گیا۔

راج نے گوالمنڈی کے گھروں سے کوڑا اٹھانا شروع کر دیا تھا، سرکاری نوکری کے دوران ہی۔ یہ ’پرائیویٹ پریکٹس‘ ہرگز اتنی نفع بخش نہ تھی۔

کوئی معتبر یا فکسڈ ذریعہ معاش ہرگز نہ تھا۔ زندگی کی ایک اور بڑی کلفت راج کی منتظر تھی۔

40 سالہ بیٹی چھوٹے چھوٹے بچوں کو بلکتا چھوڑ کر سفر آخرت پر روانہ۔ ملکہ کے بت والے چرچ سے خدا تک پہنچنے والی فریاد میں اضافہ۔ خدا کا کام بڑھ گیا تھا۔

جھاڑو کے کام کی کمائی میں برکت ڈالنا تھی۔ یتیموں کے سروں پر چھت اور پیٹ میں روٹی اسی کام کے مرہون منت جو ٹھہری۔

محنت کی عادی راج، گہرا سانولا چہرہ، کہنی تک چڑھے قمیض کے بازو، کندھوں پر لادی ٹوکری جس میں زمین والوں کا بوجھ ۔

صبح سے لے کر شام تک گوال منڈی کے ہر گھر کو بوجھ سے آزاد کرنا۔

گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے، سائیکل چلاتے، نانی اماں کے ساتھ واک کرتے، راج کو یہ کام کرتے دیکھنا اتنا ہی روزمرہ تھا جیسے کھانا پینا یا محبوب انکل کی دکان سے ٹافیاں خریدنا۔

نانی اماں کے گھر چونکہ وہ صبح آتی تھی لہٰذا چھٹیوں میں اس کو آتے دیکھنا پھر باورچی خانے کے ایک کونے میں بنی شیلف پر اپنے لیے مختص پیالے میں چائے پیتا دیکھنا بھی روز کا کام تھا۔

وہ ان برتنوں میں چائے کیوں نہیں پیتی جن میں ہم پیتے ہیں؟ اس میں اس کا مذہب خراب ہوتا ہے یا ہمارا دین؟ یہ سوال عمر کے مختلف حصوں میں ذہن میں آئے تھے۔

کبھی کیے تو نانی اماں نے تسلی بخش جواب نہ دیا۔ دیا بھی تو اس طرح کہ لوگ تو اسے چائے پانی پوچھتے ہی نہیں، یہ تو ہمارا گھر ہے جہاں اسے علیحدہ پیالے میں ہی سہی چائے ملتی تو ہے اور وہ بھی دو عدد رسک کے ٹکڑوں کے ساتھ۔

ڈیوڑھی میں یا لاؤنج اور کمرے کی باؤنڈری پر بنے ہوئے بنے پر بیٹھ کر چائے رسک کھاتی راج جھاڑو کا کام کرنے والی، کوڑا اٹھانے والی مائی نہیں بلکہ گوالمنڈی براڈکاسٹنگ ادارہ بن جاتی۔

چند سو روپے جو اسے ملتے تھے ان میں زیادہ حصہ شاید محلے کی خبریں سنانے کا تھا اور کم کوڑا اٹھانے کا۔

کسی کی بیماری کی خبر ہو یا غسل صحت کی، کونڈوں کا کھانا ہو یاعقیقے کی رسم، دعوت نامے سے پہلے راج کے ذریعے خبر سارے محلے میں پھیل جاتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے ہاں نانی کی بیماری میں زیادہ تر لوگ راج ہی سے بیماری کا سن کر عیادت کے لیے آتے تھے۔ گوال منڈی کا وائرلیس رابطہ تھی جھاڑو کا کام کرنے والی یہ بڑھیا۔

ہمارے ایک انکل جاپان سے گڑیا بیاہ لائے۔ ملنے آئے۔ جاپانی خاتون کو انڈین فلش اور پانی والے سسٹم سے آشنائی صفر تھی۔

بیت الخلا استعمال کیا تو ٹشو پیپر کے انبار سے گٹر بند۔ جاپانی مسائل کا حل بھی گوالمنڈی میں راج نے ہی نکالا اور فلش سسٹم کو ٹشو کے بوجھ سے نجات دلا کر رواں کیا۔

گوالمنڈی کے ایک کونے میں چوڑھوں کا محلہ نما ایک جگہ اب سے کچھ برس پہلے تک موجود تھی۔ جہاں اب ورک شاپس کی ایکسٹینشن اگ آئی ہے۔

طبقاتی اور مذہبی تفریق کا نمونہ، چند گھروں کی بستی۔ مجھے یاد ہے، ایک مرتبہ گلی کا گٹر بند ہوا تو میرے مرحوم نانا ابو نے کہا ’اب تو یہ لوگ بھی پڑھتے جا رہے ہیں اور دیگر کاموں کو اپنا پیشہ بنا رہے ہیں، کچھ سالوں بعد تو گٹر کھولنے کے لیے بھی کوئی میسر نہ ہو گا۔‘

کچھ پیشے کیوں کچھ طبقوں سے مخصوص کر دیے جاتے ہیں یہاں تک کہ ان پیشوں کی تمام تر غلط نسبت کے باوجود وہ لوگ ان کو اپنا نصیب بلکہ حق سمجھنے لگتے ہیں۔

فوجی نوکری میں بھمبھر کے قیام اور بھرتیوں کے عمل نے میرے شعور اور لاشعور پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ بھرتی میں سینٹری ورکرز کی ویکینسی آئی تو ساتھ ہی نوٹی فیکیشن آیا کہ مسلمان بھی اس کے اہل ہیں۔

بےروزگاری اور بھوک شاید وہ بوجھ بھی اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے جو مذہب اور ذات کے قانون میں مناسب نہیں ہوتا۔

اس پر مسیحی لوگوں کی یہ فکر تھی کہ یہ کام بھی مسلمان کریں گے تو ہم کیا کریں گے؟ کیسی کشمکش کا شکار ہے یہ معاشرہ!

 اسد محمد خان نے ایک جگہ لکھا ہے کہ نئی نسل جانے کیسی ہو گی؟ کیا اس کی زندگی کا مقصد فقط فکر معاش اور انٹرٹینمنٹ ہو گا؟ یہ بہت خوفناک سوال ہے۔

واقعی ہم ان دو مقاصد کے لۓ جی ریے ہیں۔ ہمارے ارد گرد جو لوگ زمین کا بوجھ اٹھا رہے ہیں یا اٹھا کر اب سستا رہے ہیں، اسے کسی سطح پر تسلیم نہیں کیا  جاتا۔

ایک بہت مشکل زندگی گزار کر پورے محلے کے کوڑے کے چھوٹی ٹوکریاں اپنی بڑی ٹوکری میں خالی کر کے بھی راج کے ہاتھ آج خالی ہیں۔

80 سال کی عمر میں تقریباً 60 سال معاشرے کی بدبو اور غلاظت کو سمیٹنے والی، ڈھوک چراغ دین کے اندھیرے محلے میں زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔

میرے نانا ایک اور واقعہ سنایا کرتے تھے کہ تقسیم سے پہلے وہ کانپور میں رہا کرتے تھے جہاں ایک حکیم ہوا کرتا تھا۔

اس کے چرچے دور دور تک تھے کہ وہ نبض پکڑ کر مرض کی تشخیص کر لیا کرتا تھا۔

مسلمانوں کی نبض تو وہ اپنی مبارک انگلیوں سے پکڑتا تھا مگر غیر مسلموں کے لیے اس نے ایک تنکا رکھا تھا کہ کہیں مرض کی تشخیص کرتے کرتے ناپاکی کو اپنا مقدر نہ بنا لے۔

ہم نے ایک معاشرہ (اگر ہم ہیں) کے طور پر آج بھی اس طبقے کے وجود کو تنکے کے ذریعے ہی محسوس کیا ہوا ہے اور اسے صرف زندگی نپٹانے کی اجازت دی ہوئی ہے، گزارنے کی نہیں۔

گزرتے وقت کے ساتھ گوالمنڈی کے کوڑے کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے راج نے اپنے لیے صرف زندگی کی ضروریات کا بوجھ ہی ڈھویا۔

سر پر چھت تک اپنی نہیں، آج کچھ ہو جائے تو بچوں کو آخری رسومات کے لیے بھی شاید قرض اٹھانا پڑے۔

ملکہ کے بت والے چرچ میں بیٹھا پادری اور اوپر بیٹھا خدا شاید دونوں زندگی اور فنا کی ٹرانزیشن فیس میں راج کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکالیں گے۔

راج تو مگر ساری زندگی کوڑا اٹھانے، فلش سسٹم رواں رکھنے اور خبروں کی ترسیل میں گنجائش نکالتی رہی۔

کبھی سو پچاس روپے کے لیے کسی کا کوڑا گھر نہیں پڑا رہا یا کسی کا فلش سسٹم کھلنے میں دیر نہیں ہوئی۔

راج کی سب خالہ، باجی، آپاں، آنٹی ایک ایک کر کے رخصت ہو گئیں۔ معاشرہ تو مسلسل تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ نئی نسل کو خبریں فیس بک سٹیٹس سے مل جاتی ہیں۔

فلش سسٹم جدید ہو گئے ہیں۔ رکتے ہی نہیں۔ 1999 میں میری نانی کے ساتھ راج کا پیالہ بھی چلا گیا۔

اب کوئی نہ تھا جو رآج کو بٹھا کے چائے پلاتا اور محلے کی روداد سنتا۔

وہ پیالا راج کے لیے چائے اور رسک کا ذریعہ تھا، میری نانی کے لیے خبروں کا اور میرے لیے شاید معاشرے کی تفریق کو سمجھنے کا۔

جدید سوچ، فراخدلی اور اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی ہم مذہب اور پیشے کے لحاظ سے کچھ لوگوں سے پیالہ بھر فاصلہ ضرور رکھتے ہیں۔

رآج کی نسل کے معززین چلے گئے۔ باورچی خانوں میں پڑے راج کے لیے مخصوص پیالے بھی ٹوٹ گئے یا کھو گئے مگر سکڑتے ہوئے دماغ کے ساتھ اب بھی راج اپنے باپ کے ساتھ ان سب لوگوں کا نام لیے جاتی ہے، رکتی نہیں اور کہے جاتی ہے، ’سب چلے گئے، ویڑا خالی ہو گیا۔‘

اس ایک گھنٹے کی شاید آخری ملاقات جس میں پہلی دفعہ راج کو ٹوکری کے بغیر دیکھا، بارہا اپنے باپ کا ذکر شاید الیکٹرا کمپلکس کا غماز ہے۔

یا شاید ہم سب کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے راج اتنی تھک گئی ہے کہ اسے پھر باپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔

جن لوگوں کا بوجھ وہ اونے پونے داموں تمام عمر اٹھاتی رہی، اب ان سے ویڑا بھی تو خالی ہو گیا ہے۔ اللہ کرے اوپر راج کے لیے کچھ بہتر ہو۔

شاید جب میں وہاں پہنچوں اور اپنی نانی کی تلاش میں نظریں دوڑاوں تو گوالمنڈی کی معزز خواتین کے ساتھ رآج بھی انہی کے برتنوں میں جنت کے مشروب پی رہی ہو ہو، یا شاید ادھر بھی کونے میں اس کا پیالہ علیحدہ ہی رکھا ہو اور ہو اور بہشت کے باغوں کا کوڑا اٹھا کر وہ ان خواتین کے پاس نیچے بیٹھ کر اسی الگ پیالے میں چائے پیتی ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ