آدم جی روڈ راولپنڈی کے آدم جی کون تھے؟

اس سڑک سے تو روزانہ ہزاروں لوگ گزرتے ہیں مگر کتنے جانتے ہیں کہ آدم جی وہ شخصیت تھی ایک زمانے میں جن کا ڈنکا ہندوستان بھر میں بجتا تھا۔

راولپنڈی کا آدم جی روڈ اور آدم جی (پبلک ڈومین/راولپنڈی سٹی بلاگ سپاٹ)

راولپنڈی صدر میں آدم جی روڈ پر بوہرہ برادری کا ایک وسیع و عریض جماعت خانہ ہے اس کے ارد گرد کا علاقہ بوہرہ برادری کے کاروباری مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔

یہاں آپ کو بوہرہ برادری کے لوگ خاصی تعداد میں نظر آئیں گے۔ جن کے نام پر یہ روڈ ہے وہ بھی بوہرہ برادری کی ایک نامی گرامی شخصیت گزرے ہیں جن کا اپنے وقتوں میں پورے ہندوستان میں ڈنکا بجتا تھا۔ انگریزوں نے جن جن اہم مواقع پر پنجاب کو نمائندگی دی ان میں سر فہرست نام آدم جی کا ہوتا تھا۔

اس سے پہلے کہ آپ یہ جان سکیں کہ سیٹھ آدم جی کون تھے، ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت راولپنڈی جو ہندوستان کا سب سے خوبصورت اور بڑا کنٹونمنٹ تھا، وہاں اگر کسی سڑک کا نام کسی مقامی شخصیت کے نام پر رکھا گیا تو وہ یہی سیٹھ آدم جی تھے۔

اس وقت یہ گلی میسی گیٹ سے ریلوے روڈ تک جاتی تھی مگر پاکستان بننے کے بعد سرور اور سر سید چوک سے لے کر ریلوے روڈ تک پوری روڈ آدم جی کے نام سے موسوم کر دی گئی۔ انگریز دور میں سرسید چوک سے جو روڈ میسی گیٹ موجودہ ہاتھی چو ک تک آتی تھی وہ میکسن روڈ کہلاتی تھی۔

تب بینک روڈ ایڈورڈ روڈ، حیدر روڈ لارنس روڈ، کشمیر روڈ، ڈلہوزی روڈ ، سرور روڈ وائن تھامس روڈ، افتخار جنجوعہ روڈ اور تمیز الدین روڈ نیپر روڈ، طفیل روڈ میکڈالا روڈ، اور لال کرتی روڈ ماموں جی روڈ کہلاتی تھی۔ ماموں جی سیٹھ آدم جی کے والد تھے گویا راولپنڈی صدر میں دونوں باپ بیٹا کے نام پر سڑکوں کے نام رکھے گئے تھے۔

جارج پنجم بادشاہ بننے کے ایک سال بعد ہی ہندوستان آئے تو ان کی تاج پوشی کے لیے دہلی میں ایک شاہی دربار منعقد کیا گیا، جس میں ہندوستان بھر سے راجے مہاراجے اور اہم شخصیات مدعو کی گئیں۔

راولپنڈی سے بطور خاص آدم جی کو یہ مرتبہ ملا۔ بادشاہ کے ساتھ ملکہ کوین میری بھی تھیں۔ اس دربار کے بارے میں تمام تر تفصیلات 426 صفحات پر مشتمل ایک کتاب  Imperial Coronation Darbar 1911 میں دی گئی ہیں۔ اسی کتاب میں آدم جی ماموں جی کا ایک مختصر پروفائل بھی لکھا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ راولپنڈی کے عزت مآب خان بہادر آدم جی ماموں جی 1859 میں کاٹھیا واڑ کے علاقے جام نگر کے بوہرہ خاندان میں پیدا ہوئے۔

انہوں نے مشن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ 1890 میں ایف اے کا امتحان پا س کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ اپنے خاندانی کاروبار میں شامل ہوگئے جہاں انہوں نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے فلاحی کاموں میں بھی دلچسپی لینی شروع کر دی جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 1893 میں انہیں راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کا رکن نامزد کر دیا گیا۔

وہ انجمن اسلامیہ راولپنڈی کے صدر اور مسلم لیگ کے صوبائی نائب صدر بھی رہے۔ وہ ماموں جی اسلامیہ ہائی سکول کے بانی بھی تھے۔ ان کے عوامی فلاحی کاموں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں دہلی دربار منعقدہ 1903 میں بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کی جانب سے اعزازی سند پیش کی گئی۔

1907 میں انہیں خان بہادر کے خطاب سے نوازا گیا۔ 1911 میں بوہروں کے روحانی پیشوا نے جب بمبئی کا دورہ کیا تو انہیں ’شجاع الدین‘ کے خطاب سے نوازا گیا جام صاحب اس دورے میں سٹیٹ گیسٹ تھے۔

بعد میں بوہروں کے روحانی پیشوا جام صاحب جب سری نگر سے واپسی پر راولپنڈی آئے تو وہ سیٹھ آدم جے ہی کے ہاں مہمان ٹھہرے۔ سیٹھ آدم جی کو فرسٹ کلاس اعزازی مجسٹریٹ کا بھی درجہ دیا گیا۔ اس کے ساتھ انہیں فوجداری جرائم کو سننے کے لیے بھی اضافی اختیارات حاصل تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ڈسٹرکٹ بورڈ راولپنڈی کے رکن اور میونسپل کمشنر بھی رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 1909 میں جب نئی انتظامی اصلاحات کے تحت پنجاب اسمبلی قائم ہوئی تو وہ اس کے رکن منتخب ہو گئے، جہاں انہوں نے 1912 تک دلجمعی سے کام کیا اور عوام کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے بھی دل جیتے۔

یہ 11 رکنی اسمبلی تھی جس میں تین کے علاوہ باقی تمام ممبر انگریز تھے۔ وہ اپنی بے مثال کردار کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں میں یکساں مقبول تھے اور دونوں ہی ہر معاملے میں ان پر اعتماد کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب 1912 میں یہاں مذہبی طور پر اشتعال انگیز صورتحال پیدا ہوئی تو یہ سیٹھ آدم جی ہی تھے جنہوں نے حالات کو ٹھنڈا کیا۔

1911 میں دلی میں شاہی دربار کے موقع پر انہیں گورنر پنجاب کی جانب سے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا جہاں بادشاہ ِ وقت کے ہاں انہیں سرفرازی ملی۔ 1912 میں جب انگریزوں نے نئی دلی کا افتتاح کیا تو ا س موقع پر بھی انہیں مدعو کیا گیا جہاں انڈیا کے لیے نئے وائسرائے بھی موجود تھے۔

انگریزوں نے 1913 میں ہندوستان بھر کے کنٹونمنٹس کے حوالے سے جب نئے قواعد بنائے تو یہ کام جس کمیٹی کے سپرد ہوا تھا اس کمیٹی کا ممبران کا تقرر وائسرائے نے کیا تھا جس میں خان بہادر سیٹھ آدم جی بھی تھے۔ اس وقت کے بنائے ہوئے قانون معمولی رد و بدل کے ساتھ آج تک لاگو ہیں۔ سجھان سنگھ نے جب میسی گیٹ بنوایا تو ا س کے اوپر والی منزل پر شہر کی پہلی لائبریری بھی سیٹھ آدم جی کے عطیہ سے ہی بنائی گئی۔ ڈینیز ہائی سکول کے قیام کے وقت بھی سب سے زیادہ چار ہزار روپے کا عطیہ انہوں نے ہی فراہم کیا تھا۔

راولپنڈی میں ان کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزوں نے کنٹونمنٹ صدر میں دو سڑکوں کے نام آدم جی اور ان کے والد ماموں جی کے نام پر رکھے۔ تقسیم کے وقت راولپنڈی میں جب فسادات پھوٹ پڑے تو حالات کو معمول پر لانے کے لیے جو امن کمیٹی بنائی گئی اس کے سربراہ بھی وہی تھے۔

پروفیسر منظور الحق صدیقی اپنی تصنیف ’قائد اعظم اور راولپنڈی‘ میں لکھتے ہیں کہ اسلامیہ ہائی سکول مری روڈ شہر میں مسلمانوں کا واحد سکول تھا جس نے تحریک پاکستان میں وہی کردار ادا کیا تھا، جیسا اسلامیہ کالج لاہور، پشاور یا علی گڑھ یونیورسٹی نے کیا تھا۔ یہاں قائد اعظم نے 1936 میں ایک جلسے سے خطاب بھی کیا تھا۔

یہ سکول جب بن رہا تھا تو اس کی تعمیر کے لیے سیٹھ ماموں جی نے چار ہزار روپے کا عطیہ بھی دیا تھا جس کی وجہ سے سکول کا نام ماموں جی اسلامیہ ہائی سکول رکھا گیا تھا۔

راولپنڈی کی جامع مسجد کی تعمیر کے لیے بھی آدم جی نے 10 ہزار کا چندہ دیا تھا جس کو درج کرتے ہوئے ’تاریخ راولپنڈی و تحریک پاکستان‘ کے صفحہ 39 پر محمد عارف راجہ لکھتے ہیں کہ مسجد کی تعمیر کے بنیادی محرک قاضی گوہر رحمٰن کے پاس ایک موقع پر مسجد کی تعمیر کے لیے پیسے ختم ہو گئے تو وہ سرکلر روڈ پر واقع اپنی ایک ایکڑ پر مشتمل شاندار کوٹھی کو فروخت کرنے پر تیار ہو گئے اور اس کے لیے سیٹھ آدم جی کے پا س گئے تو آدم جی نے کوٹھی کی قیمت کے برابر رقم جو دس ہزار روپے بنتی تھی اپنی طرف سے عطیہ کر دی۔ یہ سیٹھ آدم جی کا ایثار تھا۔

سیٹھ آدم جی اور ان کے والد ماموں جی جام نگر کاٹھیا واڑ سے ہجرت کر کے کیوں راولپنڈی آئے تھے، اس سوال کا بظاہر کہیں کوئی جواب نہیں ملتا۔

جام نگر کاٹھیا واڑ کا ایک شہر ہی نہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی بوہرہ برادری کے لیے مقدس ہے کہ وہاں بوہرہ برادری کے روحانی پیشوا سیدنا اسماعیل برہان الدین اوّل نے 1676 میں وصال فرمایا جن کا مقبرہ مزار بدری کے نام سے جام نگر میں موجود ہے اور بوہروں کا مقدس مقام تصور کیا جاتا ہے۔

 جام نگر گجرات کے ساحلوں پر ایک تجارتی شہر ہے جہاں کے بوہروں کی تجارت افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ آدم جی اور ان کے والد ماموں جی کاٹھیا واڑ میں غلے کی تجارت کا کام کرتے تھے اور انہیں وہاں سے لا کر انگریز فوجیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہی راولپنڈی بسایا گیا تھا۔ آج راولپنڈی میں بوہرہ برادری کی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اور پاکستان میں پچاس ہزار کے قریب ہے۔

آدم جی کا انتقال کب ہوا، اس کے بارے میں ان کے رشتہ داروں کے پاس بھی کوئی معلومات نہیں تھیں اور مزید حیرت یہ بھی ہے کہ آدم جی کی زندگی اور کام کے بارے میں ان کا کوئی رشتہ دار کچھ زیادہ نہیں جانتا۔

میں تقریباً ایک سال تک صدر میں بوہرہ برادری کے سرکردہ افراد کے پاس چکر لگاتا رہا ہوں۔ لگ بھگ ایک درجن افراد کے نمبر میرے فون میں محفوظ ہیں، مگر کسی کے پاس نہ ہی ان کے بارے میں زیادہ معلومات ہیں نہ ہی تصاویر۔ آدم جی کی تاریخِ وفات کا پتہ بھی مجھے اس وقت چلا جب میں رتہ امرال میں بوہرہ برادری کے قبرستان میں گیا جہاں ان کی قبر پر تاریخِ وفات اگست 1948 لکھی ہوئی ہے۔

اسی قبرستان میں سب سے پرانی قبر بھی 19ویں صدی کی آخری دہائی کی ہے، گویا بوہرہ کمیونٹی کے لوگ انگریز دور میں ہی یہاں آ کر بسے تھے۔ غالب امکان یہی ہے اور بوہرہ برادری کے لوگ بھی یہی بتاتے ہیں کہ وہ گجرات میں بڑے کاروباروں سے منسلک تھے۔ جب انگریزوں نے یہاں چھاؤنی بنائی تو وہ بہتر مواقع کی تلاش میں یہاں آ کر بس گئے۔

ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ انگریزوں نے بوہرہ کمیونٹی کی امن پسندی، ایمانداری اور کام سے لگن کو دیکھتے ہوئے انہیں خود عسکری حوالے سے ایک حساس کنٹونمنٹ میں لا کر بسایا تھا۔

آدم جی کا گھر آدم جی روڈ پر بوہرہ کمیونٹی کے عبادت خانے کی پچھلی گلی میں واقع ہے گھر کا آدھا حصہ گرا کر اس پر نئی عمارت تعمیر کر دی گئی ہے جبکہ آدھا حصہ اپنی اصلی شکل میں موجود ہے۔

حیرت انگیز طور پر اس محلے کا کوئی باسی یہ نہیں جانتا کہ اپنے وقت کا یہ نامور آدمی کون تھا۔ آدم جی روڈ پر روزانہ ہزاروں لوگ گزرتے ہیں مگر اس عظیم شخصیت سے نابلد ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ